عمران خان اور پنجابی والا ہتھ

نصرت جاوید  جمعـء 8 فروری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

عمران خان کو شاید یہ بات سمجھنے میں بہت دیر لگ جائے کہ ان کے ساتھ پنجابی زبان والا ’’ہتھ‘‘ ہو چکا ہے۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ مجھے یہ بات لکھتے ہوئے زیادہ خوشی نہیں ہو رہی۔ ان کے 30 اکتوبر 2011 والے جلسے نے مجھے حیران کر دیا تھا۔ سیاست کے ایک ضدی مگر ہر وقت سیکھنے کو تیار طالب علم ہوتے ہوئے میں نے اس معرکۃلآراء جلسے کے پیچھے رواں جذبے کو سمجھنے کی کوششیں شروع کردیں۔ بڑی سوچ بچار کے بعد سمجھ یہ آئی کہ پچھلے دس برسوں میں کالجوں میں جانے کے بعد اپنے مستقبل سے مایوس نوجوانوں کو وہ Angry Young Man دِکھ رہے ہیں جو تن تنہا برائیوں سے بھرے ایک جزیرے میں بدی کی قوتوں کو للکار رہا ہے۔ عمران خان کے ذاتی کرشمے سے مسحور یہ نوجوان اور ان کے جذبے ہی اس کی اصل طاقت ہونا چاہیے تھے۔

مگر ان کے ہیرو نے ان کی اس طاقت کو تحریک انصاف میں Electables بھرنے میں ضایع کر دیا۔ شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد اس جماعت پر کوئی احسان ہرگز نہ کیا تھا۔ موصوف اسی طرز کہن والی سیاست کی جیتی جاگتی علامت تھے جسے مسمار کرنے عمران خان میدان میں اُترے تھے۔ موصوف سلاطین دلّی کے دور سے محلاتی سازشوں کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں سے خلعت و مسند کے طلب گار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھیں یہ گمان ہے کہ اُردو اور انگریزی کے بڑے جید مقرر ہیں اور آج تک دریافت نہیں کر پائے کہ ان کے منہ سے نکلے فقرے آمد نہیں آورد کا بڑا کھوکھلا اظہار ہوا کرتے ہیں، تصنع اور دوعملانہ انکساری کے اسی اثاثے کے ساتھ وہ نواز شریف کے پروں تلے سے نکل کر 1993ء کے انتخابات کے قریب محترمہ بے نظیر بھٹو کی جماعت میں آ گئے تھے۔

وجہ صرف اتنی تھی کہ ان کا اقتدار کی بو کو جبلی طور پر پا لینے والے ذہن نے یہ دریافت کر لیا تھا کہ نواز شریف کا ان انتخابات کے ذریعے دوبارہ وزیر اعظم بن جانا ممکن ہوتا تو صدر اسحاق ان کی پہلی حکومت کو ہرگز فارغ نہ کرتے۔ اس فراغت کے باوجود نسیم حسن شاہ کے سپریم کورٹ نے انھیں بحال کیا تو چوہدری الطاف حسین نے بطور گورنر پنجاب ان کا کھیل نہ چلنے دیا۔ جنرل وحید کاکڑ نے سب سے استعفے لے کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کر دی۔

محترمہ دوبارہ وزیر اعظم بنیں تو شاہ محمود قریشی کو پورا یقین تھا کہ ان کے ایچیسن کالج کے زمانے سے دوست بنے ڈاکٹر صفدر اور ناصر انھیں کوئی تگڑی وزارت دلوا دیں گے۔ ایسا نہ ہو سکا۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات بلکہ یہ ہوئی کہ محترمہ نے قریشیوں کے ملتان سے ازلی شریک یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی کا اسپیکر بنا دیا۔ قریشی صاحب بس جلتے کڑھتے رہ گئے۔ لیکن چونکہ اسلام آباد آ چکے تھے، اس لیے سفارتکاروں سے دوستیاں استوار کرنا شروع کر دیں۔ یہ حساب لگانے کے بعد کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے حکومتیں بنانے اور ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا کرتے ہیں، وہ ’’کاشتکاروں کے نمائندے‘‘ بن گئے اور اس حیثیت میں دنیا کے بڑے شہروں میں ہونے والے بین الاقوامی سیمیناروں میں شرکت کرنا شروع ہو گئے۔

محترمہ کو شاہ محمود قریشی کا یہ نیا روپ ہرگز نہ بھایا۔ وہ اس شک میں مبتلا ہو گئیں کہ شاید وہ کوئی ’’اپنی گیم‘‘ بنانا شروع ہو گئے ہیں۔ پھر نواز شریف آئے اور بعدازاں جنرل مشرف، شاہ محمود قریشی نے یہ دونوں زمانے بڑی ’’احتیاط‘‘ سے گزارے اور جیل وغیرہ جانے سے اکثر محفوظ رہے۔ جنرل مشرف کے دور میں ملتان کے ناظم بن کر جمہوریت کو جڑوں سے تعمیر کرنے کے عمل میں بھی مصروف رہے۔ محترمہ قتل کر دی گئیں تو آصف علی زرداری کے دل میں وہ جگہ نہ مل پائی جس کا وہ خود مستحق سمجھتے تھے۔ بڑی بے دلی سے انھوں نے یوسف رضا گیلانی کی حکومت کا وزیرخارجہ بننا منظور کیا۔ اپنی اس حیثیت میں انھوں نے جو ’’خود مختاریاں‘‘ دکھائیں وہ اپنی جگہ ایک الگ کہانی ہے۔ بہرحال ریمنڈ ڈیوس کے واقعے کے بعد انھوں نے زرداری کا ’’بھٹو‘‘ بننا چاہا۔ نہ بن پائے۔

تحریک انصاف میں نہ جاتے تو اور کہاں جاتے؟ قریشی صاحب جیسے بہت سے کردار تحریک انصاف میں دھڑا دھڑ شامل ہو چکے ہیں۔ مجھے ہر ایک کا ذکر کرنے کو پور ا پورا کالم درکار ہے۔ فی الحال دیگ کے ایک ہی دانے پر گزارہ کیجیے اور مجھے یہ بات کہہ لینے دیں کہ تحریک انصاف میں شامل ہو کر ہمارے نام نہاد Electables نے Angry Young Man کو بتدریج اپنے جیسا کر لیا ہے۔ سنا گیا تھا کہ بندہ نمک کی کان میں گھس کر خود نمک بن جایا کرتا ہے۔ عمران خان کی صورت میں تو نمک کی ایک پوری غار نے اپنا دہانہ کھول کر اسے ہڑپ کر لیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے بہت ہی ذہین ’’انقلابی‘‘ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ مگر بھٹو کے ٹمن، کھرل اور مسعود محمود اس کے اقتدار میں آنے کے بعد ہماری ریاست کو طرز کہن کی سیاست کی طرف واپس لے گئے تھے۔ عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ ان کے ’’ٹمن، کھرلوں اور قریشیوں‘‘ نے ان کے پروں میں سے اڑان کی طاقت کو ان کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے بڑی ہوشیاری سے آہستہ آہستہ چھین لیا ہے۔

میری ناقص رائے میں عمران خان اس وقت اپنے چاہنے والوں کے ایک بہت بڑے ہجوم کے باوجود اقتدار کے سفاکانہ کھیل کے تناظر میں اسی طرح یک و تنہا ہو چکے ہیں جیسے 5 جولائی 1977 کے روز ذوالفقار علی بھٹو نے خود کو پایا ہو گا۔ عمران خان کے لیے خیر کی خبر اب بھی یہ ہے کہ ان کا 4 اپریل 1979 نہیں ہو سکتا۔ انھیں اپنی جماعت کو زندہ رکھنے کیلیے بے نظیر جیسی دیوانی بیٹی کی بھی ضرورت نہیں۔ ان کے پاس اب بھی موقعہ ہے کہ بھرپور جمائی لینے کے بعد للکار کر اعلان کریں کہ جلد از جلد نئے انتخابات کرائے جائیں۔ وہ ان کے لیے تیار ہیں چاہے الیکشن کمیشن کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو اور خواہ ان کا بدترین دشمن مرکز اور صوبوں میں عبوری حکومتوں کا مدار المہام بھی بنا دیا جائے۔ انھیں بھروسہ اپنے چاہنے والوں کے جذبے پر کرنا ہو گا اور اس خوف سے مطلق پرہیز جو ان کی تحریک انصاف میں گھس بیٹھیے نام نہاد Electables نئے انتخابات کی طرف بڑھتے ہوئے بڑی شدت سے محسوس کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان خوفزدہ لوگوں میں سے دو بہت نمایاں افراد نے بدھ کو لاہور میں عارضی طور پر قائم ’’آستانہ قادریہ‘‘ پر حاضری دے کر اپنے دل کی کمزوری پوری دنیا پر عیاں کر دی ہے۔ عمران خان کو ان کی بزدلانہ نحوست سے بچنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔