ڈاکٹر سلیم اختر سے ایک ملاقات  (آخری حصہ)

نسیم انجم  اتوار 23 جولائی 2017
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ان حالات میں ڈاکٹر سلیم اختر نے ’’عدم‘‘ سے اصلاح لی اور شاعری کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی، لیکن سال دو سال بعد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ شاعری کرنا محض وقت کا زیاں ہے، چونکہ مشاعروں میں شرکت ان کے بس کی بات نہ تھی، ویسے بھی تقریباً ہر دور میں سامعین سے زیادہ شعرا کی تعداد ہوتی ہے، بلکہ بعض اوقات تو میرے ذاتی تجربے کے مطابق شعری مجلس میں شرکت کرنے والے سب کے سب شعرا ہی ہوتے ہیں، سوائے دو تین کے جو ایک دوسرے کو سنتے اور داد دیتے ہیں۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب نے کالج کے زمانے میں فلسفہ اور نفسیات کی کتابوں کا مطالعہ کیا، پڑھتے ہوئے لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی، لہٰذا نفسیات اور فلسفے کے موضوعات پر مضامین لکھنے شروع کردیے، اس طرح تنقیدی رو تیز ہوگئی۔

تنقید کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا بلند اور منفرد مقام ہے۔ انھوں نے اردو ادب میں تنقید پر اتنا کام کیا ہے کہ انھیں معتبر نقاد کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے، اس طرح ان کا تنقیدی کام اہل ادب کو متوجہ کرتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے شاعر مشرق علامہ اقبال پر 10 کتابیں لکھیں، باقی مرتب اور ترجمہ شدہ ہیں۔ علامہ اقبال پر 10 کتابیں لکھنے کی وجہ یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹر علامہ اقبال کے فکر و فن کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا اور اسی عرق ریزی کے نتیجے میں کتابوں کی تخلیق و تالیف ہوتی چلی گئی۔ فرانسیسی خاتون کی کتاب کا ترجمہ کیا، جو انگریزی میں تھی بعنوان ’’فکر اقبال کا تعارف‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ رات کی تنہائی اور پرسکون ماحول میں قلم اور قرطاس سے رشتہ جوڑتے۔

ڈاکٹر صاحب کی گفتگو موسم بہار کا پتا دیتی ہے، نرم مزاجی، دھیمی ہنسی اور کہیں کہیں لطافت کی ننھی منی پھلجھڑیاں جلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے شب راحت و چین کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ بیوی کی یہ اچھی عادت ہے کہ جلد ہی سوجاتی ہیں اور میں کاغذ قلم سنبھال لیتا ہوں اور رات گئے تک میں لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتا ہوں۔ بے شک تخلیقی کاموں کے لیے ذہنی سکون اور تنہائی کی ضرورت پیش آتی ہے، سو وہ ڈاکٹر سلیم اختر کو میسر تھی۔

پچھلے وقتوں میں لوگ اچھی صحت اور وقت کی فراوانی کے تحت پیدل چلنا ضروری خیال کرتے تھے اسی لیے بیماریوں کا وجود بھی ناپید تھا، نہ بلڈ پریشر اور نہ ہی تیزابیت اور موٹاپے کے مسائل، لوگوں کو پیدل چلنے کی عادت بھی تھی، اس کی خاص وجہ صاف ستھری، تازہ ہوا میسر آتی تھی، کچرے، کوڑے کرکٹ سے پاک سڑکیں، میدانی علاقے، ان دنوں فلیٹس اور پلازہ بنانے کا نہ رواج تھا اور نہ ضرورت تھی۔ میدانی علاقوں کی بھرمار تھی، ان حالات اور ماحول میں ڈاکٹر سلیم اختر اپنے دوستوں کے ساتھ شاہراہوں اور مختلف علاقوں کا گشت کرتے، بقول ان کے پورا شہر چلتے تھے۔

والد صاحب کی طرف سے آزادی حاصل تھی، لہٰذا کوئی ڈر، خوف نہیں تھا البتہ اپنی ذمے داریوں کا انھیں پورا پورا احساس تھا، رات کو دل لگا کر پڑھتے اس محنت و مشقت کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ڈاکٹر سلیم اختر تو پاس ہوگئے، باقی مٹرگشت کرنیوالے ہم جماعت فیل ہوگئے، انھوں نے اپنی کامیابی سے سب کو حیران کردیا۔ حیران تو ڈاکٹر صاحب نے ان حاضرین، شائقین اور دوست احباب کو بھی کردیا، جن لوگوں نے ڈاکٹر سلیم اختر کو اسٹیج پر فیمیل کردار ادا کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں خوبصورت لڑکی کہلاتا تھا۔ بے شک ایسا ہی ہوگا کہ وہ رنگت اور نقوش کے اعتبار سے نسوانی روپ میں بہت آسانی اور بغیر کوشش کے ڈھل سکتے تھے۔ کالج کے ڈراموں میں وہ اسٹیج پر اسی انداز میں بارہا نظر آئے کہ پبلک ان کے اس کردار اور اداکاری کو پسند کیا کرتی تھی۔

ڈاکٹر سلیم اختر بحیثیت ایک انسان اور گلستان ادب میں ایک بلند قامت قلمکار ہیں۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر 90 کتابیں لکھیں، ان کی کتابوں کے قارئین، ناقدین اور مبصرین نے نہ صرف ان کی تحریروں کو پسندیدگی کی سند دی بلکہ داد و تحسین سے بھی نوازا اور ان پر مقالات لکھے گئے، پی ایچ ڈی کی گئی، کتابیں شایع ہوئیں، ان پر کی جانے والی پی ایچ ڈی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جس شخصیت نے ان کے تخلیقی کاموں کو قلم کی گرفت میں لے کر صفحہ قرطاس پر نگینوں کی طرح مرصع کیا، ان کا نام جلیل اشرف اور ان کے نگران وہاب اشرفی تھے، جن کا تعلق صوبہ بہار جھاڑکھنڈ سے تھا۔ ہزاری باغ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

’’وہاں کے جنگلات اور جھیلیں اپنے اندر ایک کشش رکھتی تھیں اور یہ قدرتی مناظر اپنے حسن و خوبصورتی کے حوالے سے بے مثال تھے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کے ذہن کے گوشوں میں آج بھی یہ نظارے مکمل شادابی و تازگی کے حوالے سے موجود ہیں وہ یاد کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ایوارڈ کے حوالے سے یہ بات ڈاکٹر صاحب کے ادبی کارناموں میں ریکارڈ کے طور پر موجود ہے کہ جلیل اشرف کی لکھی ہوئی کتاب جوکہ پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا، اس پر مغربی بنگال سے جلیل اشرف کو ایوارڈ ملا۔ اس کتاب کی اہمیت پاکستان میں چھپنے کے بعد مزید بڑھ جاتی ہے، کم و بیش دس، بارہ اور کتابیں ڈاکٹر صاحب کی فن و شخصیت کے حوالے سے لکھی گئیں، اسی طرح جو ان کے انٹرویو لیے گئے وہ بھی کتابی شکل میں اشاعت کے مرحلے سے گزر چکے ہیں، عاصمہ اصفر نے انٹرویوز کو ’’مکالماتِ سلیم‘‘، ’’شیوۂ گفتار‘‘ ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب نے مرتب کی، ’’ہم سخن بگولوں کا‘‘ سوانح عمری ہے، ڈاکٹر طاہر تونسوی نے لکھی، 500 صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’ڈاکٹر سلیم اختر فن اور تخلیقی شخصیت‘‘ گزشتہ برس شایع ہوئی ’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ شاہین مفتی نے سلیم اختر کے بارے میں کتاب لکھی اور اکادمی ادبیات سے وہ اشاعت کے مرحلے سے گزری۔

ڈاکٹر سلیم اختر کو بھی ادبی گروہ بندی سے واسطہ پڑا، تعصب و نفرت کی فضا کو پروان چڑھتے دیکھا، لیکن وہ ان باتوں سے بلند ہوکر اپنا کام کرتے رہے۔ انھوں نے راقم الحروف کو یہ بھی مشورہ دیا کہ انعام و ایوارڈ سے کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے، اگر ادبی ذوق کی تسکین حاصل کرنی ہے تو اپنا کام کیے جائیے۔ڈاکٹر صاحب بے حد قانع اور صابر و شاکر انسان ہیں، 2012 دسمبر میں فالج کا اٹیک ہوا تھا، ابھی تک مکمل طور پر صحت مند نہیں ہیں، لیکن لکھنے، پڑھنے کا کام جاری ہے ماشا اللہ۔ مزاج میں کوئی چڑچڑا پن یا غصے اور ناشکری کا ذرہ برابر شائبہ نظر نہیں آتا۔ اپنی زندگی سے مطمئن اور خوش ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی اولاد میں دو صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادے ہیں۔ بیٹا ڈاکٹر ہے۔ دونوں بیٹیاں ہاؤس وائف ہیں، دونوں نے ایم اے کیا ہے، ارم ڈنمارک میں رہائش پذیر ہیں۔ ایمانداری کا عالم یہ ہے کہ اپنی صاحبزادی ارم کو 5-6 نمبروں کی خاطر فیل کردیا، کولیگ کے ساتھ یہی سلوک کیا اور محنت سے پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ایسے اساتذہ تو سونے میں تلنے کے قابل اور قابل احترام ہیں۔ ان کی زوجہ محترمہ کا ہمیشہ سے ان کے ساتھ تعاون رہا اور آج کل جب کہ وہ بیمار ہیں ان کی پنشن وغیرہ لے کر آتی ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ انھیں اچھی صحت کے ساتھ درازیٔ عمر عطا فرمائے (آمین)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔