اخلاقی روایات عنقا ہوگئیں

عابد محمود عزام  پير 24 جولائی 2017

جب سے پاناما کا ہنگامہ برپا ہوا ہے، اس وقت سے ملک میں ہر چڑھتے سورج کے ساتھ سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین محاذ آرائی جاری ہے۔ پاناما لیکس کا معاملہ عدالت عظمیٰ کے سامنے ہے اور اصولی طور پر معاملے کو عدالت تک ہی محدود رکھنا چاہیے تھا، عدالت جو فیصلہ سناتی، سب کو قبول کرنا چاہیے تھا۔ مگر دونوں جانب کی سیاسی جماعتوں نے اپنے موقف کو مضبوط ثابت کرنے کے لیے پاناما لیکس کیس کے بارے میں گلی کوچوں میں اپنی ہی عدالت لگا دی۔

جو فیصلہ سپریم کورٹ نے سنانا تھا، سیاست دان میڈیا پر اور جلسے جلوسوں میں اس سے متعلق خود ہی فیصلہ سنانے لگے اور اس سے متعلق جذباتی اور اشتعال انگیز بیانات دینے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست دانوں کے طفیل ملک کے گلی کوچوں اور عوامی پلیٹ فارم سوشل میڈیا پر جانبین کے افراد میں آپس میں بحث و تکرار جاری ہے، جس سے نفرتیں جنم لے رہی ہیں اور ہر دو جانب کے افراد فریق مخالف کے حامی افراد کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان سے نفرت کا اظہار کررہے ہیں۔ جو معاشرے کے لیے بہت خطرناک بات ہے۔

اپنے سیاسی مفادات کی خاطر جذباتی سیاست کے ذریعے دوسروں کے لیے نفرتیں پیدا کرنے کے ذمے دار سیاست ہیں۔ سیاست دان خود کو ملک و قوم کے خادم بتلاتے ہیں، لیکن اپنے مفاد کی خاطر معاشرے کے افراد کو تقسیم کردینا اور ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا کردینا کسی طرح بھی ملک و قوم کی خدمت نہیں ہے، بلکہ اپنے مفادات کی خاطر عوام کو فریق مخالف کے خلاف استعمال کرنا انتہا پسندی ہے۔ انتہاپسندی کسی بھی شعبے میں در آئے، معاشرے کے لیے زہر قاتل ہوا کرتی ہے اور ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے مترادف ہے۔

ملک کے کروڑوں عوام میں سے منتخب کیے گئے افراد ہی اگر انتہاپسندی کی بھینٹ چڑھ جائیں گے تو عوام کا کیا ہوگا، جو سیاست دانوں کو منتخب کرتے ہیں اور ان کے نعروں پر یقین کرتے اور ان کو اپنا رہنما سمجھتے اور ان سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اگر سیاستدان انتہاپسندی کی سیاست کریں گے تو ان میں اور کم علم افراد میں کیا فرق رہ جائے گا۔ مگر افسوسناک اب سیاست میں ہر بات کو جائز سمجھ لیا گیا ہے۔سیاست میں اخلاقی روایات عنقا ہوتی جارہی ہیں۔

مخالفین کو زیر کرنے کے لیے کسی بھی حد تک گرنے کو درست تسلیم کر لیا گیا ہے اور سیاسی اختلافات کو دشمنی کی حد تک بڑھا دینا بھی عمل قبیح نہیں رہا۔ اب سیاست میں برداشت کا فقدان واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جذباتیت وافر مقدار میں موجود ہے، حالانکہ سیاست میں اگر جذباتیت کا عنصر زیادہ مضبوط ہو جائے تو پھر سیاست نہیں رہتی، بلکہ بچگانہ پن پر مبنی ایک لایعنی مشق بن جاتی ہے اور یہی مشق ایک عرصے سے ہمارے ملک میں دہرائی جارہی ہے۔

سیاسی جماعتیں تو اپنے کارکنوں کے لیے نرسری کی حیثیت رکھتی ہیں، جہاں کارکنوں کی تربیت کی جانی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کا کردار ایک ریاست کی مانند ہونا چاہیے، جو اپنے کارکنوں کی اس طرح سے تربیت کرے کہ ہر جگہ ان کے سامنے ملک و قوم کا مفاد رہے، لیکن یہاں تو اکثر سیاسی جماعتیں اقتدار کی ہوس اور انتخابی پارٹی تک محدود ہیں۔ سیاسی مفاد کی خاطر مخالف جماعت کے خلاف ہر قسم کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اپنے مخالف پر طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کی جاتی ہیں، ان کے نقطۂ نظر کو غلط صورت میں پیش کیا جاتا ہے، سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمن وطن ٹھہرایا جاتا ہے۔ مذہبی اختلاف ہو تو اس کے ایمان تک پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ کارکن اپنے رہنماؤں سے سیکھتے ہیں۔ کارکنان اور ووٹرز اپنے رہنماؤں کے بیانات کا نوٹس سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ان بیانات کو لے کر بحث و تکرار بھی کرتے ہیں، اس بحث و تکرار کا نتیجہ خوشگوار نہیں ہوتا، بلکہ آپس میں مزید رنجشوں، بغض و عناد اور سیاسی انتشار کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

سیاسی کارکنان کے طرز عمل کے ذمے دار سیاسی جماعتوں کے قائد اور سرکردہ رہنما ہیں، کیونکہ عوامی جلسے اور جلوسوں میں اپنے سیاسی حریفوں اور مخالفین کے لیے جو زبان وہ استعمال کرتے ہیں، وہی زبان ان کے کارکن اور ووٹرز دوران بحث و مباحثہ استعمال کرتے ہیں، جس سے ناخوشگوار ماحول جنم لیتا ہے۔ اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں مخالفت و مزاحمت کے اس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے اور سیاست کی وجہ سے پھیلائی جانے والی نفرتوں کو ختم کرنا ہوگا۔

محض سیاسی مفادات کی خاطر اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے قبیح ہے، بلکہ اس سے معاشرے میں بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی بدولت معاشرے کے مختلف عناصر میں باہمی عداوتیں پرورش پاتی ہیں، عوام دھوکے اور فریب میں مبتلا ہوکر اختلافی مسائل میں کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتے اور معاشرے کی فضا میں وہ تکدر پیدا ہو جاتا ہے، جو تعاون و مفاہمت کے لیے نہیں، بلکہ صرف تصادم و مزاحمت ہی کے لیے سازگار ہوتا ہے اور یہی باتیں بحیثیت مجموعی پوری قوم کے لیے نقصان دہ ہیں۔

جہاں سیاسی رہنماؤں کی ذمے داری ہے کہ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر عوام کو استعمال نہ کریں، وہاں ملک کے ہر شہری کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت اور اپنے رہنما کی خاطر نامناسب رویہ نہ اپنائے، بلکہ ہمیشہ وہی بات کرے جو حق ہو اور ملک و قوم کے مفاد میں ہو، اس سے اس کی پارٹی کو چاہے نقصان ہی ہوتا ہو، کیونکہ پہلے ملک ہے، اس کے بعد پارٹی ہے۔ ملک سلامت ہوگا تو ہی پارٹی بھی سلامت رہ سکے گی۔ ملک کے ہر شہری کا حق ہے وہ سب سے پہلے ملک کا اور معاشرے فائدہ سوچے۔

جو بات ملک و قوم اور معاشرے کے نقصان میں ہو، جماعت کو اس سے چاہے کتنا ہی فائدہ پہنچ رہا ہو، وہ ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ سب کے نزدیک جماعت سے بڑھ کر ملک اور قوم ہونے چاہیے۔ بلاتفریق جماعت ہمیں ہر اچھے کام کی تائید و تعریف اور ہر برے کام پر تنقید کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے، مگر سوال یہ ہے کہ تقریباً تمام لوگوں کی کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ہوتی ہے اور انھیں اپنی وابستگی واضح کرنا ہوتی ہے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنی جماعت کی حمایت نہ کرے؟

وابستگی اور تعلق ایک فطری امر ہے ، لیکن یہ بھی ایک غیر اخلاقی اور غیراسلامی امر ہے کہ جس سے وابستگی ہو اسی کو انسان خیر کا منبع خیال کر لے اور یقین کرلے کہ ہر دوسری سیاسی جماعت شر اور جھوٹ پرمبنی ہے اور یہ بھی غلط ہے کہ اپنی جماعت اور پارٹی کی ہر اچھی بری بات کی تائید کی جائے اور دوسری جماعت کی ہر اچھی بری بات کی مخالفت کی جائے۔ یہ ایک انتہائی نقطہ نظر ہے۔

ایسا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ فیصلہ میرٹ پر کرنا چاہیے، بری بات چاہے کوئی بھی کرے اس کی مخالفت اور اچھی بات کوئی بھی کرے اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔ اگر یہ رویہ اپنائیں گے تو ہی ہم ملک کے خیرخواہ ہیں، ورنہ اپنی جماعت کے خیرخواہ تو ہیں، ملک و قوم کے خیرخواہ نہیں ہیں۔یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اگر مخالف جماعت کے لوگوں کا احتساب ہو تو قبول ہے اور اگر اپنی جماعت کے لوگوں کی کرپشن پر ہاتھ ڈالا جائے تو قبول نہیں۔ یہ ہر طرح سے قابل مذمت رویہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔