سوشل میڈیا کے ڈان بریڈمین

سلیم خالق  اتوار 23 جولائی 2017
پی سی بی کے اعلیٰ حکام خصوصاً نجم سیٹھی کی نظروں میں آنے کا اہم ذریعہ ٹویٹر ہی ہے۔ فوٹو: فائل

پی سی بی کے اعلیٰ حکام خصوصاً نجم سیٹھی کی نظروں میں آنے کا اہم ذریعہ ٹویٹر ہی ہے۔ فوٹو: فائل

اگر امریکی صدر اچانک آپ کے سامنے آ جائیں تو کیا آپ ان کو برا بھلا کہہ سکیں گے؟

اگر پاکستانی وزیر اعظم سے سامنا ہو جائے تو کیا ان کی کسی پالیسی سے اختلاف ممکن ہوگا؟

کوئی کرکٹر اچھا نہ کھیلے تو اس کے سامنے کھڑا ہو کر گالی دینے کی ہمت ہے؟

کسی صحافی کے سامنے اسے لفافہ صحافی قرار دے سکتے ہیں؟

کسی حساس ادارے کی پالیسیز پر اس کے دفتر کے سامنے اختلاف کرنے کا حوصلہ ہے؟

یقیناً 90 فیصد لوگ ایسا نہیں کر سکیں گے لیکن جس بندے کی گھر میں اہلیہ کے سامنے اختلاف رائے کی ہمت نہیں ہوتی وہ بھی سوشل میڈیا پر ہر کسی کو لتاڑ رہا ہوتا ہے،وجہ شناخت چھپانا ہے، آپ کسی بھی نام سے کوئی فرضی ٹویٹر اکاؤنٹ بنائیں اور ہر کسی کی کلاس لیتے رہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا، اگر میری بات پر یقین نہیں تو ابھی سوشل میڈیا سائٹ پر جا کر چیک کر لیں، گوکہ ملک میں سائبر کرائم کا قانون تو بن چکا لیکن اگر صحیح معنوں میں استعمال شروع ہو تو ٹویٹر و دیگر سائٹس استعمال کرنے والوں کا ایک بڑا حصہ اس کی لپیٹ میں آ جائے۔

بدقسمتی سے ایک اچھی چیز کو غلط انداز سے استعمال کیا جاتا ہے، ہمارے پسندیدہ کھیل کرکٹ پر بھی اس کا گہرا عمل ودخل ہے، ٹویٹر کے کئی ڈان بریڈمین بھی ملک میں موجود ہیں جو میدان میں تو کچھ نہیں کرتے مگر سوشل میڈیا پر ان سے بڑا اسٹار کوئی نہیں ہوتا، ہم اگر اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو کئی ایسے باصلاحیت کھلاڑی نظر آئیں گے جو سوشل میڈیا پر ہیرو بننے کے چکر میں زیرو ہو گئے، انھیں یہی زعم رہا کہ میرے اتنے لاکھ فالوورز ہیں مگر افسوس یہ بھول گئے کہ فالوورز نہیں رنز شمار ہوتے ہیں، اصل بات اپنی کارکردگی ہوتی ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کی مثال میں پہلے بھی دے چکا وہ فالوورز دیکھ کر ہی وطن واپس آئے مگر ایئرپورٹ پر چند سو افراد دیکھ کر حقیقی دنیا اور سوشل میڈیا کا فرق معلوم ہو گیا،اس وقت آپ پاکستانی ٹیم کی مثال لے لیں کھلاڑی چیمپئنز ٹرافی کے بعد فارغ اور ٹویٹر وغیرہ پر فعال ہیں، میں یہاں گیا ، یہ کھانا کھایا، ایئرپورٹ پر سیلفی، جہاز میں سیلفی، چلیں آف سیزن میں تو ٹھیک ہے مگر ہیرو بننے کے چکر میں کھیل سے ایک بار توجہ ہٹی تو گئے۔

احمد شہزاد بہت اچھا پلیئر تھا بلکہ ہے مگر میں یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ان کا کھیل سے انہماک کم ہوا اور کارکردگی متاثر ہوئی، اگر وہ صرف یہ عہد کر لیں کہ ایک سال تک ٹویٹر سے دور رہوں گا تو اگر کھیل میں بہتری نہ آئے تو پھر کہیے گا، حال ہی میں جب بعض صحافیوں نے ان کے بارے میں کچھ کہا تو سوشل میڈیا پر کہرام برپا ہو گیا احمد شہزاد کے حامیوں نے ایسی ایسی باتیں کیں جنھیں دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کیلیے اتنے زیادہ میچز کھیلے ہوئے کرکٹر نے اپنے تصدیق شدہ اکاؤنٹ سے انھیں لائیک بھی کیا، ساتھ دیگر کھلاڑیوں سے بھی کہا کہ وہ ان کے حق میں ٹویٹس کریں،ماضی میں مجھے بھی اس کا تجربہ ہو چکا جب ایک کالم میںحقائق بیان کرنے کے بعد احمد شہزاد کی ٹویٹر آرمی میرے پیچھے پڑ گئی تھی لیکن یہ انداز غلط ہے، احمد شہزاد اچھا انسان اور میری بڑے بھائی کی طرح عزت کرتا ہے، میرا اس کو یہی مشورہ ہے کہ اختلاف رائے ضرور کریں مگر ایک وقار کے ساتھ، جتنا نیچے جائیں گے اتنا ہی خود کو گرائیں گے۔

سوشل میڈیا پر ایک اور متحرک کرکٹر عمر اکمل بھی ہیں جنھوں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری، ذہنی طور پر سپراسٹار بن کر ان کی بھی کھیل سے توجہ ختم ہوئی اور اب کیا حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے، آپ ٹویٹر استعمال ضرور کریں مگر اسے سر پر سوار نہ کریں، مجھے ایک مشہور شخصیت نے بتایا تھا کہ ’’چند روز سوشل میڈیا استعمال کرنے کے بعد میری نیند اڑ گئی، ڈپریشن سا ہونے لگا، لوگ گالیاں تک دیتے تھے، میں نے بیوی بچوں کے ساتھ لندن کی ایک تصویر لگائی تو کسی نے تبصرہ کیا حرام کی کمائی کہیں تو اڑانی ہے۔

ایسے ایسے تبصرے آتے کہ میںغصے سے پاگل ہو جاتا مگر ظاہر ہے کچھ کر نہیں سکتا تھا، اس لیے اب ایک ملازم کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ میرا اکاؤنٹ دیکھے اورمنفی باتیں نہ ہی بتایا کرے، اگر میں چند روز اور ٹویٹر پر رہتا تو ذہنی مریض بننا یقینی تھا اس لیے یہ قدم اٹھایا‘‘، مشہور شخصیات کے ساتھ ایسا کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے مگر جتنا وہ ایسی باتوں کا سوچیں گے آہستہ آہستہ کارکردگی پر بھی اثر پڑنے لگے گا، اس سے اچھا ہے کہ محدود استعمال کریں کیونکہ آپ سوشل میڈیا پر کسی کی آواز بند نہیں کر سکتے۔

میرے ایک دوست نے کچھ عرصے قبل ایک کھلاڑی کے بارے میں ٹویٹ کی جواب میں انھیں خوب برا بھلا کہا جانے لگا، وہ بھی غصے میں آ گئے اور ایسے لوگوں کو انہی کی زبان میں جواب دینے لگے، یہ سب میں نے دیکھا تو انھیں سمجھایا کہ ان لوگوں کو کوئی نہیں جانتا آپ کو ہزاروں لوگ جانتے ہیں لہذا احتیاط کریں،پھر انھوں نے اپنی ایسی ٹویٹس ڈیلیٹ کر دیں، میں بہت سے ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جن کے ہزاروں یا لاکھوں فالوورزہیں مگر زیادہ تر برا بھلا ہی کہتے رہتے ہیں شاید انھیں فالو ہی اس لیے کیا تھا،کئی لوگ انگریزی کا ایک جملہ نہیں لکھ سکتے مگر ٹویٹس دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید کسی گورے کے خیالات ہیں۔

پی سی بی کے اعلیٰ حکام خصوصاً نجم سیٹھی کی نظروں میں آنے کا اہم ذریعہ ٹویٹر ہی ہے، بعض لوگوں کو تو اس وجہ سے بورڈ اور دیگر اداروں میں ملازمتیں بھی مل گئیں، بات وہی ہے کہ سوشل میڈیا کا فائدہ تو بہت ہے اور لمحے میں خبریں و دیگر معلومات آپ تک پہنچ جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ نقصانات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے،حد سے زیادہ کسی چیز کے پیچھے پڑنا آپ کو اپنے اصل کام سے دور کر دیتا ہے، بدقسمتی سے بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوا، مگر اب بھی ان کے پاس خود کو بدلنے کا وقت ہے، دیکھتے ہیں کہ وہ ماضی سے سبق سیکھتے ہیں یا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔