پیسہ کہیں ٹیم کا اتحاد نہ توڑ دے

سلیم خالق  ہفتہ 22 جولائی 2017
ایک تقریب میں کپتان سرفراز احمد کو پلاٹ اوردیگر کو صرف چند لاکھ انعام پر بعض کھلاڑیوں نے دبے الفاظ میں احتجاج بھی کیا۔ فوٹو : پی سی بی

ایک تقریب میں کپتان سرفراز احمد کو پلاٹ اوردیگر کو صرف چند لاکھ انعام پر بعض کھلاڑیوں نے دبے الفاظ میں احتجاج بھی کیا۔ فوٹو : پی سی بی

1992 کی بات ہے،پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا میں ورلڈکپ جیت کر تاریخی کارنامہ انجام دیا، اس فتح میں عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت کا اہم کردار تھا، وہ اس کے بعد انگلینڈ  سے سیریز میں بھی حصہ لینا چاہتے تھے، مگر ایونٹ میں جس اتحاد نے گرین شرٹس کو فتح دلائی وہ ٹرافی جیتنے کے بعد پارہ پارہ ہونے لگا اور اس کی وجہ پیسہ بنا، رمیز راجہ سمیت کئی سینئرز کو ایسا لگتا تھا کہ انعامی رقوم میں سے بیشتر حصہ عمران خان کے کینسر اسپتال کو چلا جاتا ہے،کپتان نے حالات کو بھانپ لیا اور مزید کرکٹ کھیلنے کا ارادہ ترک کر کے ریٹائر ہو گئے۔

یوں پیسے نے ٹیم میں پھوٹ ڈال دی، ان باتوں کا اعتراف سابق کھلاڑی خود کئی انٹرویوز میں کر چکے ہیں۔ اب2017  میں پاکستانی ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی میں فتح حاصل کر کے تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا، کھلاڑیوں پر نوٹوں  کی برسات ہو رہی ہے جنھوں نے کچھ نہیں کیا وہ بھی بینک بیلنس بڑھا رہے ہیں، مگر اس دوران بدمزگیوں کی اطلاعات بھی آنے لگی ہیں،ایک تقریب میں کپتان سرفراز احمد کو پلاٹ اوردیگر کو صرف چند لاکھ انعام پر بعض کھلاڑیوں نے دبے الفاظ میں احتجاج بھی کیا، گوکہ پی سی بی اس واقعے سے انکاری ہے مگر کچھ تو گڑبڑ ضرور ہے، کہیں پیسہ موجودہ کھلاڑیوں کو بھی آپس میں نہ لڑوا دے بورڈ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔

آئی سی سی سے انعامی رقم، وزیر اعظم و دیگر سے بھی کیش پا کر ویسے ہی  تمام پلیئرز کئی کروڑ تو اکاؤنٹ میں جمع کرا ہی چکے ہیں، اب انھیں  اپنے اصل کام یعنی کرکٹ پر توجہ دینی چاہیے، چیمپئنز ٹرافی جیتے یقیناً یہ اچھی بات ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس اب  دوبارہ کرکٹ ہی نہیں کھیلنی،آئندہ بھی کئی بڑے امتحانات آنے ہیں ان کی تیاری بھی کرنی چاہیے، دوسرا بورڈ خود بھی اب ٹیم کا خیال رکھے.

میں نے ایک آفیشل سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ  بعض سینئر عہدیدار ٹیم کو تقاریب وغیرہ میں بھیجنے کا  فیصلہ انعامی رقم دیکھ کر کرتے ہیں،اتنا زیادہ ایکسپوژر دینا درست نہیں، حکام کو اب احتیاط سے کام لینا ہوگا، لالچ بُری بلا ہے، یہ بات یاد رکھنے والی ہے،کوچ مکی آرتھر پاکستان واپس آنے والے ہیں ان کے ساتھ بیٹھ کر مستقبل کا کوئی پلان بنائیں، کھلاڑیوں کو مصروف رکھیں ورنہ انعامات کی پیچھے بھاگ بھاگ کر ہی کہیں کوئی ان فٹ نہ ہو جائے۔

افسوس ان دنوں کرکٹرز فارغ اور وکلا مصروف ہیں، پی سی بی اسپاٹ فکسنگ کیس  کا ہی اب تک کوئی فیصلہ نہیں کر پایا، سماعت ہوتی ہیں میڈیا پر کرکٹ کے بجائے ’’ڈاٹ بالز کیوں کھیلیں، گرپ کیوں بدلی‘‘، ایسی بریکنگ نیوز چلتی ہے، دنیا بھر میں پاکستان کرکٹ کو اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس معاملے کو اب جلد منطقی انجام تک پہنچا دینا چاہیے.

بورڈ حکام کئی ماہ سے ناقابل تردید ثبوتوں کا ذکر کر رہے ہیں اگر ایسا ہوتا تو کب کی کھلاڑیوں کو سزا ہو چکی ہوتی مگر شاید  یہ دعویٰ درست نہیں، حکام کو ڈر ہے کہ سزا کے بعد پلیئرز عدالت گئے تو وہاں سے ریلیف مل جائے گا، بہرحال یہ بیحد پیچیدہ کیس ہے جس نے پاکستان کرکٹ کی ساکھ داؤ پر لگا دی، نجانے اس کا ازالہ کیسے ہوگا، شرجیل خان جیسا باصلاحیت اوپنر اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی بھینٹ چڑھ گیا، یہ پاکستان کرکٹ کیلیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔

عدالت میں تو ان دنوں نجم سیٹھی کا بھی ایک کیس چل رہا ہے، وہ چیئرمین بننا چاہتے ہیں مگر قانونی رکاوٹیں حائل ہو رہی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں ان کے قریبی لوگ ہی شامل ہیں،اگر سیٹھی صاحب اپنی آستینیں جھاڑیں تو انھیں حقیقت کا علم ہو جائے گا،جو لوگ انھیں ایسے مسائل میں پھنسا رہے ہیں وہی ان سے نکالنے کے بعد پھر سے ان کی نظر میں ’’ہیرو‘‘ بن جائیں گے، سمجھنے والے کیلیے اشارہ کافی ہے، ابھی تو ذکا اشرف خاموش بیٹھے ہیں،آئندہ چند روز میں ان کی جانب سے بھی قانونی جنگ چھیڑے جانے کا امکان ہے، پھر حکومت بھی پاناما کیس کی وجہ سے ہلی ہوئی ہے نجانے آگے کیا ہو،اس سے صاف ظاہر ہے کہ  چیئرمین کے کمرے تک پہنچنا اب بھی نجم سیٹھی کیلیے آسان نہیں، دیکھتے ہیں آئندہ چند روز میں کیا ہوتا ہے۔

ان دنوں تھوک کے حساب سے بنگلہ دیش لیگ کیلیے پاکستانی کھلاڑیوں کے معاہدے ہو رہے ہیں، حالانکہ اسی ایونٹ سے کئی کرکٹرز  بکیز کے  قریب آئے، ناصر جمشید کا تو پاسپورٹ بھی ضبط ہو چکا تھا، قومی اسکواڈ میں شامل ایک کھلاڑی گزشتہ ایڈیشن میں ’’ہنی ٹریپ‘‘ کا شکار ہوا، اس کے کمرے میں بکیز کی آلہ کار لڑکی کے جانے کی سی سی ٹی وی فوٹیج  بھی اینٹی کرپشن حکام کے پاس تھی لیکن وہ کیس دبا دیا گیا، ایسے خطرناک ایونٹس سے تو پی سی بی کو اپنے کھلاڑیوں کو دور رکھنا چاہیے مگر افسوس کہ ماضی کی غلطیوں سے  کوئی سبق نہیں سیکھا جاتا، بات پھر وہی آ جاتی ہے پیسہ، ہمارے کھلاڑی بھی جہاں تھوڑے ڈالرز ملیں دوڑے دوڑے چلے جاتے ہیں حالانکہ انھیں اپنا کیریئر بھی دیکھنا چاہیے۔

گزشتہ دنوں میں نے چیئرمین بورڈ شہریارخان سے گفتگو میں بنگلہ دیش لیگ کے حوالے سے پوچھا تھا، مگر ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ کسی کرکٹرکو جانے سے نہیں روکیں گے ، اگرایسا ہوا تو اگلی پی ایس ایل میں بھی  فکسنگ اسکینڈل کیلیے تیار رہنا چاہیے، آپ بھارت کی مثال لیں وہ اپنے کھلاڑیوں کو کسی نجی لیگ کیلیے ریلیز نہیں کرتا۔

چلیں پہلے یہ جواز مانا جا سکتا تھا کہ  بھارتی کھلاڑی آئی پی ایل سے ہی اتنی رقم کما لیتے ہیں کہ کہیں اور جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، مگر اب تو ہمارا ملک بھی پی ایس ایل کرا رہا ہے، اس سے بھی پلیئرز کو اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی ہے، اسی کے ساتھ انگلینڈ میں کھیلنے میں بھی کوئی قباحت نہیں، اس سے کھلاڑیوں کو سیکھنے کا ہی موقع ملتا ہے، مگر بنگلہ دیش کرکٹ لیگ جیسے ایونٹس میں شرکت کا مطلب خود مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، اس کیلیے اجازت دینے کے فیصلے پر نظرثانی ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔