ورلڈ کپ میں مایوس کن کارکردگی، قومی ویمنز ٹیم کو نئے خون کی اشد ضرورت

زبیر نذیر خان  اتوار 23 جولائی 2017
پی سی بی کی طرح اس کے ویمنز ونگ کا بھی برا حال ہے۔ فوٹو : فائل

پی سی بی کی طرح اس کے ویمنز ونگ کا بھی برا حال ہے۔ فوٹو : فائل

سرفراز احمد کی قیادت میں چیمپئنز ٹرافی جیتنی والی قومی ٹیم کی پذیرائی کا سلسلہ تاحال جاری ہے، شائقین اپنے ہیروز کی عظیم کامیابی پر نازاں اور بھرپور حوصلہ افزائی کررہے ہیں، دوسری جانب آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی نے عوام کو سخت مایوس کیا ہے۔

ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن اگر اچھے مقابلے کے بعد ناکامی بھی ہو تو کوئی ملال نہیں ہوتا تاہم قومی ویمنز ٹیم کو میگا ایونٹ میں جس طرح پے درپے شکستوں کا سامنا کیا،اس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، پی سی بی کے چیئرمین شہریار خان نے اس شکست فاش کی تمام تر ذمہ داری مختصر مدت کے لیے نامزد کیے جانے والے کوچ صبیح اظہر پر ڈال کر عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن مسائل اپنی جگہ موجود اور حکام کی توجہ کے منتظر ہیں۔

افسوس کی بات ہے کہ ماضی میں مسلسل ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی قومی ویمنز ٹیم کا مستقبل بھی سنورنے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں، سنٹرل کنٹریکٹ کے ساتھ دیگر اخرجات کی مد میں قوم کے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے لٹائے جانے کے باوجود بدترین ناکامیوں نے خواتین کرکٹرز کے کھیل کے معیار کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

ورلڈ کپ 2009 کے عالمی کپ میں قومی ویمنز ٹیم خاطر خواہ نتائج نہ دے سکی تواس کو نوآموز کہہ کر جان چھڑا لی گئی،ورلڈکپ 2013 میں گرین شرٹس صرف 2 میچز میں جیت سے ہمکنار ہوئیں لیکن اس مرتبہ تو حد ہوگئی کہ 8 ٹیموں کے ایونٹ میں ساتوں میچز میں ناکامی اور پوائنٹس ٹیبل پر آخر پر جگہ ملی، ایونٹ میں شریک ہر ٹیم سے شکست بلکہ عبرتناک شکست ٹیم کا مقدر بنی۔

اگر ایونٹ کے لیگ مقابلوں پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو پاکستان کو اپنے پہلے میچ میں جنوبی افریقہ سے 3 وکٹوں سے شکست کا ذائقہ چکھنا پڑا، گرین شرٹس مقررہ 50 اوورز میں 8 وکٹوں پر 206 رنز کے جواب میں جنوبی افریقہ نے 49 اوورز میں فتح کو گلے لگا لیا، بارش سے متاثرہ دوسرے میچ میں میزبان انگلینڈ نے 107 رنز سے مات دی، فاتح سائیڈ نے 7 وکٹوں پر 377رنز کا پہاڑ کھڑا کرلیا، بارش سے متاثرہ میچ میں ڈک ورتھ لوئیس میتھڈ کے تحت 29.2 اوورز میں 215 رنز کا ہدف ملا تو پاکستان ٹیم 3 وکٹوں پر 107 رنز ہی جوڑ سکی، تیسرے اور اہم میچ میں روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں 95 رنز کی شکست مقدر بنی،بلو شرٹس نے 9 وکٹوں پر 169 رنز بنائے، ہدف بڑا نہیں تھا لیکن گرین شرٹس 38.1 اوورز ہی میں 74 پر پویلین لوٹ گئیں، چوتھے میچ میں آسٹریلیا نے 139 کے بھاری بھرکم مارجن سے مات دے دی، 8 وکٹوں پر 290 رنز کے جواب میں قومی ٹیم کا131 رنز پر ڈھیر ہونا شائقین کے لیے انتہائی تکلیف دہ امر تھا، پانچویں میچ میں نیوزی لینڈ نے باآسانی 8 وکٹوں سے مات دے کر پاکستانی بولنگ کا مذاق اڑایا، اس مقابلے میں پاکستان ٹیم 46.5 اوورز میں 144رنز ہی جوڑ سکی، کیویز نے 15 اوورز میں ہی فیصلہ اپنے حق میں کرلیا، چھٹے میچ میں ویسٹ انڈیز نے بھی 19 رنز سے ہاتھ صاف کرلیا، بارش سے متاثرہ میچ میں ویسٹ انڈیز نے4 وکٹوں پر 185 رنز بنائے، ڈک ورتھ لوئیس میتھڈ کے تحت 24 اوورز میں 137 کا آسان ہدف ملا تو گرین شرٹس نے 3 وکٹیں کھو کر 117 رنز ہی جوڑے، ساتویں اور آخری لیگ مقابلے میں سری لنکا نے بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے اور پاکستان کو 15 رنز کی ناکامی کا داغ دیا، آئی لینڈرز کے 7 وکٹوں پر 221 رنز کے جواب میں پاکستان نے 46.4 اوورز میں 206 رنز بنا کر پویلین کی راہ لی۔

یوں ورلڈکپ سے پہلے کیمپ میں تیاریوں کے دوران کیے جانے والے بلند بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، گرین شرٹس کسی ایک میچ میں بھی 250 رنز نہ بناسکیں، میگاایونٹ میں پاکستان کی بدترین ناکامی کا مکمل پوسٹ مارٹم کرنے کی ضرورت ہے، مطلوبہ نتائج فراہم کرنے میں ناکام رہنے والی قومی ٹیم کی پلیئرز میں مہارت کی کمی دیکھنے میں آئی، فیلڈنگ کا معیار بھی پست رہا، کراچی میں کھیلے گئے پریکٹس میچ میں مقامی انڈر 12 ٹیم سے شکست کھانے والی ٹیم کا میگا ایونٹ میں یہ حشر تو ہونا ہی تھا۔

پی سی بی کی طرح اس کے ویمنز ونگ کا بھی برا حال ہے، بھاری بھرکم مشاہروں پر کام کرنے والے مرد اور خواتین عہدیدار ذمہ داریاں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں،کوچز کو بار بار تبدیل کرنے اور نت نئے تجربے کے بھی منفی نتائج سامنے آئے، 4 سال میں 4 کوچ بدل کر ٹیم کو زوال کی طرف دھکیلا گیا، 6 برس تک ہیڈ کوچ رہنے والے محشتم رشید کو یک جنبش قلم ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا گیا، سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی کے بعد کبیر خان اور بعد ازاں صبیح اظہر کو لایا گیا۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر اعظم خان نے بہترین نتائج دیئے لیکن اپنوں کو نوازنے کی پالیسی پر عمل پیرا بورڈ حکام نے شاہد انورکو بیٹنگ کنسلٹنٹ کی ذمہ داری سونپ دی، اس طرح کے اچانک فیصلے صادر کرکے کھلاڑیوں کے ساتھ بھی ناانصافی کی گئی، وہ کوچز اور ٹیم مینجمنٹ سے آشنا نہیں پاتیں کہ دوسروں کو متعارف کروا دیا جاتا، دوسری جانب ویمنز سلیکشن کمیٹی کا بھی برا حال ہے، پی سی بی کے ناقد محمد الیاس کو خاموش کرانے کے لیے چیف سلیکٹر بنایا گیا۔

یہ بات آج بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ سلیکٹرز کے معیار کا پیمانہ کیا ہے اور وہ خود کس معیار کو بنیاد بنا کر ٹیم منتخب کرتے ہیں ، پی سی بی ویمنز ونگ میں جنرل منیجر کی نشست پر براجمان شمسہ ہاشمی مراعات سے لطف اندوز ہورہی ہیں تو ٹیم کے ساتھ ایک عرصے سے جنرل منیجر عائشہ اشعر نوکری بچاؤ مہم کے تحت مصروف عمل ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان ویمنز کرکٹ کا بھرپور احتساب کرتے ہوئے ذمہ داروں کا تعین کیاجائے، سینٹرل کنٹریکٹ کے ساتھ اداروں سے بھاری بھرکم تنخواہیں لینے والی ویمن کرکٹرز کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔

ایبٹ آباد میں پیدا ہونے والی کشمیری گھرانے کی31 سالہ ثناء میر 2009 سے قیادت کے ساتھ چمٹی ہوئی ہیں، وہ خود کو طاقتور ثابت کرچکی ہیں، پی سی بی بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتا ہے، اپنی من مانیاں کرانے والی ثناء میر خود کو ویمنز ٹیم کا عمران خان گردانتی ہیں،من مرضی سے کوچ اور کھلاڑی تبدیل کرادینے والی آل راؤنڈر سے کرکٹرز بری طرح خوفزدہ رہتی اور ان کے سامنے اُف تک کرنے سے گریز کرتی ہیں، یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ قومی سکواڈ میں ذاتی پسند اور ناپسند کے ساتھ اپنے ادارے کی کھلاڑیوں کو ترجیح دینے سے بھی قومی ٹیم میں بگاڑ پیدا ہوا ہے، ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت چھوڑنے والی ثناء میر کو ون ڈے ٹیم کو بھی خیرباد کہہ دینا چاہیے تاکہ ملک کو نیا ٹیلنٹ مل سکے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ ثناء میر مستقبل میں بھی پاکستان ویمنز ٹیم سے جڑی رہیں گی، انہیںکوچ ، سلیکٹر یا منیجر کی ذمہ داری مل سکتی ہے، اگر ایسا ہوا توقومی ویمنز کرکٹ کے ساتھ المیہ ہوگا، قومی ویمنز ٹیم میں گروہ بندی کا خاتمہ ضروری ہے، سال میں 2 مرتبہ فٹنس ٹیسٹ پر اعتراض کرنے والی کرکٹرز مہارت کو بہتر بنانے اور فیلڈنگ کا معیار بہتر کرنے سے بھی گریزاں ہیں، وہ بلائے جانے پر بھی تربیت کے لیے این سی اے نہیں جاتیں، اب بھی وقت ہے پی سی بی کے ارباب اختیار ہوش کے ناخن لیں، نئے تعینات کئے جانے والے کوچ کو 2، 3 سال کا وقت دیا جائے،کوچ اختیارات کے بغیر نتائج نہیں دے سکتا، بہتر ریکارڈ کے حامل اسٹاف کو متعین کیا جائے۔

نیا ٹیلنٹ سامنے لانے کے لیے سلیکشن کمیٹی ملک گیر سطح پر اوپن ٹرائلز کا انعقاد کرکے میرٹ کی بنیاد پر ہر ریجن سے 4 سے 5 خواتین کرکٹرز منتخب کرے اور 30 سے 35 کھلاڑیوں کو سینئر کرکٹرز کے ساتھ ہم آہنگ کرکے کیمپ میں تربیت دی جائے، ڈیانا بیگ کے ٹیلنٹ سے فائدہ اٹھایا جائے، بسمہ معروف، نشرح سندھو، عائشہ ظفر، فاطمہ اور کائنات امتیاز کی صلاحیتیں مستقبل میں کام آسکتی ہیں، فٹنس مسائل کا شکار ماہم طارق پر توجہ دی جائے تو وہ ورلڈ کلاس بولر بن سکتی ہیں،بہتری لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا رہے گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔