ڈالر کی اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک قدر کا فرق 2 فیصد سے تجاوز

احتشام مفتی  ہفتہ 22 جولائی 2017
گورنر اسٹیٹ بینک کی اوپن مارکیٹ اور انٹربینک میں ڈالر کی قدر کا فرق بہرصورت ایک فیصد تک محدود کرنیکی ہدایت۔ فوٹو: فائل

گورنر اسٹیٹ بینک کی اوپن مارکیٹ اور انٹربینک میں ڈالر کی قدر کا فرق بہرصورت ایک فیصد تک محدود کرنیکی ہدایت۔ فوٹو: فائل

 کراچی: حکومت کی جانب سے عازمین حج کو1 ہزارڈالرمالیت کے ٹریول چیکوں کے عدم اجرا کے باعث جاری حج سیزن کے دوران اوپن کرنسی مارکیٹ پر 20 کروڑ ڈالر کے مساوی غیر ملکی کرنسیوں کا دباؤ بڑھ گیا ہے جس کے نتیجے میں انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان ڈالر کی قدر کا فرق 2 فیصد سے تجاوز کرگیا ہے اور اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قدر 107.10 تا 107.40 روپے کے درمیان پہنچ گئی ہے تاہم اگست 2017 کے دوسرے ہفتے میں حج آپریشن ختم ہوتے ہی امریکی ڈالر کی قدر دوبارہ اپنی سابقہ پوزیشن پرآجائے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ گورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالرکی قدر میں فرق کی شرح2 فیصد سے تجاوز ہونے پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے نمائندوں پرمشتمل اجلاس طلب کیا جس میں تمام ایکس چینج کمپنیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان ڈالرکے فرق کو بہر صورت 1فیصد تک محدود کریں۔

گورنراسٹیٹ بینک نے یقین دلایا کہ بحیثیت ریگولیٹر اسٹیٹ بینک انٹربینک مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدرکومستحکم رکھے گا لہٰذا ایکس چینج کمپنیوں اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستانی روپے کی قدربڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں اوربلاجواز ڈالرسمیت دیگر غیرملکی کرنسیوں کی خریداری سے گریز کریں۔

پاکستانی روپے کے استحکام اورزرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کے حوالے سے گورنراسٹیٹ بینک نے فاریکس ایسوسی ایشن کی رکن ایکس چینج کمپنیوں کے کردارکی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک اس شعبے حقیقی مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرائے گی اور ایکس چینج کمپنیوں کی تجویز پرزرمبادلہ لیجانے والے ان کے فلائٹ کیریئرز کوریگولیٹراور محکمہ کسٹمزکی نگرانی میں فلائٹس پرسوار کرنے کا میکنزم ترتیب دے گا۔

دوران اجلاس فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے بتایا کہ سالانہ بنیادوں پر حج سیزن کے آغاز ہوتے ہی اوپن کرنسی مارکیٹ پر زرمبادلہ کی طلب بڑھنے مارکیٹ کے طلب ورسد کے توازن کوبگاڑدیتی ہے لیکن اس بارسیاسی افق پرغیریقینی صورتحال، پانامہ کیس جیسے عوامل کی وجہ سے 5 جولائی کوانٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قدر108.50 روپے کی بلندترین سطح تک پہنچنے سے ملکی سطح پرہلچل پیدا کردی تھی اوراس غیریقینی کیفیت میں ڈالر کی قدر116 روپے تک پہنچائے جانے کی آئی ایم ایف کے اعلامیے نے مزید شدت پیدا کی لیکن وفاقی وزیرخزانہ اسحق ڈار کی جانب سے ڈالر کی قدربڑھانے میں ملوث عناصر کے خلاف تحقیقات کے اعلان کے بعد انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدردوبارہ تنزلی کا شکار ہوئی۔

ملک بوستان نے بتایا کہ مئی2017 سے ہی اوپن مارکیٹ میں زرمبادلہ کے خریداروں کا دباؤ بڑھناشروع ہوا ہے جس کااندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے ماہوار بنیادوں پربھنانے کے لیے اپریل میں 17 کروڑ ڈالرکی سرپلس فارن کرنسی ایکسپورٹ کی گئی جومئی میں گھٹ کر12 کروڑڈالراورجون میں مزید گھٹ کر8 کروڑ ڈالر کی سطح پر آگئی۔ اس طرح سے ماہواربنیادوں پراوپن مارکیٹ کو4 کروڑ ڈالر کے شارٹ فال کا سامنا ہے۔

ملک بوستان نے گورنراسٹیٹ بینک کوبتایا کہ کمرشل بینکس ایکس چینج کمپنیوں کی توسط سے آنے والے ورکرزریمیٹنسز کے عوض امریکی ڈالرایک روزکی تاخیر سے فراہم کرتے ہیں لیکن بینکوں کا یہ طرز عمل بھی ڈالر کی قدر میں اضافے کا باعث بنتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی بینک کمرشل بینکوں کو پابند بنائے کہ وہ ورکرزریمیٹنس پہنچتے ہی ایکس چینج کمپنی کے اکاؤنٹ میں زرمبادلہ منتقل کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام باشعور ہے اور وہ افواہوں کی بنیاد پرغیرضروری طور پر امریکی ڈالر سمیت دیگرغیرملکی کرنسیوں کی خریداری سے گریز کریں اور پاکستانی روپے کے استحکام کو یقینی بنانے میں تعاون کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔