اختلاف کیجیے، تضحیک نہیں!

تنویر قیصر شاہد  پير 24 جولائی 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

چلیے پیپلز پارٹی کی دانشور خاتون سیاستدان محترمہ شیری رحمٰن کی یہ بات تسلیم کر لیتے ہیں کہ جناب نواز شریف کو زیڈ اے بھٹو کے مقابل نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ بات مگر تسلیم کرنا اور ماننا پڑے گی کہ ان دونوں منتخب وزرائے اعظم، جو بھاری عوامی مینڈٹ سے منتخب ہُوئے، میں چند باتیں تو مشترک ہیں۔ شائد یہی مشترکہ اوصاف دونوں کے لیے ’’عذاب‘‘ بن گئے۔

زیڈ اے بھٹو نے مملکتِ خدادا د پاکستان کو، بھارت کے مقابل، ایٹمی طاقت بنانے کے لیے عملی قدم اٹھائے تو عالمی قوتوں نے اُن کی جان لے لی۔ اگرچہ جان لینے کے لیے اپنوں کو مہرہ بنایا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی گواہی تو رکھئے ایک طرف کہ کس طرح لاہور کے گورنر ہاؤس میں امریکی وزیر خارجہ نے اُن کے والد کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کی ضد سے باز نہ آئے تو اُنہیں’’مثال‘‘ بنا دیا جائے گا۔ اسی سلسلے کی ایک تازہ شہادت بھی سامنے آئی ہے۔

حال ہی میں مجھے معروف امریکی محقق Alex Vatanka کی تحریر کردہ انکشاف خیز کتاب پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ رونگھٹے کھڑے کر دینے والی اس کتاب کا نام ہے : Iran and Pakistan : Security, Diplomacy and American Influence اس کے ساتویں باب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جب امریکا وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹم بم بنانے کی ضد سے باز نہ رکھ سکا تو امریکی صدر اور امریکی خفیہ ایجنسیوں نے شہنشاہ ِ ایران رضا شاہ پہلوی کو تیار کیا کہ وہ بھٹو سے کہیں کہ ایٹم بم بنانے کی ہَٹ سے دستکش ہو جائیں لیکن بھٹو صاحب پھر بھی نہ مانے۔

امریکی دباؤ اور شہ پر شاہ ایران نے بھٹو صاحب کو سخت الفاظ میں دھمکی بھی دی لیکن وزیر اعظم پاکستان نے دھمکی تو برداشت کر لی مگر شاہ ایران کی بات بھی ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ وطنِ عزیز میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو بھٹو مرحوم کی اب بھی پُر تشدد الفاظ میں مخالفت بھی کرتے ہیں اور اُن کی تضحیک بھی لیکن یہ واقعہ ہے کہ قوم پرست بھٹو کو پاکستان کی محبت ’’لے ڈُوبی‘‘ بھٹو صاحب کی اندھا دھند مخالفت کرنے والوں سے اُن ایام میں بھی سیانے لوگ یہی گزارش کرتے تھے کہ آپ ایک منتخب وزیر اعظم کی مخالفت ضرور کیجیے لیکن مہربانی فرما کر اُن کی تضحیک اور کردار کشی مت کیجیے۔

اس گزارش کو مگر ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ اور آج جب کہ پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے اور عوامی وزیر اعظم بھٹو کو قتل کیے ہُوئے تقریباً چار عشرے ہو چلے ہیں، اُن کا مضحکہ اڑانے والے سابقین ہاتھوں کی تلیاں مَلتے ہُوئے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں: بھٹو صاحب کی مخالفت میں ہمیں تضحیک کا اسلوب اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا، اِس کا یقینی طور پر جمہوریت دشمن گروہوں اور طاقتوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مملکتِ خداداد کی ترقی کا پہیہ منجمد ہو کر رہ گیا۔ جمہوری دنیاؤں میں ہماری عزت ایک دمڑی کی نہیں رہی۔

آج جناب نواز شریف کے حریف بھی، بدقسمتی سے، اُن کی مخالفت کرتے ہُوئے تضحیک کا لہجہ اختیار کیے ہُوئے ہیں۔ پسند تو دُور کی بات، کسی بھی شکل میں اِس لہجے کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ یاد رکھا جائے کہ مئی 1998ء میں جن عالمی قوتوں (خصوصاً امریکا بہادر)کا حکم نہ مانتے ہُوئے جناب نواز شریف نے، بھارت کے مقابلے میں، ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو باقاعدہ عالمی ایٹمی کلب میں شامل کرنے کا بے مثل کارنامہ انجام دیا تھا، اُن قوتوں نے نواز شریف کی اس ’’نافرمانی‘‘ کو ابھی تک فراموش نہیں کیا ہے۔ یہ قوتیں پاکستان میں ’’ایک اور بھٹو‘‘ کا تماشہ لگانے کی درپے ہیں۔

کیا ہم اپنے جمہوری اور عوامی وزر اعظم کو تماشہ بننے دیں؟ میاں صاحب کی مخالفت میں شب و روز کمر بستہ گروہوں سے اب ایک بار پھر سیانوں کی یہی درخواست اور التجا  ہے کہ وہ منتخب وزیر اعظم کی جمہوری اسلوب میں مخالفت ضرور کریں لیکن، پلیز، تضحیکی اور ٹھٹھولی لہجے سے باز رہا جائے۔ عجب بات ہے کہ بھٹو نے بھارت کے خلاف ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان کیا تو تب بھی اُن کی جان نہ بچی اور نواز شریف نے بھارت سے دوستی کرنے کااعلان کیا تو پھر بھی اُن کی جان کو شکنجے میں جکڑنے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔

جمہوری ذہن سوال کرتے ہیں کہ پھر پاکستان کے منتخب وزرائے اعظم جائیں تو کہاں جائیں؟ اگر بھارت سے دوستی کرنا اتنا ہی بڑا جرم ہے تو شبخون مار کر اقتدار پر قابض ہونے والے حکمرانوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے گھروں میں بھارتی اداکار اور اداکارائیں مہمان بنتی رہیں اور ریاستی پروٹوکول کے مزے لُوٹتے رہے؟ کیا یہ تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ نواز شریف بھارت سے دوستی اور مصافحہ کرتے ہُوئے اپنے وطن کے مفادات کو پسِ پشت ڈال دیں گے؟ جن لوگوں نے بھارت جا کر واجپائی کو سیلوٹ مارا تھا، اُنہیں تو کسی نے پوچھا نہیں لیکن وزیر اعظم نواز شریف کی بھارت دوستی کی تمنا کو نشانِ عبرت بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ایک پیر صاحب جب محمد خان جونیجو ایسے مہذب اور شریف النفس وزیر اعظم کا مضحکہ اڑاتے تھے تو اس کی اخبارات میں شہ سرخیاں لگتی تھیں۔ ہم شومئی قسمت سے اپنے منتخب وزرائے اعظموں کی تضحیک میں خوشی محسوس کرنے کے اتنے عادی اور خُوگر ہو گئے ہیں کہ جب وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کا ایک متکبر سردار نے مضحکہ اڑایا اور اس کا چرچا اخبارات و جرائد میں بھی کیا گیا تو ہم نے اس لہجے کی مذمت اور اسے ناپسند کرنے کے بجائے اس سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کی۔ دنیا میں ہم ایسا بھی شائد ہی کوئی اور ہو!!

وزیر اعظم جناب نواز شریف کا، بھٹو صاحب کی مانند، قصور یہ ہے کہ انھوں نے پاکستان کی ترقی اور جدت کا خواب دیکھا۔ اُن کی راہوں میں مگر قدم قدم پر اتنے کانٹے بکھیر دیے گئے کہ چلنا دشوار ہو گیا۔ اس کے باوصف وہ مگر ہمت، احتیاط، ثابت قدمی اور یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے۔ دھیرے دھیرے ہی سہی مگر رُکے نہیں، تھمے نہیں۔ مسلسل اس لگن میں رہے کہ توانائی کے بحرانوں  اور بھنوروں میں گھری پاکستان کی کشتی کو کامیابی کے ساتھ کنارے پر لے آئیں۔ اِن کوششوں میں بعض جگہ یقیناً غلطیاں اور ٹھوکریں بھی لگی ہوں گی۔ بڑے منصوبوں کی تکمیل میں غلطیاں کہاں نہیں ہوتیں؟

تقریباً پچاس ارب ڈالر کا چین سے کیا گیا معاہدہ (CPEC) تو نواز شریف کا ایسا بے مثال اقدام تھا اور ہے کہ اُن کے غیر ملکی دشمنوں کے پیٹ میں بھی دن رات مروڑ اُٹھنے لگے۔ امریکا، بھارت اور ہمارے بعض مسلمان ’’برادر‘‘ ممالک بھی نواز شریف کی جان کو آ گئے۔ کوششیں کی جانے لگیں کہ کسی بھی طرح پاکستان کی بدلتی اور دمکتی تقدیر کو کھوٹا کر کے مٹی کر دیا جائے۔ کئی ایسے تھے کہ پچاس ارب ڈالر کی یہ بے پناہ سرمایہ کاری دیکھ کر اُن کے منہ سے بھی رال ٹپکنے لگی؛ چنانچہ نواز شریف اور ملک کی معاشی اڑان میں کاٹیاں ڈالی جانے لگیں۔

پانامہ کا کھیل تو محض ایک بہانہ ہی تھا۔ وہ اچھے تھے جنہوں نے اسے امریکا اور مغربیوں کا کھیل سمجھ کر ہوا میں اڑا دیا (مثال کے طور پر روسی رہنما پوٹن اور کئی عرب ممالک کے حکمران) مگر ہم نے اپنے منتخب وزیر اعظم کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ شست بھی ایسی باندھی کہ اس کی کردار کشی پر بھی کمر باندھنے سے گریز نہیں کیا جا رہا۔ یہاں تک کہ ایک بھارتی اخبار میں شایع ہونے والی نام نہاد خبر کو اُن لوگوں نے بانس پر چڑھا لیا جنہوں نے وزیر اعظم پاکستان کی تضحیک کرنا اپنا شعار اور شیوہ بنا رکھا ہے۔

ایسا کرتے ہُوئے یار لوگوں نے یہ سوچنا بھی گوارا نہ کیا کہ عین ممکن ہے کہ بھارتی اخبار نے یہ شر انگیز خبر شایع کر کے دومُونہی شرارت کی ہو کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں نہ کبھی پاکستان کی یار رہی ہیں نہ نواز شریف کی خیر خواہ۔ وہ تو پاکستان کو نیچا دکھانے اور پاکستان میں فساد برپا کرنے کے لیے ہر آن تیار رہتی ہیں۔ نواز شریف کا ٹھٹھہ اڑانے اور اُن کی تضحیک کرنے کے شوقینوں نے اس پہلو پر مگر توجہ دینے کا تکلّف ہی گوارا نہ کیا۔ یہ بھی خیال نہ کیا گیا کہ ہم اپنے منتخب وزیر اعظم کی کردار کشی اور تضحیک کر کے دراصل اپنے ملک کا بھی مذاق اڑا رہے ہیں۔ افسوس، صد افسوس!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔