نئی ٹیم مینجمنٹ توقعات پر پورا اتر سکے گی؟

میاں اصغر سلیمی  اتوار 23 جولائی 2017
گزشتہ کچھ برسوں سے اس تواترکے ساتھ شکستیں ہوئیں ہیں کہ کھلاڑی یہ تک بھول گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

گزشتہ کچھ برسوں سے اس تواترکے ساتھ شکستیں ہوئیں ہیں کہ کھلاڑی یہ تک بھول گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں جس ملک کے گراؤنڈز آباد ہوں وہاں کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں، کھیلوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے دنیا کا ہر ملک اپنی اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق خرچ کرتا ہے۔ بعض ممالک تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے خالصتاً کھیلوں کے ذریعے اپنی الگ پہچان اور شناخت بنائی۔ پاکستان بھی ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جس کے کھلاڑیوں نے اپنے کھیل کے ذریعے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرایا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1994ء میں ہمارے پاس کرکٹ ، ہاکی ، سکواش اور سنوکر کے کھیلوں میں چار عالمی اعزازت تھے۔

ہاکی وہ کھیل تھا جس میں ہم نے سب سے زیادہ فتوحات حاصل کیں۔ کامیابیوں کا یہ سلسلہ پاکستان بننے کے فوری بعد شروع ہوا اور 1994 تک جاری رہا۔ پاکستان اب تک 3 اولمپکس ، 4 عالمی کپ، 3 چیمپئنز ٹرافی، 7ایشینز گیمز ، 3 ایشیا کپ اور بڑی تعداد میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس اور سیریز جیت چکا ہے،تاہم گزشتہ کچھ برسوں سے اس تواترکے ساتھ شکستیں ہوئیں ہیں کہ کھلاڑی یہ تک بھول گئے ہیں ، کہ جیت کا مزہ کیا ہوتا ہے، 1960 ، 1968 اور 1984 کے اولمپکس کی فاتح پاکستان کی ہاکی کا گراف نیچے کی جانب جا رہا ہے، پاکستان کا آخری اولمپک ہاکی میں میڈل کانسی کا ہے، جو اس نے 1992 میں حاصل کیا تھا، اور ایک وقت تو یہ معیار اتنا گر گیا کہ 1998 میں وہ اپنا ایشیائی اعزاز بھی گنوا بیٹھا۔

بہت کم لوگوں کا معلوم ہو گا کہ ورلڈ کپ کرانے کا خیال پاکستان کے ایئر مارشل نورخان نے 1969ء میں پیش کیا۔ فیڈریشن آف انٹرنیشنل ہاکی کی کونسل نے 12اپریل 1970ء کو برسلز میں ہونے والے اپنے اجلاس میں اس کی باقاعدہ منظوری دے دی اور پہلا ورلڈ کپ 1971ء میں پاکستان میں کرانے کا اعلان کیا گیا لیکن خراب سیاسی حالات کے باعث بعد میں اسے سپین منتقل کر دیا گیا۔ ورلڈ کپ کی ٹرافی بھی ایک پاکستانی بشیر موجد نے ڈیزائن کی اور اسے پاک فوج نے تیار کیا۔

اس طرح پاکستان کی کوششوں سے ہاکی کے سب سے بڑے عالمی مقابلے کا آغاز ہوا اور پہلا ورلڈ کپ جیت کر پاکستان نے ورلڈ کپ کی تاریخ کا آغا ز کیا۔ اس کے بعد 1978ء،1982ء اور1994ء کے ورلڈ کپ میں فتوحات سے پاکستان سب سے زیادہ مرتبہ یہ اعزاز حاصل کرنے والا ملک بن گیا اور اس کا یہ اعزاز آج بھی قائم ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان 1997ء اور 1990ء کے ورلڈ کپ مقابلوں میں رنر اپ رہا۔ نوّے کی دہائی کے وسط میں پاکستان میں ہاکی کا زوال شروع ہو گیا۔

وسائل کی دستیابی کے باوجودہاکی فیڈریشن میں سیاسی تقرریوں، پے درپے تجربات اور ناقص حکمت عملی نے قومی کھیل کے زوال کی راہ ہموار کر دی۔پاکستانی شائقین نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ ورلڈکپ کی تاریخ کی سب سے کامیاب ٹیم جس نے چھ مرتبہ رولڈ کپ فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا اور چار مرتبہ دنیائے ہاکی کا حکمران قرار پایا، اس کی ورلڈ کپ میں شرکت ہی یقینی نہیں رہے گی۔اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کو ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی کھیلنے سے پہلے بھی کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑتا ہے۔

ورلڈ کپ مقابلوں کیلئے چھ براعظموں کی چیمپئن اورباقی کوالیفائی کرنے والی ٹیموں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کا سلسلہ 1977ء میں شروع ہوا اور پاکستان کو اس سے پہلے کبھی ان مقابلوں میں حصہ لینے کی ہزیمت نہیں اٹھانا پڑی، قومی ٹیم کی عالمی سطح پر ناکامیوں کا سفر تاحال جاری ہے جس کا اندازہ حال ہی میں انگلینڈ میں شیڈول ورلڈ ہاکی سیریز میں گرین شرٹس کی کارکردگی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، سیریز میں مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے رشید جونیئر کی جگہ حسن سردار کو پی ایچ ایف کی سلیکشن کمیٹی کا نیا سربراہ مقرر کیا جا چکا ہے، اسی طرح ہیڈ کوچ خواجہ محمد جنید اور ٹیم منیجر حنیف خان کو برطرف کر کے گھر بھیجا جا چکا ہے اور ان کی جگہ فرحت خان کو نیا چیف کوچ و منیجر لگایا گیا ہے، شفقت ملک اور محمد سرور معاون کوچز کے فرائض انجام دیں گے، نئے ہیڈ کوچ فرحت خان پر امید ہیں کہ کھلاڑیوں میں جارحانہ اور مثبت مائنڈ سیٹ کی بدولت قومی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ہاکی کی بڑی قوت تھا اور میرا اب بھی ماننا ہے کہ ہم بہترین نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق میں طویل المدتی اہداف متعین کرنے کا قائل نہیں بلکہ اس کے بجائے میں پہلا میچ جیتنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھوں گا۔ہیڈ کوچ نے کہا کہ مجھے ہار پسند نہیں، ہمارا ماضی بہت تابناک تھا اور میں اس عہد کا عینی شاہد ہوں، میں ہر میچ جیتنے پر یقین رکھتا ہوں اور اب بھی امید کرتا ہوں کہ جارحانہ حکمت عملی اپنا کر ہم اچھے نتائج دے سکتے ہیں۔ نئے چیف کوچ کے اس بیان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قومی کھیل کیلئے خاصا درد رکھتے ہیں اور اس کھیل کیلئے بہت کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں تاہم دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوتے ہیں یا نہیں۔

قومی کھیل کی ماضی کی ناکامیوں کا جائزہ لیا جائے تو عرصہ سے مایوسیوں کے بادل چھانے کی بہت ساری وجوہات میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں 30کے قریب کھلاڑیوں کو ٹیم سے اندر باہر کر کے ہی انٹرنیشنل مقابلوں میں نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے فیڈریشن عہدیداروں کا بھی آنا جانا لگا رہا۔ پلیئرز پی ا یچ ایف حکام جبکہ مختلف عہدوں پر قابض آفیشلز ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر اپنی جان چھڑانے کی روش پر گامزن رہے۔ انتظامی امور میں اکھاڑ پچھاڑ ضرور جاری رہے لیکن مستقبل کے تقاضے پورے کرنے کیلئے گراس روٹ سطح پر قومی کھیل کے فروغ کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

پاکستان کے سابق کھلاڑیوں سے گر سیکھنے والے کئی ملک میدانوں میں گرین شرٹس کو پچھاڑتے رہے جبکہ ہمارے کلب غیر فعال اور سکول وکالج ہاکی سے دور ہوتے گئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے گراس روٹ سطح پر کھیل کو توجہ کا مرکز بنایا جائے۔ ریجنل اکیڈمی کے قیام ، کلب اور ضلع کے بعد صوبائی اور پھر قومی سطح کے مقابلے کروائے جائیں، اس پریکٹس سے نوجوانوں میں دلچسپی بڑھے گی، نتیجہ کے طور پر نیا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آئے گا، قومی ٹیم کو سینئرز کے تجربہ کے ساتھ نیا خون میسر آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔