مسجد اقصیٰ پر صہیونی یلغار

صابر کربلائی  ہفتہ 22 جولائی 2017
فلسطین میں انسانیت کے معیار بدل جاتے ہیں نہ ہی اقوام متحدہ کو انسانیت یاد رہتی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو احساس ہوپاتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

فلسطین میں انسانیت کے معیار بدل جاتے ہیں نہ ہی اقوام متحدہ کو انسانیت یاد رہتی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو احساس ہوپاتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

 مسجد اقصیٰ ایک ایسا مقدس ترین مقام ہے کہ جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے بھی برابر ہی مقدس مقام ہے۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں خداوند کریم کی طرف سے بھیجے گئے ایک لاکھ چالیس ہزار انبیائے کرامؑ کی آمد کا سلسلہ رہا اور کسی نہ کسی حوالے سے انبیائے کرامؑ کے قدم مبارک اِس سرزمین پر پہنچے، اسی طرح اِس مقام کی فضیلت میں ایک یہ بھی ہے کہ تمام انبیاءؑ کے سردار یعنی سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو شب معراج مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لایا گیا تھا۔ اِس مقام کے فضائل کے بارے میں مزید باتوں کو تحریر کیا جاسکتا ہے لیکں فی الحال اسی پر اکتفا کرتے ہیں اور موضوع کی طرف آتے ہیں۔
 مسجد اقصیٰ قبلہ اول بیت المقدس کو 59 سال بعد ایک مرتبہ پھر غاصب صیہونی اور جعلی ریاست اسرائیل کے احکامات پر مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔ سنہ 1969ء کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ قبلہِ اول بیت المقدس کو فلسطینیوں کے لئے مکمل طور پر بند کیا گیا ہے۔ سنہ1969ء میں مسجد اقصیٰ کو صیہونی درندگی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کے باعث مسجد کے بڑے حصے کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اِس وقت بھی صیہونی احکامات پر مسجد اقصیٰ کو مکمل طور پر بند کردیا گیا تھا اور اب 14جولائی سنہ2017ء کو مسجد اقصیٰ پر صیہونی افواج کے ایک جارحانہ حملے کے بعد اسے ایک مرتبہ پھر مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔
 یاد رہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا اور تین نہتے فلسطینیوں کو شہید کردیا، جبکہ اسرائیلی افواج کی جانب سے مسجد اقصیٰ کی توہین بھی کی گئی جس پر فلسطینیوں نے شدید احتجاج کیا اور جھڑپوں میں دو اسرائیلی صیہونی فوجی بھی مارے گئے۔ بہرحال قبلہ اول بیت المقدس جو خانہ کعبہ او روضہ رسول ﷺ کے بعد مسلم دنیا کا تیسرا مقدس مقام ہے اسے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے اور فلسطینیوں کو داخل ہونے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
جعلی ریاست اسرائیل کی فلسطینی سرزمین پر قیام کے بعد سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح بیت المقدس پر اپنا مکمل کنٹرول حاصل کر لے اور اِس کام کے لئے صیہونیوں نے نہ صرف مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائی کر کے مسجد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، بلکہ سنہ 1969ء میں جنونی صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ کو نذرِ آتش کر کے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔14 جولائی سنہ2017ء کو اسرائیلی افواج کا بیت المقدس پر حملہ اور معصوم فلسطینیوں کو شہید کرنا اور پھر مسجد کو مکمل طور پر بند کر دینا دراصل ایک کے بعد ایک بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرنے کی کُھلی مثالیں ہیں۔
بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے قوانین کی رو سے دنیا کے ہر فرد کو آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہوں میں آزادی کے ساتھ عبادت کرے اور آمدورفت رکھے لیکن یہ واحد سرزمین فلسطین ہے کہ جہاں اسرائیلی مظالم اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے باعث مسلسل 70 برس سے فلسطینیوں کے تمام بنیادی حقوق پامال ہوتے آئے ہیں۔ کیونکہ فلسطین نہ تو فرانس ہے، نہ جرمنی ہے اور نہ ہی اٹلی و لندن اور نہ ہی امریکا و یورپ کا کوئی حصہ ہے بلکہ فلسطین مغربی ایشیاء کا دل ہے۔
فلسطین میں بسنے والے انسان بھی شاید امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک کے انسانوں سے بہت زیادہ مختلف ہیں کیونکہ امریکا، برطانیہ یا کسی یورپی ملک میں کوئی نفسیاتی مریض اپنی دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے لوگوں کو جبر و تشدد یا پھر کسی اور طرح سے نقصان پہنچانے کی کارروائی عمل میں لائے تو پوری دنیا میں ایسے واویلا مچایا جاتا ہے کہ قیامت ہی برپا ہوگئی ہواور انسانیت برباد ہوگئی، لیکن فلسطین میں انسانیت کے معیار بدل جاتے ہیں نہ ہی اقوام متحدہ کو انسانیت یاد رہتی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے نام پر بنائی جانے والی عالمی تنظیموں کو احساس ہوپاتا ہے کہ فلسطین میں بسنے والے بھی انسان ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلسطین میں بسنے والے انسان شاید اسرائیل کے پھول برساتے ٹینکوں کے سامنے زبردستی آ جاتے ہیں یا پھر شاید فلسطینی معصوم بچے بھی اسرائیلی میزائلوں کے سامنے آجاتے ہیں۔
14جولائی کو بھی دنیا نے دیکھا کہ کسطرح مسجد اقصیٰ کے صحن میں تین اسرائیلی فوجی ایک فلسطینی جوان کے جسم میں گولیاں اُتار رہے تھے۔ عالمی برادری کی بے حسی کو جھنجھوڑنے کے لئے میرے پاس جو شائستہ الفاظ ہیں میں نے اِن کا استعمال کیا ہے کہ شاید تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس مسلسل صیہونی سازشوں کے نشانے پر ہے، آئے روز فلسطین میں معصوموں کا قتل عام ہورہا ہے لیکن دوسری طرف امریکا اور اسرائیل نے دنیا کے تمام مسلمان ممالک کو داعش اور دیگر سیاسی مسائل میں ایسا اُلجھا رکھا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔
یہ یقینی طور پر مسلم دنیا کی بدترین صورتحال ہے کہ امریکی چال بازیوں میں پھنس کر مسلم دنیا کے حکمران اپنے اصل مقاصد اور ترجیحات کو پسِ پشت رکھنا چاہتے ہیں اور اِن کی اِس غفلت اور لاپرواہی کے رویوں کے نتیجہ میں مسجد اقصیٰ کو صیہونیوں کی جانب سے بند کردیا جاتا ہے۔ کشمیر اور بھارت میں ہمارے مسلمان بھائی بہن مذہبی آزادی سے دور ہیں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار ہورہے ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور امریکی و اسرائیلی ناپاک عزائم کو سمجھنا ہوگا کہ امریکا اور اسرائیل کا مقصد یہی ہے کہ تمام مسلمان ممالک آپس میں گتھم گتھا ہوجائیں اور مسئلہ فلسطین کو فراموش کردیں اور صیہونیوں کی اِس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی بدقسمتی سے مسلم دنیا کے حکمران ہی استعمال ہورہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے  مختصر  مگر جامع  تعارف  کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔