فلائیٹ نمبر 712 سے فلائیٹ نمبر 704 تک

شیریں حیدر  اتوار 23 جولائی 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ اپنے جوتے… سویٹر، گھڑی، فون، عینک، اسکارف اتار کر اس ٹرے میں رکھیں! لیپ ٹاپ اس کے کور سے نکال کر دوسری ٹرے میں رکھیں، اس کا کور علیحدہ ٹرے میں رکھیں، اگر جیبوں میں کوئی سکے ہیں تو وہ بھی نکال دیں اور اپنا بیگ اگلی ٹرے میں رکھیں اور اس سیکیورٹی گیٹ سے نکلیں!!‘‘ کینیڈا کے پئیرسن ائیر پورٹ پر اس وقت ہم ائیر کینیڈا کی پرواز 704 کے ذریعے امریکا روانگی کے لیے، ائیر پورٹ پر ان کے سیکیورٹی چیک زون میں تھے۔

سارے اسٹاف کے چہروں پر ایک اسپاٹ سا تاثر اور آواز میں سختی اور کرختگی تھی۔ اس لب و لہجے سے ہمیشہ امریکا جاتے ہوئے واسطہ رہا ہے اس لیے عجیب نہ لگا، ہدایات پر من و عن عمل کرتے ہوئے میں ان میکانگی چہروں اور آوازوں والے لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ہم اس عمل سے دوسری دفعہ گزر رہے تھے۔

ایک دن پہلے ہم اسی ائیر پورٹ پر اسی عمل سے گزر کر ائیر کینیڈا کی فلائیٹ نمبر 712 کے لیے اپنے مطلوبہ گیٹ تک پہنچے تو علم ہوا کہ فلائیٹ لگ بھگ ایک گھنٹہ لیٹ ہے کیونکہ موسم کی خرابی کی وجہ سے بہت سی پروازیں منسوخ ہوئیں یا لیٹ پہنچیں تو اس سے کافی پروازیں متاثر ہوئیں۔ خیر ہم سارے مراحل سے گزر چکے تھے سو اپنی پرواز کے گیٹ تک پہنچ کر نشستیں سنبھالیں اور اپنے اپنے فون نکال لیے۔

اب وقت گزارنے کو اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا۔ بتائے گئے وقت کے مطابق ہمیں جہازکے اندر بٹھا دیا گیا اور پھر انتظار کا سلسلہ شروع ہوا، ذرا سی اور تاخیر… وقت گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔ وجہ باربار یہی بتائی جا رہی تھی کہ کئی اور پروازوں کی تاخیر کے باعث ساری پروازوں کی روانگی بھی متاثر ہو رہی تھی۔

بالآخر انتظار تمام ہوا اورجہاز نے ٹیکسی کرنا شروع کیا، کچھ لوگ جہاز میں بیٹھتے ہی اور کچھ تھوڑی دیر کے بعد خواب خرگوش کے مزے لینے لگے تھے۔ چند لمحوں میں ہی دوبارہ جہاز رکا ’’ جہاز کے کمپیوٹر میں کوئی خرابی نظر آ رہی ہے اس لیے ہم چند منٹوں کا توقف کر کے اس کی خرابی کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، امید ہے کہ آپ تحمل کا مظاہرہ کر کے ہمارے ساتھ تعاون کریں گے!! ‘‘ اعلان کیا گیا، اب تک وہی تو کر رہے تھے اور اس کے بعد بھی وہی کرنا تھا۔

کھڑکی کی طرف ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے صاحب چھوٹے چھوٹے خراٹے لے رہے تھے، اپنے فون کی گھنٹی سے چونک کر جاگے اور انھیں کوئی احساس نہ ہوا، نیم خوابیدہ… ’’ ہاں پیاری، میں اس وقت نیو یارک کی طرف پرواز میں ہوں ! ‘‘ گھڑی پر وقت دیکھا، ’’ بیس منٹ میں پرواز پہنچ جائے گی… جلد ملاقات ہو گی! ‘‘ کہہ کر اس نے فون بند کیا ہی تھا کہ… ’’ خواتین و حضرات، آپ سب کے تحمل کا شکریہ، امید ہے کہ آپ اس کے بعد بھی آپ اسی صبر کا مظاہرہ کریں گے، جہاز کے کمپیوٹر کا ایک پرزہ کام نہیں کر رہا۔

ہم نے کنٹرول ٹاور سے رابطہ کیا ہے، وہ اس کے بارے میں چیک کر رہے ہیں، ان کی طرف سے جونہی کوئی جواب آئے گا تو آپ کو مطلع کر دیں گے، امید ہے کہ جلد ہی کمپیوٹر کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور ہم پرواز کے قابل ہو جائیں گے!!‘‘ ان صاحب نے حیرت سے اپنی طرف کی کھڑکی کا پلاسٹک کا کور اوپر کی طرف ہٹایا اور باہر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ وہ کہاں تھے۔کھسیانی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اپنا فون واپس ملایا اور صورت حال سے دوبارہ آگاہ کرنے لگا۔

یااﷲ! اس وقت تو تھکاوٹ سے برا حال تھا کیونکہ ہمیں ائیر پورٹ آئے ہوئے پانچ گھنٹے سے زائدکا وقت گزر چکا تھا۔ اتنے چھوٹے سے ائیر پورٹ پر اتنے گھنٹے کا وقت ہم نے کس طرح گزارا تھا، اسی امید پر تھے کہ ابھی پہنچے مگر۔

دوبارہ ٹیلی فون آن کیا اور امریکا میں منتظرین کو اطلاع دی کہ فلائیٹ لیٹ ہے۔ امید اور دعا تھی کہ جلد ہی مسئلہ حل ہو جائے گا مگر اس روز شاید ایک مختلف دن اور وقت تھا کہ لگ بھگ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ’’ انتہائی افسوس کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہمارے کمپیوٹر کے مسئلے کا فی الفور حل ممکن نہیں ، کم از کم اس کی مرمت کے لیے تین گھنٹے کا وقت درکار ہے، اس لیے قوانین کے مطابق ہمیں اس فلائیٹ کو منسوخ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ کمپیوٹر کی مرمت کے بعد بھی اس جہاز کی پرواز کے لیے فوری طور پر کلیئرنس ملنا ممکن نہیں ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اپنے دستی سامان کے ساتھ ائیر پورٹ کی طرف عازم ہوں جہاں پہنچ کر آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ کو کس طرح امریکا کے لیے اگلی پرواز مل سکتی ہے، جن لوگوں نے اس پرواز پر اپنا سامان دستی سامان کے علاوہ بک کروایا ہے وہ اپنا سامان وصول کر کے اگلی پرواز کے لیے کوشش کریں ‘‘ جونہی سامان کے لیے کھٹ پٹ شروع ہوئی لوگوں نے اٹھ کر قطار بنائی تو کئی سوئے ہوؤں کی آنکھ کھل گئی۔

’’ واؤ… یہ تو بہت اچھی پرواز رہی، سوتے میں علم ہی نہیں ہوا ‘‘ ہم سے اگلی رو پر بیٹھے ہوئے صاحب نے جاگتے ہی تبصرہ کیا، اٹھ کر اوپر سے اپنا سامان نکال کر مڑے۔’’ ہم ابھی تک ٹورنٹو میں ہی ہیں سر ‘‘ ائیر ہوسٹس نے انھیں بتایا، ’’ فلائیٹ فنی خرابی کی وجہ سے منسوخ ہو گئی ہے!‘‘

’’ تم مذاق کر رہی ہو نا لڑکی؟ ‘‘ اس نے سوال کیا اور اس کی طرف سے منفی جواب پا کر وہ اپنی سیٹ پر واپس گر گیا ’’ میں یقین ہی نہیں کر سکتا، لاؤنج میں، میں نے اعلان سنا تھا کہ ہمارا جہاز ابھی تک نیو یارک سے نہیں پہنچا اس لیے ہماری پرواز میں تاخیر ہے، تو کیا نیو یارک سے روانگی کے وقت اس میں کوئی فنی خرابی نہیں تھی اور اب وہ خرابی پیدا ہوئی ہے… یا یہ کہ یہ جہاز اس فنی خرابی کے ساتھ ہی وہاں سے یہاں تک آیا ہے؟ ‘‘

’’ سر اس کے بارے میں تو میں آپ کو نہیں بتا سکتی مگر اس وقت جہاز میں جو خرابی ہے اس کے باعث ہم اس پر نیو یارک نہیں جا سکتے ‘‘ وہ اپنی بات پوری کر کے ایک مسکراہٹ اچھال کر چلی گئی اور میں وہاں بیٹھے بیٹھے جانے کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔ آٹھ ماہ پہلے چترال کی وہ بد قسمت پرواز اور اس سے پہلے کی کئی بد قسمت پروازیں جنھیں کسی نہ کسی فنی خرابی کے باوجود بھی اس لیے پرواز کرنے دیا گیا کہ شاید کوئی حادثہ نہ ہو۔

بعد ازاں جو تحقیقات ہوتی ہیں اس سے علم ہوتا ہے کہ جہاز پرواز کے قابل نہ تھا مگر … یا تو پائلٹ اپنی صلاحیتوں اور چھٹی حس کی مدد سے خود سے فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ جہاز کو منزل مقصود تک پہنچا دے گا، اسے علم ہی نہیں ہوتا کہ اس جہاز کی اصل منز ل کون سی ہے۔ یا کنٹرول ٹاور والے سوچ لیتے ہیں کہ اتنی سی خرابی سے کچھ نہیں ہو گا، جہاز پہنچ جائے گا تو اس کی فنی خرابی کا علاج بھی کر لیں گے۔ ایسی لاپروائیاں اور کوتاہیاں ان حادثوں کا سبب بن جاتی ہیں جن کے عوض ہم سیکڑوں قیمتی جانوں کا خراج ادا کرتے ہیں اور عمر بھر کے لیے وہ حادثے ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں بس جاتے ہیں۔

اکثر ہم سب ٹرکوں یا بسوں کے پیچھے لکھاہوا پڑھتے ہیں ، ’’ دیر سے پہنچنا، کبھی نہ پہنچنے سے بہتر ہے! ‘‘ یہ بھی ان تحریروں جیسی ایک تحریر ہے جسے پڑھ کر ہم نظر انداز کر دیتے ہیں مگر بہتر ہے کہ بندہ ایسے معاملات میں تاخیر کر لے۔ ایک دن کی تاخیر سے، ہم اگلے روز نیو یارک پہنچ گئے، ہماری قسمت میں اس روز ٹورنٹو کا ہی قیام تھا جسے ہم ائیر پورٹ پر باقی لوگوں کی طرح خجل خوار ہو کر بھی نہ تبدیل کر سکے اور تھک ہار کر، اگلے دن کی پرواز کے لیے بکنگ کروا کے واپس گھر کو لوٹ گئے۔

قدرت کو ہمیں کسی حادثے کا شکار ہونے سے بچانا تھا، ابھی دنیا میں شاید ہم نے کچھ اور کام کرنا ہیں جو اس پرواز کو منسوخ کر دیا گیا۔ نیو یارک سے کلیئرنس پر آنے والی پرواز کے کمپیوٹر میں لینڈنگ کے بعد کوئی مسئلہ درپیش ہوا تھا جو اگلی پرواز سے پہلے دریافت ہو گیا تھا۔

ہماری قسمت اچھی تھی، اس جہاز پر سوار ہم سمیت ایک سو بیس مسافروں اور عملے کے ارکان کی زندگی باقی تھی یا اس جہاز کی قسمت اچھی تھی کہ وہ کینیڈا کے کسی ائیر پورٹ پر خراب ہوا تھا، پاکستان میں نہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔