پُرامن بلوچستان کیلیے لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 24 جولائی 2017
سربراہ جمہوری وطن پارٹی نوابزادہ شاہ زین بگٹی کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

سربراہ جمہوری وطن پارٹی نوابزادہ شاہ زین بگٹی کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور ملکی ترقی میںا س کا کردار اہم ہے۔

بلوچستان کی اہمیت کی وجہ سے بیرونی طاقتوں نے وہاں اپنی سازشوں کا جال بچھایا اور دہشت گردی کے ذریعے صوبے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ افواج پاکستان اور حکومت کی کاوشوں سے اب بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال ماضی کی نسبت  بہتر ہیں جبکہ سیکورٹی فورسز اسے مزید بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ گودار پورٹ کی ڈویلپمنٹ اور سی پیک منصوبے کے تحت بلوچستان میں انفراسٹرکچر و دیگر شعبوں میں بہتری آرہی ہے جس سے بلوچستان کے لوگوں کا احساس محرومی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں امن قائم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ’’بلوچستان کی صورتحال اور ملکی سیاسی منظر نامے‘‘ پر گفتگو کرنے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ ’’نوابزادہ شاہ زین بگٹی‘‘ کو مدعو کیا گیا جن سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ فورم کی تفصیلی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

نوابزادہ شاہ زین بگٹی (سربراہ جمہوری وطن پارٹی)

بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال ماضی کی نسبت بہت بہتر ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس حوالے سے کافی محنت کی تاہم گزشتہ چند دنوں سے صورتحال گھمبیر ہورہی ہے، ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں اور ایس پی پولیس مبارک شاہ و دیگر پولیس اہلکاروں کو شہید کردیا گیا لہٰذا صوبائی حکومت کو اس حوالے سے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ بلوچستان میں امن، حکومت نہیں بلکہ سیکورٹی فورسز کے اقدامات کی وجہ سے قائم ہورہا ہے۔

جنرل(ر) ناصر جنجوعہ کے دور میںجو صورتحال بہتر ہوئی اب اسی کا تسلسل ہے کہ فراری کمانڈرز ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ اس سوچ کو ختم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کے بجائے بلوچستان کے لوگوں کو بنیادی حقوق دیئے جائیں اور ان کا احساس محرومی ختم کیا جائے۔ کچھ عرصہ قبل جب کوئٹہ میں وکلاء پر دہشت گردی کا حملہ ہوا تو زخمیوں کو علاج کے لیے آرمی چیف کی ہدایت پر کراچی لے جایا گیا کیونکہ صوبائی ہیڈ کوارٹر میں سہولیات ہی موجود نہیں تھیں۔

سی پیک منصوبے کے ساتھ اگر حکومت بلوچستان میں بین الاقوامی سطح کے تین بڑے ہسپتال قائم کر دیتی تو لوگ اس اقدام کو سراہتے۔ بلوچستان کے لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہیں، وہاں صحت، تعلیم، پینے کاصاف پانی، بجلی، گیس و دیگر سہولیات میسر نہیں۔ بلوچستان کو بجٹ کا کم حصہ دیا جاتا ہے جبکہ یہاں سے پیدا ہونے والی گیس اور بجلی کا بھی جائز حق نہیں دیا جاتا۔ ہمیں صرف زمینی کرایہ وصول ہوتا ہے جبکہ گیس کی رائلٹی کی مد میں ابھی تک ایک روپیہ بھی نہیں ملا، اگر صرف ہماری 12ہزار ارب روپے کے قریب رائلٹی دے دی جائے تو بلوچستان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔

یہاں تعلیم،گیس، بجلی، صاف پانی، ملازمتیں و دیگر حقوق لوگوں کو دیئے جائیں اور اگر ایسا ہوجائے تو آزاد ملک کا مطالبہ کرنے والے اور فراریوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے لوگوںکی سوچ تبدیل ہو جائے گی اور طاقت کا استعمال بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ ہم ہمیشہ سے ہی فیڈریشن کی حمایت کرتے ہیں اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ حقوق ڈیرہ بگٹی کیلئے نہیں بلکہ پورے بلوچستان کے لیے مانگتے ہیں۔

حالیہ مردم شماری کے حوالے سے افسوسناک بات یہ ہے کہ بگٹی آئی ڈی پیز سے مردم شماری کا حق بھی چھین لیا گیا، وہ ڈیرہ بگٹی نہیں گئے اور مردم شماری ہوگئی، میرے نزدیک یہ وفاقی و صوبائی حکومت کی طرف سے زیادتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ الیکشن سے قبل مرکزی و صوبائی حکومت بگٹی آئی ڈی پیز کی آبادکاری یقینی بنائے اور ان کی مردم شماری کا شمار ڈیرہ بگٹی میں کیا جائے۔ ہر شہری کو حق ہے کہ وہ اپنا اظہار رائے استعمال کرکے اپنا امیدوار سامنے لائے لہٰذا ڈیرہ بگٹی کے لوگوں کو اس حق سے محروم نہ کیا جائے۔

ہم نے الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے آگاہ کیا ہے جنہوں نے ہمیں یہ معاملہ بہتر کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اپنے اس دور حکومت میں تین مرتبہ بگٹی ہاؤ س آئے اور انہوں نے بگٹی مہاجرین کی آباد کاری کو اولین ترجیح قرار دیا مگر ابھی تک وفاقی و صوبائی حکومت کی طرف سے پیش رفت نہیں ہوئی۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک کی حکومت کمزور تھی مگر اب صوبے اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے لیکن ابھی تک بگٹی مہاجرین کی بحالی نہیں ہوسکی اور ایسا لگتا ہے کہ میاں صاحب اپنا وعدہ بھول گئے ہیں، جب بھی مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آتی ہے میاں نواز شریف اپنے پرانے دوستوں کو بھول جاتے ہیں۔

اگر آئندہ چند ماہ میں بگٹی مہاجرین کا معاملہ حل نہ ہوا تو عدالت جائیں گے۔برما میں چند برس قبل جب قتل و غارت ہوئی تو اقوام متحدہ نے برما کے لوگوں کو مختلف ممالک میں رکھا اور عارضی ’’یو این آئی سی‘‘ جاری کیے جن سے وہ مختلف ممالک میں ملازمت کرسکتے ہیں لیکن جائیداد نہیں بنا سکتے اور نہ ہی انہیں ووٹ کا حق حاصل ہے۔ 30لاکھ افغان مہاجرین یہاں آباد ہیں جو بہت بڑی تعداد ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی طرز پر افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کے بجائے عارضی شناختی کارڈ جاری کیے جائیں تاکہ یہ انتخابا ت میں ووٹ نہ ڈال سکیں اور جن افغانیوں کو ابھی تک شناختی کارڈ جاری ہوچکے ہیں ان کے کارڈ منسوخ کیے جائیں۔ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستیں نہ ہونے کے برابر ہیں لہٰذا سیاسی حوالے سے ہمیں گوادر پر تحفظات ہیں کیونکہ اگر ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو یہاں آباد کیا جائے گا تو بلوچوں سے ان کے ووٹ کا حق چھین لیا جائے گا جو بلوچستان میں رہنے والی کسی بھی قوم کو منظور نہیں ہے۔

گوادر میں کاروبار یا روزگار کے لیے آنے والوں کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ گوادر کی ترقی میں پہلے گوادر ، دوسرے نمبر پر بلوچستان جبکہ تیسرے نمبر پر پورے ملک کے لوگوں کو ترجیح دی جائے۔ ہم نے ہمیشہ ترقیاتی منصوبوں کو خوش آمدیدکہا ہے، نواب اکبر بگٹی نے گوادر کو بلوچستان میں شامل کرایا مگر حکومت نے سی پیک کے حوالے سے ہمارے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی۔ ہم سی پیک منصوبے کے حق میں ہیں بصورت یہ کہ مقامی لوگوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

ہمارا مطالبہ  ہے کہ گوادر ایئرپورٹ کو نواب اکبر بگٹی کے نام سے منسوب کیا جائے۔ ہماری جماعت ملکی سطح پر بڑی جماعت بن کر نہیں ابھری مگر بلوچستان میں دو مرتبہ وزیراعلیٰ ، دو مرتبہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ ، سپیکر بلوچستان اسمبلی و بے شمارسینیٹر ہماری جماعت سے رہے ہیں۔ ہم نے یہ یقینی بنایا کہ ہماری جماعت کا کوئی بھی شخص کرپشن نہ کرے۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں ہم پہ بہت سارے الزامات لگے مگر کرپشن کا الزام نہیں لگا جو فخر کی بات ہے۔

جمہوری وطن پارٹی کے علاوہ پاکستان کی ہر جماعت پر درست یا غلط، کرپشن کا الزام ضرور لگا ہے۔ ہماری سیاسی دوستی ملک کی تمام بڑی جماعتوں اور سیاسی خاندانوں کے ساتھ رہی ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں پورے پاکستان سے الیکشن لڑیں گے اور اس کے لیے کسی ایک جماعت سے اتحاد نہیں بلکہ مختلف جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔ آزاد اور شفاف انتخابات ہوں تو عوام کے حقیقی نمائندے اقتدار میں آتے ہیں، آئندہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کروائے جائیں، عوام جسے بھی منتخب کریں گے ہم اسے قبول کریں گے۔

کرپشن نے اس ملک کو کھوکھلا کردیا ہے، اگر یہاں کرپشن نہ ہوتی تو آج ملک کی صورتحال مختلف ہوتی۔ ہمارے ملک میں الیکشن مہم کے دوران کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ جو لوگ اتنی بھاری رقم لگا کر آئیں گے تو ان کا فارمولا پیسہ بنانا ہی ہوتا ہے۔ میرے نزدیک سیاست کو کاروبار نہیں خدمت سمجھ کر کرنا چاہیے ۔ اس کے علاوہ خود کی ذات کو مضبوط اور بیرون ملک اثاثے نہیں بنانے چاہئیں۔ میرے نزدیک کرپٹ لوگوں کوکم از کم 25سال کی قید ہونی چاہیے۔ ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے ،ان کے دیگر اثاثے بھی قبضے میں لے لیے جائیں اور ان کے پورے خاندان پر سیاست اور سرکاری ملازمت کرنے پر پابندی لگا دی جائے۔

اگر یہ فارمولا بنا لیا جائے تو پھر کوئی بھی کرپشن نہیں کرے گا چاہیے وہ کسی سرکاری ادارے میں چپراسی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم وزیراعظم کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ہم کہتے ہیں کہ جس پر بھی کرپشن ثابت ہوجائے اسے سزا دی جائے۔ وزیراعظم سے اخلاقی بنیادوں پر استعفے کا مطالبہ کیا گیا، میں کہتا ہوں کہ کرپشن کے الزام پر ان سے مطالبہ کرنے والوں کو ایک نظر خود پر بھی ڈالنی چاہیے۔ اگر وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ ان پر لگائے جانے والے الزامات میں سچائی ہے تو انہیںاخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دے دینا چاہیے لیکن اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف الزام ہے تو پھر انہیں عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔