ایک ہی صف میں

محمد عمار فیضان  جمعـء 8 فروری 2013

ایک دفعہ کا ذکر ہے اپنے تعلیمی ادارے میں ہوا خوری کے دوران بھٹکتے ہوئے بینک تک جا پہنچا، جانے پہچانے کئی چہروں میں ایک شدید پریشان چہرہ بھی نظر آیا، اس طرح کی چہرے دیکھنے کی عادت ہے، دریافت کیا جناب کیا مسئلہ ہے؟ محترم نے فرمایا کہ گائوں پیسے بھیجنے ہیں، اس کا ’کاغذ‘ بھرانا ہے۔ میں اس کے ہاتھ سے قلم لے کر اس ’کاغذ‘ پر موجود معلومات پُر کرنے لگا جس پر اس چوکیدار نے پہلے ہی کچھ طبع آزمائی کی تھی، اور اپنے نام کے علاوہ ہندسوں میں منتقل ہونے والی رقم 600 جن الفاظ میں تحریر کرنے کو کوشش کی تھی وہ کچھ یوں تھی ’چ ،ح سوں روپیں‘۔ مجھے ایک ہی لمحے میں دو طرح کے کیفیتوں کا سامنا ہوا، ایک تو ہنسی تھی جو میں اس وقت ضبط نہ کرسکا، جس پر وہ بے چارا کچھ پریشان بھی ہوا، اور دوسرا احساس جو مجھے وہاں سے روانہ ہونے کے بعد ہوا جس میں کچھ پشیمانی بھی تھی وہ یہ کہ کچھ دیر پہلے ہم چند دوستوں نے اس سے دگنی رقم کا دوپہر کا کھانا کھایا تھا وہ بھی کسی شر ط کے ہارنے پر، اور چوکیدار اس کی آدھی رقم اپنے گھر روانہ کر رہا تھا جو شاید اس کے پندرہ دن کا خرچہ تھا۔

اسی طرح ایک بار میں ریگولر ماسٹرز کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بے روزگاری کے ایام گزار رہا تھا، ان ہی دنوں خیال آیا کیوں نا ایک اور ماسٹرز آزاد امیدوار کی حثییت سے بھی دے ڈالوں، کیا پتا یہ ’بے کاری‘ ہی کسی کام آجائے۔ خیر پکڑ دھکڑ کے فارم جمع کروایا اور امتحان میں شرکت کے لیے پہنچ گیا، وہاں اور بھی بہت سے ’بے کار‘ لوگوں کو دیکھ کر کافی اطمینان ہوا کہ یہ ’ دانشمندانہ بیوقوفی‘ اور بھی لوگ سرانجام دے رہے ہیں۔ پرچہ سیاسیات کا تھا اورکمرہ امتحان میں بھی سارے ہی ’سیاسی‘ تھے، اور یہ ہی ’چیز‘ بعد میں میرے امتحان میں کامیابی کا باعث بھی بنی۔ خیر یہ تو حسن اتفاق تھا کہ میں ان کے درمیاں موجود تھا، ورنہ ان کو میری موجودگی کچھ پریشان بھی کر رہی تھی، جس کا اظہار ایک پرچے کے دوران مجھے دوسرے کمرے میں منتقل کروا کے کیا گیا، لیکن تین پرچوں میں میرے اچھے برتائو اور بے ضرر سی شکل دیکھ کر ایک ’بڑے‘ صاحب کو مجھ پر رحم آگیا اور انھوں نے بڑی شان سے ایک کش لگاتے ہوئے کہا، چھوڑ دو ’اپنا بچہ‘ ہے، ان کی ذاتی فرمائش پر میں پھر وہیں منتقل کر دیا گیا، ’پہنچی وہیں پر خاک جہاں کا خمیر تھا‘۔

ویسے ان صاحب کو میں آج بھی دل کھول کر دعائیں دیتا ہوں کیونکہ تین پرچوں نے میری بھی ’عادت‘ خراب کردی تھی، اور اگر میں اس دن راندۂ درگاہ کردیا جاتا تو آج ایک ہی ڈگری کے ساتھ دھکے کھا رہا ہوتا۔ میں ذکر کر رہا تھا پہلے پرچے کے آغاز کا، کلاس میں پرچہ تقسیم کیا جاچکا تھا، سوالات پر غور جاری تھا کہ وہ ہی چوکیدار کمرہ امتحان میں داخل ہوا، مجھے کوئی تشویش نہیں ہوئی، اور یقیناً ہونی بھی نہیں چاہیے تھی کیونکہ زیادہ تر انتظامیہ ان ہی حضرات کے ذریعے پرچوں سے متعلق دیگر امور میں مدد لیا کرتے ہیں، جیسے کاپی پر مہر لگانا، اضافی کاپی کے ساتھ گرہ لگانے کے لیے دھاگے فراہم کرنا، پانی پلانے اور اسی طرح کے کام یہ لوگ ہی انجام دیتے ہیں، میری آنکھوں میں بھی اس خیال کے ساتھ چمک پیدا ہوئی کہ چلو پانی تو نصیب میں آیا وہ بھی آغاز ہی میں۔ اس سوچ کے ساتھ میں نے ہاتھ سے اس کو اشارہ کیا، وہ بھی میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور تیزی سے میری طرف بڑھا۔ میں سمجھا شاید بے چارہ ’اُس کام‘ کی وجہ سے احتراماً سلام کرنے آرہا ہے۔ لیکن وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا پچھلی نشست پر جا کر بیٹھ گیا۔ اس کا تشریف فرمانا تھا کہ کمرے میں موجود استاد نے اس کے ہاتھ میں بھی ایک پرچہ اور کاپی تھمادی۔ اس کے بعد پورے پرچے کے دوران میری اتنی ہمت نہ ہوسکی کہ پیچھے مڑ کر بھی دیکھتا۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ امتحان کے دوران مسلسل کتاب میں سے پرچہ پھٹنے کی آوازیں آتی رہیں اور تمام وقت میں اس ہی سوچ میں گم رہا کہ جس شخص کو ’چھ سو روپے‘ لکھنا مشکل ہو، وہ اگر کتاب سے بھی نقل کرلے تو کیا لکھ سکے گا؟

خیر اس ہی شرمندگی کے ساتھ تمام پرچے ’بخیروخوبی‘ انجام پائے، اگلے سال ہماری ملاقات نہیں ہوسکی، اس کا امتحانی مرکز پتا نہیں کہاں تھا، جب کہ ایک مضمون کے افراد ایک ہی امتحان گاہ میں ہوتے ہیں، جب دوسرے سال کے نتائج کا اعلان ہوا تو میں بھی اس غرض سے ایگزامنیشن کی عمارت میں داخل ہوا تو ان ہی حضرت سے ملاقات ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد پوچھنے لگے کہ آپ کا رزلٹ کیا آیا؟ مجھے محسوس ہوا کہ آج تو میری عزت رہ جائے گی، اس نے چیٹنگ سے کون سا تیر مارا ہو گا، میں نے جواب دیا معلوم کرکے بتاتا ہوں، تمھارا کیا ہوا ؟ سیکنڈ ڈویژن ہے58%، اس کے جواب میں ہی ایک اکڑ تھی۔ میں خوف میں مبتلا اپنا رزلٹ جاننے روانہ ہوا، نمبرز معلوم ہوئے تو 56% کے ساتھ میں بھی کامیاب تھا، لیکن یہ کامیابی مجھے منہ چڑا رہی تھی۔ ’چھپن‘ میں موجود چھ مجھے وہ ’کاغذ‘ یاد دلا رہا تھا جس پر چ،ح لکھا تھا۔ بینک میں موجود وہ ’ہونق چہرہ‘ آج میرا تھا جو کبھی اس چوکیدار کا تھا، شرمندگی کے باعث میں کافی دیر اس کے آگے پیچھے ہونے کا انتظار کرتا رہا اور پھر موقع ملتے ہی اس سے آنکھ بچا کر بھاگ نکلا، مجھے اس کے بعد کافی عرصے تک اس طرف جانے کا خیال بھی دل میں نہ آیا، اپنا ریگولر ماسٹرز بھی مجھے پھانس کی طرح چبھنے لگا، اور ’ایگزامنیشن‘ کی تیاری سے بہتر مجھے ایگزامنیشن میں چوکیدار رہنا اور لگنا بہتر محسوس ہو رہا تھا۔

اس غم کی صورتحال میں یہ ہی سوچ رہا تھا کہ اوپری سطح پر ڈگریاں ایچ ای سی سے تصدیق کرانے کی لڑائی جاری رہتی ہے، جب کہ اس طرح سے حاصل ہونے والی ڈگریوں کو کوئی بھی جعلی قرار نہیں دے سکتا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جب پورے ملک میں جعلی ڈگریاں پکڑی جارہی تھیں تو کراچی اور اس کے مضافات سے تمام ’چوکیدار‘ بچ نکلے، اب تو پانچ سال بھی مکمل کرچکے ہیں۔ خیر تعلیمی باتوں میں سیاست کہاں سے آئی۔ پھر یوں ہوا کہ کچھ دن پہلے پھر ’ان کی گلی‘ میں جانا پڑا۔ آج وہ چوکیدار کچھ نئے لباس اور بہتر حال میں نظر آیا، اب وہ دروازے کے سامنے نہیں ایک میز کے پیچھے بیٹھا تھا۔ بہت اچھا استقبال کیا اور چائے بھی منگوالی اور بہت ہی پراعتماد انداز میں پوچھا، آپ کیا کر رہے ہیں؟ جواب تھا کچھ نہیں۔ اس پر موصوف نے کہا، یار آپ لوگ محنت نہیں کرتے ہیں، نا نوکری ہوتی ہے، نا شادی ہوتی ہے، ہم کو دیکھو ہماری شادی بھی ہے، بچے بھی ہیں، نوکری میں ترقی بھی مل گئی ہے اور آپ ابھی تک فارغ گھومتے ہو۔ میں نے جواب دیا، ہاں بھائی تمہارا تجزیہ کافی درست ہے، بس شہر کے لوگوں میں یہ مسئلہ تو ہوتا ہے۔ اور میں نے دل میں سوچا شاید یہ واقعی پڑھ لکھ گیا ہے جب ہی اتنا اچھا تجزیہ کر رہا ہے، اس پر سوال کیا کہ اور آج کل کیا کررہے ہو اور مستقبل کا پروگرام کیا ہے؟ جواب ملا ’’بس نوکری، پھر سار ا وقت ٹاک شو دیکھتا ہوں۔‘‘

اچھا وہ کیوں دیکھتے ہو؟ ہم نے سوال داغا۔
وہاں سے بھی فوراً جواب آیا۔ ’عین کر‘ بننا ہے۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور مجھے ملک کے تعلیمی، سیاسی اور صحافتی مسائل کا تسلی بخش جواب مل گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔