نئے صوبے بنانے کا اختیار صرف وفاق کے پاس ہونا چاہیے

گورنر بنتے ہی سٹاف کو پہلا حکم یہ دیا کہ پنجاب حکومت کی ہر سمری کو اُسی دن نکالو ۔ فوٹو : فائل

گورنر بنتے ہی سٹاف کو پہلا حکم یہ دیا کہ پنجاب حکومت کی ہر سمری کو اُسی دن نکالو ۔ فوٹو : فائل

پنجاب کے نئے گورنر مخدوم سید احمد محمود کا تعلق جنوبی پنجاب کے قدآور سیاسی خانوادے سے ہے۔

12 ستمبر 1961ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے احمد محمود 1987ء میں ضلع کونسل رحیم یار خان کے چیئرمین اور 2001-2005ء میں ضلع ناظم رحیم یار خان رہے۔ 1985ء سے 1988ء اور پھر 1988ء سے 1990ء تک کے ادوار میں رکن صوبائی اسمبلی تھے۔ پنجاب کی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی وزارت بھی ان کے پاس رہی۔ 1990-93ء پھر 1993-96ء اور پھر 1997-99ء کے ادوار میں رکن قومی اسمبلی رہے۔ اس دوران وزیر مملکت بھی رہے۔

گورنر احمد محمود قابل فخر خاندانی پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کے دادا مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ سابق ریاست بہاولپور کی ایک اہم شخصیت تھے۔ تحریک پاکستان میں انہوں نے انتہائی متحرک کردار ادا کیا۔ بہاولپور کے امیر نے انہیں وزیر برائے آبادکاری مہاجرین مقرر کیا اور اس سلسلے میں ان کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں انہیں مخدوم الملک کا خطاب عطا کیا۔ ان کے والد مخدوم حسن محمود ریاست بہاولپور کے وزیر صحت، وزیر تعلیم اور بعدازاں وزیراعلیٰ رہے۔ وہ 1951ء میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی اور 1954-58ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن اور وزیر رہے۔ کہا جاتا ہے کہ مخدوم حسن محمود کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا پنجاب کا گورنر بنے۔

سید احمد محمود گورنر کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے مسلم لیگ فنکشنل پنجاب کے صدر تھے۔ گورنر بننے کے بعد انہوں نے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ پیر پگاڑا نے اس فیصلے کے پیچھے اپنے کسی قسم کے کردار ہونے سے انکار کیا ا ور اسے احمد محمود کا ذاتی فیصلہ قرار دیا۔ وہ بہاولپور صوبہ تحریک کے لیے بڑے سرگرم رہے، اس لیے ن لیگ سے بھی ماضی میں ان کی سیاسی قربت رہی، کیونکہ وہ بھی بہاولپور صوبہ کی بحالی چاہتی ہے۔

نواز شریف اور شہباز شریف دونوں سے ان کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ وہ بطور صوبائی وزیر اور وزیر مملکت کام کرچکے ہیں۔ چوہدری برادران سے بھی ان کا تعلق رہا، پرویز الٰہی کو انہوں نے رحیم یار خان سے ایم پی اے منتخب کرایا۔ بعد میں مقامی سیاست کی وجہ سے ان میں اختلافات ہوگئے اور انہوں نے ق لیگ چھوڑ دی۔ اپنے آبائی حلقوں میں وہ بڑا اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اس لیے وہ خود اور ان کے نامزد کردہ امیدوار بلا مقابلہ یا پھر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے آئے ہیں۔ گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلا انٹرویو انہوں نے روزنامہ ایکسپریس کو دیا جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔

ایکسپریس: کیا اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آپ پیپلزپارٹی میں آ گئے ہیں؟
گورنر پنجاب: دیکھئے گورنر کی جو پوزیشن ہے وہ Constitutionalہے اور مجھے اصولی طور پر تو کسی پارٹی کی سائیڈ نہیں لینی چاہئے اور نہ کسی پارٹی کو Promoteکرنا چاہئے۔ میری اپنی خواہش یہی تھی کہ میں فنکشنل میں رہوں۔ میں نے فنکشنل کی لیڈر شپ‘ جو کہ نئی لیڈر شپ تھی‘ کیونکہ جو پرانی لیڈر شپ تھی‘ جنہوں نے مجھے چُنا تھا وہ تو اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پیر مردان شاہ صاحب‘ پیر پگاڑو۔ جو نئی لیڈر شپ ہے، میں نے اُن سے درخواست کی تھی کہ میں چونکہ گورنر بن رہا ہوں‘ مجھے میرے عہدے سے استعفیٰ دینا ہو گا۔ آپ میرے بیٹے کو پارٹی کا صوبائی صدر بنا دیں۔ لیکن انہوں نے بہتر جانا ہو گا‘ ان کی مرضی‘ وہ پارٹی لیڈر شپ ہیں‘ انہوں نے مصطفی کھر صاحب کو بنا دیا اور پھر مجھے وہاں سے اشارے ملے کہ اب پارٹی کو میری ضرورت نہیں رہی، میں نے اگلے 10 سال‘ اگلے 15 سال کا سوچنا تھا اپنے بچوں کے لئے۔

میں نے تو اپنی اننگز کھیل لی ہے۔ میں نے 1985ء کی اسمبلی ہی میں تھا‘ 88 ء کی اسمبلی میں تھا‘ 90ء کی اسمبلی میں‘ 93ء‘ 97ء اور پھر 2000ء میں ناظم اور پھر 2008ء کی اسمبلی میںِ، میں پارلیمانی لیڈر تھا۔ اب اللہ کی مہربانی سے میں گورنر ہوں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ میری اننگز اختتام کو پہنچ گئی ہے۔ اب میرا نہیں خیال کہ میں کبھی الیکشن لڑوں گا۔ تو میں نے اپنے بچوں کے بارے میں سوچنا تھا‘ جن میں سے ایک ابھی MNA ہے‘ اور ایک ابھی بلا مقابلہ MPA بنا ہے۔ تو میرے پاس جو مواقع تھے اگلے 10 سال کے لئے، ان میں سے ایک نواز شریف صاحب کی فیملی ہے‘ جن میں مریم نواز ہیں‘ حسن نواز ہیں‘ حمزہ شہباز ہیں‘ ایک مونس الٰہی صاحب کو بھی آپ کہہ سکتے ہیں۔ کل کو اللہ کرے وہ بھی لیڈر بنیں اور ایک بلاول بھٹو زرداری، تو میں نے بہتر سمجھا کہ میرے بیٹوں کو بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ مل کر سیاست کرنی چاہئے‘ جو انہی کی عمر کا ہے ۔ اور میری خواہش ہے کہ وہ مل کر اس ملک کی خدمت کریں۔

ٰایکسپریس: یہ بتایئے، کہ اس تبدیلی کے بعد آپ جنوبی پنجاب کے انتخابی منظر نامے میں کیا تبدیلی دیکھتے ہیں؟
دیکھئے، جنوبی پنجاب کا مستقبل کا سیاسی منظر نامہ دیکھنے سے پہلے موجودہ صورتحال کو دیکھنا پڑے گا۔ قومی اسمبلی کی جو 46 سیٹیں ہیں اس میں سے‘ ایک فنکشنل کی ہے، 6 ، PML-N کی اور باقی تمام پیپلزپارٹی کی یا قاف لیگ کی ہیں۔ ان 6 میں سے بھی دو ان کو چھوڑ گئے۔ ایک جاوید ہاشمی صاحب چھوڑ گئے اور ایک ابھی سیف الدین کھوسہ صاحب چھوڑ گئے۔ تو آپ خود اندازہ کر لیں کہ ان کے اگر موجودہ ارکان قومی اسمبلی ان کو چھوڑ کر جا رہے ہیں تو ان میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے نیچے جو پبلک پریشر ہے، میرے اپنے خیال کے مطابق‘ وہ (ن) لیگ کے حق میں نہیں ہے‘ اس لئے لوگ ان کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
فیوچر کا میں Predict نہیں کر سکتا۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کو ہی برتری حاصل ہو گی۔ اور سندھ کا تو آپ کو پہلے ہی پتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو یہاں واضح برتری حاصل ہے۔ سندھ میں بھی پیپلزپارٹی بہتر کارکردگی دکھائے گی۔

ایکسپریس: کہنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ پیپلزپارٹی میں نہیں تھے‘ اب پیپلزپارٹی کے ساتھ ہیں‘ اب کیا فرق پڑے گا؟۔
نہیں میں تو پیپلزپارٹی میں نہیں ہوں۔
’’نہیں‘ لیکن اس کے اثرات تو ہوئے ہیں‘‘۔
گورنر پنجاب: میرے بچے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر لڑیں گے۔ اسمبلیاں ختم ہوں گی تو وہ باقاعدہ اعلان کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری اور صدر آصف علی زردرای سے ملاقات کر کے وہ باقاعدہ اعلان کریں گے۔ جن جن سیٹوں پر انہیں ٹکٹ ملیں گے‘ ان سیٹوں پر وہ لڑیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ مجھے یقین ہے وہ کامیاب ہوں گے۔

ایکسپریس: لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ پارلیمنٹ کو‘ سیاسی جماعتوں کو نئے صوبے بنانے کا مینڈیٹ حاصل نہیں؟۔
گورنر پنجاب : جی مجھے آج بتایا گیا ہے۔ دیکھیں، صوبے بنانے کا اختیار اصولی طور پر فیڈریشن کے پاس ہونا چاہئے۔ کوئی صوبہ یہ نہیں کہے گا مجھے تقسیم کرو۔ کوئی صوبہ نہیں کہے گا کہ میرے اندر ایک صوبہ بناؤ۔ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ صوبے بنانے کا اختیار فیڈریشن کے پاس ہونا چاہئے۔ ساری دنیا میں ایسے ہوتا ہے‘ تو میری رائے کے مطابق ایسی ترمیم آئے‘ جس سے یہ اختیار فیڈریشن کے پاس چلا جائے۔

ایکسپریس: یہ جو BJP کا نام دیا جا رہا ہے اس پر کیا کہیں گے؟
گورنر پنجاب: مجھے نہیں سمجھ آئی کہ BJP کیسے بنا ہے نام۔اگر اسے انگلش میں دیکھا جائے تو یہ بنتا ہے بہاولپور ساوتھ پنجاب‘ اردو میں یہ بنتا ہے بہاولپور جنوبی پنجاب‘ تو مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ BJP کیسے نام نکلا اور کیوں نکلا؟ کیونکہ یہ نام نہ انگلش میںنکلتا ہے اور نہ اردو میں نکلتا ہے۔ باقی، جہاں تک نئے صوبے کی بات ہے تو یہ تو آپ لوگ اتفاق کریں گے کہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ صوبہ ہو۔ نواب صاحب بھی چاہتے ہیں صوبہ ہو‘ میں بھی چاہتا ہوں صوبہ ہو‘ ساؤتھ کا ہر MPA اور MNA بھی یہی چاہتا ہے کہ صوبہ ہو۔ کوئی ساؤتھ کا ایک ایسا MPA/MNA بتا دیں‘ جو کہتا ہو کہ صوبہ نہ بنے، تو اگر نواب صاحب مجھے یا کسی کو کریڈٹ نہیں دیناچاہتے تو نہ دیں‘ لیکن یہ تو کم از کم خوشی کی بات ہے کہ ہم سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صوبہ ہونا چاہئے۔ اب نام کیا ہو‘ کیا نہ ہو‘ یہ ہر کوئی کریڈٹ لے رہا ہے‘ کریڈٹ دے رہا ہے کسی کو‘ لیکن یہ بات اٹل ہے کہ ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ جنوبی پنجاب پر مشتمل نیا صوبہ تشکیل پانا چاہیے۔

ایکسپریس: ہزارہ صوبہ کمیشن اور دیگر صوبوں کی بات کی جا رہی ہے؟
گورنر پنجاب: دیکھیں، صوبوں کے حق میں صرف پنجاب اسمبلی سے قرارداد پاس ہوئی ہے۔ قرار داد کے پیش نظر‘ یہ کمیشن بنایا گیا۔ یہ قرار داد کسی اور صوبے سے پاس نہیں ہوئی۔ یہ قرار داد نیشنل اسمبلی سے پاس نہیں ہوئی‘ یہ قرار داد صرف اور صرف پنجاب اسمبلی نے پاس کی کہ پہاولپور صوبہ بننا چاہیے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے مطالبے کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔
پنجاب اسمبلی نے جب قرارداد پاس کی‘ تب یہ کمیشن بنا۔ اگر خیبر پختونخواہ میں بھی قرار داد پاس ہو کہ صوبہ بنے، تو بھی معاملہ کمیشن کے پاس آ جائے گا۔ یہ معاملہ کمیشن کے پاس تبھی گیا جب قرارداد پاس ہوئی اور اتفاق رائے سے پاس ہوئی۔ قرار داد میں کسی ایک نے بھی اختلافی ووٹ نہیں دیا اور اس قرار داد کو پڑھنے والا ایک میں بھی تھا۔ گورنمنٹ بھی تھی‘ اپوزیشن لیڈر بھی تھا۔ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بھی تھا۔ تمام جماعتوں نے اس قرار داد کی سپورٹ کیا‘ تب جا کے کمیشن بنا۔ تو لوگوں کے ذہنوں میں یہ جو غلط فہمی ہے باقی صوبوں کیتو باقی صوبوں کے بارے میں تو قرار داد کسی اسمبلی نے پاس نہیں کی۔ صرف جنوبی پنجاب صوبے کے بارے میں پنجاب اسمبلی سے بات ہوئی۔ ہزارہ صوبے کے بارے میں‘ نیشنل اسمبلی آج خود نوٹس نہیں لے سکتی۔ ہاں KPK اسمبلی سے قرار داد پاس ہو جا ئے تو وہ نوٹس ضرور لیں گے۔
ایکسپریس: دنیا بھر میں سیاسی پس منظر کے لوگ غیر سیاسی عہدوں پر آتے ہیں اور اپنی غیر سیاسی حیثیت کا موثر اظہار بھی کرتے ہیں، ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ صدر صاحب کے بارے میں بھی یہی تاثر ہے،

کیا ہمارے ہاں غیر سیاسی حیثیت کا اظہار ممکن ہی نہیں؟
گورنر پنجاب: دیکھیں اصولی طور پر تو گورنر کو اور صدر کو نان پولیٹیکل ہونا چا ہئے‘ اس میں کوئی شک نہیں۔ کوشش کرتا ہوں کہ میں اپنے دفتر کو کسی پولیٹیکل مقصد کے لئے استعمال نہ کروں اور یہاں آپ نے دیکھا ہو گا‘ میرے گورنر بننے کے بعد‘ یہاں سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں پر پریس کانفرنس کوئی نہیں ہوئی، کسی بھی پولیٹیکل پارٹی کی۔ میں نے گورنر بنتے ہی تمام پارٹیوں کو یہاں بلایا اور سوائے ایک پارٹی کے باقی تمام پارٹیوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد میں نے تمام پنجاب اسمبلی کے اراکین کو بلایا‘ تمام کے لیڈرز آئے‘ سپیکر بھی آئے‘ اپوزیشن لیڈر بھی آئے‘ لیکن ایک پارٹی نے پھر بھی آنا پسند نہیں کیا۔ تو میں تو یہ کوشش کر رہا ہوں کہ یہ گورنر ہاؤس سب کا ہے‘ اس پر سب پارٹیوں کا حق ہے‘ گورنر ہاؤس کا جو وقار ہے‘ اس کو میں برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن میں ایک سیاستدان بھی ہوں اور میری سیاست جو ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ میں نے سیاست ہمیشہ اپنے زور بازو پر کی ہے۔ میں نے کبھی کسی جماعت کا سہارا لے کر سیاست نہیں کی اور اب بھی جب میں گورنر بنا ہوں تو میں فنکشنل لیگ کا صدر تھا۔ میں استعفی دے کر گورنر بنا ہوں۔ تو میری Political affilition تو ہے لیکن کسی سیاسی جماعت سے تعلق کا اظہار آپ اس لئے ثابت نہیں کر سکتے.
میں نیوٹرل ہوں جی‘ گورنر کو نیوٹرل ہونا چاہئے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں۔
ایکسپریس: نواز لیگ کا مطالبہ ہے کہ موجودہ گورنرز کو انتخابات سے قبل ہٹایا جانا چاہئیے ۔
گورنر پنجاب: پہلی بات تو یہ کہ میں نے اس پر بھی کبھی کمنٹ نہیں کیا۔ لیکن آپ میرے بھائی ہو۔اس پر میں آئینی تبصرہ کرو ں گا۔ یہ اعتراض ان کو اس وقت کرنا چاہئے تھا جب یہ 20th ترمیم پاس کر رہے تھے‘ جب یہ عبوری سیٹ اپ بنانے کا طریقہ کار بنا رہے تھے تو اس پر سب کچھ اپنی مرضی کا ڈال رہے تھے کہ لیڈر آف ہاؤس اور لیڈر آف اپوزیشن مل کر فیصلہ کریں گے۔ اس میں ڈال دیتے گورنر کا‘ اس وقت کیوں نہیں بولے کہ گورنر نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر یہ بات اس وقت کر لیتے تو یہ حصہ بن جاتا آئین کا۔ آئینی تقاضا بن جاتا کہ جب کیئر ٹیکر سیٹ اپ بنے تو گورنر بھی ساتھ ہی جائیں گے۔ اس وقت تو نہیں کی بات انہوں نے۔ اب وقت گذر چکا ہے، یہ بڑا اہم نکتہ ہے کہ جب وہ ترمیم کر رہے تھے تو اس وقت یہ بات ڈال لیتے۔
ایکسپریس: آج کے حالات میں پنجاب حکومت کے ساتھ آپ کے تعلقات کیسے ہیں ہے؟
ایکسپریس: میں نے اپنے گورنر ہاؤس کے سٹاف کو‘ اپنے پرنسپل سیکرٹری کو ہدایت کی ہوئی ہے کہ پنجاب کی جو بھی Summery آئے‘ اسے فوری طور پر فوری طور پر اسی دن نکالو۔ میرے تعلقات ان کے ساتھ بہت اچھے ہیں۔
میاں شہباز شریف کے ساتھ بہت پرانے تعلقات ہیں‘ یہ تعلق ہمیشہ قائم رہے گا۔ میاں شہباز شریف صاحب ہوں‘ میاں نواز شریف صاحب‘ ان سے میرا احترام کا ایک رشتہ بنا ہوا ہے اور میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ وہ رشتہ خراب ہو۔
ایکسپریس: جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو آپ کے آنے سے کیا فائدہ پہنچا؟

ایکسپریس: دیکھیں مجموعی طور پر گورنر بننے سے‘ میں یہ سمجھتا ہوں کہ زرداری صاحب کا اور پیپلزپارٹی‘ دونوں کا lmage بہتر ہوا۔ اور میرے گورنر بننے سے لوگوں میں نئی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ کیونکہ لوگوں کے دلوں میں ہے، خاص طور پر جنوبی پنجاب کے لوگوں کے دلوں میںکہ میں ایماندار آدمی ہوں۔ لوگ جانتے ہیں کہ میرے میں اور کوئی خوبی ہو نہ ہو ، ایمان میرا تگڑا ہے، اور میں ایمان والا آدمی ہوں،ایماندار آدمی ہوں۔ میرے پیچھے کوئی چیز ایسی نہیں جو میرے ضمیر کو ملامت کرے۔ میں اپنا ٹیکس پورا ادا کرتا ہوں۔ شروع سے‘ یہ نہیں کہ اب۔ شروع سے اپنا ٹیکس پورا ادا کرتا ہوں۔ خلاف قانون کوئی کام نہیں کرتا۔ کوئی چیز چھپاتا نہیں ہوں۔ میں ان سیاستدانوں میں سے نہیں ہوں‘ جن کی باہر جائیداد ہے اور ظاہر نہیں کی گئی۔ میں اُن گنے چُنے لوگوں میں سے ہوں جن کی باہر property ہے اور یہاں اسے ظاہر کیا گیا ہے۔ میرے تمام اثاثے ظاہر ہیں۔ جب بھی آپ کسی کلین اور ایماندار آدمی کو اچھی پوزیشن دیں گے۔ سوسائٹی اس عمل کو سراہے گی۔ ویسے ہی پیپلزپارٹی مضبوط تھی تو اگر میرے گورنر بننے سے ان کا امیج بہتر ہوا ہے اور لوگ اس طرف آ رہے ہیں تو ان کی مہربانی۔
ایکسپریس: جعفر لغاری‘ نصر اللہ دریشک، اور کچھ لوگ؟
گورنر پنجاب: دیکھیں جعفر لغاری تو قاف لیگ سے ہیں۔ وہ قاف لیگ کی طرف سے لڑیں‘ پیپلزپارٹی کی طرف سے لڑیں‘ ایک ہی بات ہے۔ وہ ان کی طرف تو جا نہیں رہے۔ نصر اللہ دریشک کا اتحاد ہو رہا ہے میر بلخ شیر مزاری سے جو ویسے ہی پیپلزپارٹی میں ہیں۔ میر صاحب کا بیٹا‘ بھتیجا وزیر ہے۔ وہ ویسے پی پی میں ہے۔ تو نون کا تو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ کیونکہ وہ ویسے ہی کمزور تھی ادھر۔ لیکن پی پی کا فائدہ ضرور ہوا ہے۔

ایکسپریس: گورنر صاحب، آپ کا یہ تجزیہ 2008ء کے الیکشن کی بنیاد پر ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ 2013ء میں بھی یہی رزلٹ آئیں گے؟
گورنر پنجاب: دیکھیں میں ایک بات آپ کو بتادوں کہ جو ساؤتھ کے لوگ ہیں وہ لاہور کی لیڈر شپ سے relate نہیں کرتے، اور بجا طور پر نہیں کرتے‘ کیونکہ لاہور کی لیڈر شپ نے کبھی ساؤتھ کے لئے وہ مواقع فراہم نہیں کئے‘ جن سے وہ ان سے تعلق کو محسوس کریں۔ وہ لاہور کو آ کر دیکھتے ہیں اور لاہور کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بہاولپور میں بھی ان کے بچوں کی تعلیم کے لئے اعلیٰ مواقع ہونے چاہیں۔ وہ چاہتے ہیں بہاولپور میں بھی‘ ملتان میں بھی‘ صحت کی جو سہولیات ہیں وہ ہونی چاہئیں۔ وہ چاہتے ہیں بہاولپور میں بھی بائی پاس کی آپریشن ہونے چاہئیں‘ تو ہر چیز کے لئے تو بے چاروں کو لاہور آنا پڑتا ہے۔ اچھے علاج معالجے کے لئے انہیں لاہور آنا پڑتا ہے‘ اچھی تعلیم کے حصول کے لئے لاہور آنا پڑتا ہے‘ تو جو لاہور کی لیڈر شپ ہے‘ جس کا میں نام نہیں لیتا‘ اس سے لوگ relate نہیں کرتے۔

میں نہیں کہتا کہ سارا بجٹ لاہور میں لگ گیا ہے، بدانتظامی کی نذر ہوا ہے۔ ڈھائی سو ارب روپے کے قریب بجٹ ہے پنجاب کا‘ 5 سال ہو گئے ہیں‘ اگر 200 ارب روپے کو بھی 5 سے ضرب دیں تو یہ ایک ہزار ارب روپے بنتے ہیں۔ اگر ایک ہزار ارب روپے کسی وژن کے تحت خرچ ہوتے‘ ایجوکیشن پر خرچ ہوتے‘ پرائمری ایجوکیشن پر خرچ ہوتے‘ صحت و صفائی پر خرچ ہوتے‘ انفراسٹرکچر بلڈنگ پر خرچ ہوتے‘ فارم ٹو مارکیٹ روڈ پر خرچ ہوتے‘ ایگری کلچر سیکٹر پر خرچ ہوتے تو انقلاب آ چکا ہوتا۔

لیکن چونکہ ایک ہزار بلین بدانتظامی کا شکار ہوا ہے ، اس کا فائدہ نہ تو لاہور والوں کو ہوا ہے اور ساؤتھ والے تو ویسے ہی پسماندہ تھے‘ وہ ویسے کے ویسے رہے۔ وژن کے تحت لاہور میں بھی لگتا۔ ساؤتھ میں بھی لگتا‘ ایمانداری سے لگتا تو میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ انقلاب آ جاتا۔ جب میں ناظم تھا۔ میں آپ کو ایک مثال دے رہا ہوں آپ کو سمجھانے کے لئے۔ جب بجٹ کا سوال کیا کریں تو یہ ضرور پوچھا کریں کہ قدر کیا ہے 100 روپے کی۔ بجٹ کے 100 روپے کی۔ جب میں ناظم تھا تو آپ کے سامنے اعتراف کر رہا ہوں کہ میرے 100 روپے کی ویلیو رحیم یار خان میں 94 روپے تھی۔ 6 روپے کرپشن اور مس مینجمنٹ کا شکار ہو جاتے تھے94 زمین پر لگتے تھے۔ اب میں جو حالت دیکھ رہا ہوں ۔100 روپے کی ویلیو، میرے حساب میں 35‘40 روپے کی ہے۔ 60 روپے بدانتظامی کی نذر ہو رہے ہیں۔
ایک ہزار ارب روپے کا مطلب ہے آپ نے 600ارب روپے تو ضائع کر دیئے Mismengment میں۔ 1400 ارب روپے لگا دیئے 5 سال میں۔

ایکسپریس: کیا انتظامی مشکلات ہیں جنوبی پنجاب کے لوگوں کی؟
گورنر پنجاب: دیکھیں 500 میل کا سفر طے کر کے لوگ صادق آباد سے آتے ہیں‘ بورڈ آف ریونیو کی پیشی بھگتنے کے لئے۔ بورڈ آف ریونیو پنجاب کا ہے۔ 500 میل کا سفر طے کر کے آتے ہی تفتیش بدلوانے آتے ہیں پولیس کی۔ 500 میل کا سفر کر کے آتے ہیں تعلیم اور علاج معالجے کے لئے۔ 500 میل دور سے آتے ہیں سول سیکرٹریٹ میں اپنے چھوٹے چھوٹے کام کروانے کے لئے۔ آپ کومیں حیران کن مثال دیتا ہوں۔ میں نے دو بسیں منظور کرائیں اپنے کالجز کے لئے رحیم یار خان۔ وہ بس گل گئیں کھڑے کھڑے۔ ڈرائیور کی سیٹیں منظور نہیں ہوئیں پنجاب ڈیپارٹمنٹ آف فنانس سے۔
تو ہمارا ایک دُکھ تھوڑا ہے۔ ہمارے سینے کھول کے دیکھیں تو چھلنی ہو گئے ہیں۔ ہمارے تو کالج کی بسیں منظور نہیں کرتا پنجاب ڈیپمارٹمنٹ۔ ہماری بسیں گل گئیں‘ سڑ گئیں‘ دو ڈرائیوروں کی پوسٹ نہیں دیں۔ ہمارے کالجز میں پچھلے دس سال سے جو سائنیس ٹیچرز‘ میتھیمیٹکس‘ آرٹس ٹیچر‘ پرنسپل‘ ہیڈ ماسٹر کی آسامیاں خالی ہیں وہ ابھی تک فل نہیں ہو سکیں۔ یہ وہ ایشوز ہیں جن کی وجہ سے لوگوں میں صوبوں کی ڈیمانڈ پیدا ہوئی ہے؟

پسندیدہ فلم ارمان، اداکارہ کرینہ اور کمپوزر چائیکووسکی ہیں
خواجہ غلام فرید جیسا صوفی شاعر دوبارہ پیدا نہیں ہوگا

گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود سے جب اُن کی ذاتی زندگی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے خوشگوار انداز میں ہمارے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے بتایا کہ

’’میں ایچی سن سے پڑھا ہوں۔ دس سال ہاسٹل رہا، پڑھائی میں ایوریج تھا، لیکن میں سپورٹس کا شوقین تھا۔ I Was good Athlete ، گھڑ سواری میں بہت اچھا تھا۔ نیزا بازی میں اچھا تھا۔ ایوریج سٹوڈنٹ تھا، اچھے نمبر لے لیتا تھا لیکن ہمیشہ مڈل میں رہا۔ 30, کی کلاس میں 15 ویں، 16 ویں نمبر ہوتا تھا۔ اچھا ٹائم گزرا ایچی سن میں۔

کہنا تو نہیں چاہیے ، لیکن میں ایک باذوق آدمی ہوں۔ شروع سے فنون لطیفہ سے دلچسپی ہے۔‘‘
فلمیں دیکھنے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا

’’فلم دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ پرانی پاکستانی اور بھارتی فلمیں شوق سے دیکھتا ہوں۔ پاکستانی فلموں میں تو ارمان مجھے نہیں بھولتی۔
فلموں کا شوق ہے ، کرکٹ کا شوق ہے، میوزک کا بہت زیادہ شوق ہے۔ گھوڑوں کا بہت شوق ہے۔ Race کا بہت شوق ہے۔‘‘

پسندیدہ ایکٹریس بارے میں سوال پر اُن کا جواب تھا، ’’آج کل پسندیدہ تو کرینہ کپور ہے۔‘‘
شاعری کے بارے میں اُن کا کہنا تھا ’’علامہ اقبالؒ سے بہت متاثر ہوں۔ اُن کی شاعری کے دونوں ادوار ، ایک شروع کے زمانے کی غزلیں اور دوسرے اسلام سے محبت کے دور کی شاعری، دونوں سے متاثر ہوں۔ علامہ اقبال سے ہمارا ذاتی تعلق اس طرح سے بنتا ہے کہ اگر انہوں نے نجی طور پر سب سے زیادہ کسی کو خط لکھے تو وہ میرے دادا تھے۔ اور اگر آپ ان کے مکتوب پڑھیں تو بہت زیادہ ذاتی نوعیت کے خط انہوں نے میرے دادا کو لکھے۔‘‘

موسیقی کے حوالے سے انہوں نے بتایا ’’بہت پروفیشنل میوزک، کلاسیکل موسیقی کا شوق ہے۔ میرے پاس جو میوزک سسٹم ہے وہ بھی بہت قیمتی ہے۔ مغربی کلاسیکل میوزک اور یہاں کا کلاسیکل میوزک دونوں بہت پسند ہیں۔ رشین میوزک کمپوزر پیوتر چائیکووسکی بے حد پسند ہے (چائیکووسکی روس کا پہلا موسیقار تھا جس نے عالمی شہرت حاصل کی، پورے یورپ اور امریکہ میں اس کی محافل ہوتیں،شہنشاہ الیگزینڈر سوئم نے 1880 میں اس کے لئے تاحیات سرکاری وظیفے کا اعلان کر دیا تھا) اگر آپ کو کبھی موقع ملے چائیکووسکی کو سننے کا تو آپ کو محسوس ہو گا کہ وہ ذہن کو بہت تحریک دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چائیکووسکی موزارٹ سے بھی بڑا فنکار تھا۔‘‘

صوفی شعراء کے بارے میں اُن کا کہنا تھا، ’’بابا بلھے شاہ کا کلام بڑی محبت سے پڑھتا بھی ہوں اور سنتا بھی ہوں، اُن کا بڑا نیازمند ہوں لیکن جو میرے فیورٹ ہیں، جو میرے دل کو بھاتے ہیں وہ خواجہ غلام فرید ہیں، ان جیسا صوفی شاعر میرا نہیں خیال کہ کبھی دوبارہ آئے گا۔

موجودہ نواب بہاولپور کے دادا نواب صادق محمد خان عباسی نے خواہش کی کہ وہ خواجہ غلام فرید کی بیعت کریں، پیدل چل کر بیعت کرنے گئے تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں فقیر آدمی ہوں میں نوابوں سے بیعت نہیں لیتا۔ ان کی اپنی سٹڈی میں بہت بڑے سنہری فریم میں خواجہ فرید کی پورٹریٹ لگی ہوئی ہے۔ وہ بہت بڑے آدمی تھے۔

مخدوم احمد محمود کے آبائی حلقہ این اے 195کا احوال

ضلع رحیم یارخان کے حلقہ این اے 195کو فنکشنل لیگ کے صوبائی صدرمخدوم احمد محمود کا آبائی حلقہ مانا جاتاہے۔ اس حلقہ میں جمالدین والی کے گھرانے کو خاص اہمیت حاصل ہے اور یہاں احمد محمود کا طوطی بولتا ہے۔ انہوں نے صوبائی حلقہ 292میں باہر سے بھی امیدوارامتعارف کرائے۔ مخدوم احمد محمود نے 1997ء کے الیکشن میں لیاقت پور اور اس حلقہ سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ سیٹ خالی کردی اور اس سیٹ پر ضمنی انتخاب میں ہمایوں اختر خان کو متعارف کرایا اور انہیں قومی اسمبلی کا پروانہ دیکر اسلام آباد روانہ کردیا۔ مشرف دور میں احمد محمود رحیم یارخان کے پہلے ضلع ناظم بنے اور انہوں نے 2002کے انتخابات میں اس حلقہ پر اپنے قریبی عزیز اور بزنس پارٹنر جہانگیرخان ترین کو ق لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑوایا۔

جہانگیر ترین نے اپنے انتخاب کے بعد اس حلقہ کی جانب ترقیاتی کاموں کا رخ موڑ دیا اور حلقہ کے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے بنیادی اصلاحات متعارف کروائیں۔ اس حلقہ میں اکثریت کا ذریعہ معاش زراعت ہے اور جمالدین والی میں قائم شوگر ملز اس حلقہ کی سیاست میں اہم کردار اداکرتی ہے۔ کماد کے کاشتکاروں کو اپنے کماد کی فروخت کیلئے جمالدین والی شوگر ملز سے پرمٹ کے حصول کا معاملہ درپیش ہوتاہے ۔

اس حلقہ میں کئی بڑی برادریوں میں گوپانگ،رحمانی رندبلوچ،چوہان،آرائیں،سولنگی ،مہے ،مزاری ،ملک،چاچڑ،جاٹ، راجپوت،جھبیل،کمبوہ اورڈاہر برادری شامل ہے۔ تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد جہانگیرترین نے اس نشست سے استعفیٰ دیدیا تھا اور یوں احمد محمود اور جہانگیرترین میں سیاسی اور کاروباری اختلافات کھل کرسامنے آئے اور جمالدین والی شوگر ملز میں بھی کام روک دیا گیا تھا ‘ بعدازاں احمد محمود اور جہانگیرترین کے درمیان مفاہمت ہوئی اور جہانگیرترین نے آئندہ اس حلقہ سے اپنی سیاست کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ جہانگیر ترین اس حلقہ سے انتخاب نہ بھی لڑیں پھر بھی اُن کے اثرات باقی رہیں گے۔ جہانگیر ترین کے مستعفی ہونے کے بعد اس سیٹ(این اے195) پر ضمنی الیکشن میں ایک بار پھر اب مخدوم احمد محمود کے بیٹے مخدوم مصطفی محمود کامیاب ہو چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔