کچھ تو خیال کیجئے!

رمضان رفیق  منگل 25 جولائی 2017
عمومی طور پر یورپ میں ایسی لاتعداد سیلز کالز کا رجحان نہیں ہے اِس لئے اتنی زیادہ کالز کا آنا کچھ معیوب لگتا ہے۔ فوٹو: فائل

عمومی طور پر یورپ میں ایسی لاتعداد سیلز کالز کا رجحان نہیں ہے اِس لئے اتنی زیادہ کالز کا آنا کچھ معیوب لگتا ہے۔ فوٹو: فائل

کل شام مغرب سے پہلے یعنی یہاں ساڑھے 9 کا وقت تھا کہ ایک فون آیا۔ سورس پرائیویٹ نمبر لکھا آرہا تھا، عمومی طور پر سیلز کال ملانے والے افراد پرائیویٹ نمبروں سے کال کرتے ہیں، لیکن یہاں (ڈینمارک) میں دفتر ٹائم تو شام پانچ بجے ختم ہوجاتے ہیں اور عام طور پر اُس کے بعد کسی بھی ایسے فون آنے کا احتمال نہیں ہوتا۔ خیر میں نے فون اٹھایا تو ایک نسوانی آواز آئی جس میں سلام کرنے کے بعد خیریت پوچھی گئی۔ میرے حال بتانے سے پہلے ہی انہوں نے بتایا کہ وہ کسی قرآن اکیڈمی کی طرف سے فون کررہی ہیں اور میرے بچوں کو قرآن مجید پڑھانا چاہتی ہیں، میں نے ظالمانہ طریقے سے جھٹ فون بند کردیا۔

ایسا ہی ایک فون آج صبح آیا، لیکن مجھے کیونکہ بینک کی طرف سے ایک فون کا انتظار تھا اور بسا اوقات مخلتف ادارے بھی پرائیویٹ نمبر سے کال کرتے ہیں اِس لیے فون اٹھالیا۔ لیکن اِس بار بھی کوئی محترمہ تھیں، جنہوں نے اسلام و علیکم کے بعد انگریزی میں کہا ’ہاؤ آر یو‘ برادر(?How are you Brother) اور میں نے فون ہی بند کردیا۔

پہلے تو اِس ظالمانہ طریقے پر فون بند کرنے پر شرمندگی محسوس کی کہ ایک اللہ کی بندی قرآن پڑھنے کی دعوت دی رہی ہے اور میں نے اُس کا فون بند کردیا، لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ،

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ایسے فون بہت سے برسوں سے آرہے ہیں اور میں ہمیشہ اچھے طریقے سے ہی بات کرتا آیا ہوں۔ شروع کے درجنوں فونز میں جب انہیں کہتا کہ میں یہاں اکیلا ہوں، میرے بچے نہیں ہیں تو سیلزمین صاحب یا صاحبہ سلام کرتے اور فون رکھ دیتے۔ پھر اُس کے بعد ایسا ہونے لگا کہ صاحبان کے فون آنے تو بند ہوگئے اور نسوانی فون ہی آنے لگے اور اِن کالز میں گزارش ہوتی کہ اگر آپ کے بچے نہیں ہیں تو کسی دوست کے بچے تو ہوں گے، یا پھر پچھلے دنوں ایک خاتون نے اصرار شروع کردیا کہ آپ ہی دوبارہ سے قرآن پڑھ لیں، جس پر میں نے مزاح میں کہا کہ میرا دل تو ہے کسی حافظ قرآن سے گھر بسایا جائے۔ میرا خیال تھا کہ اِس جواب پر وہ غصہ ہونگی لیکن انہوں نے جواب دیا کہ اِس حوالے سے آپ ہمارے مہتمم سے بات کریں، ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کی مدد کرسکیں۔ یوں انہوں نے رابطہ قائم کرنے کا نیا دروازہ کھولا تھا لیکن ہم نے پھر بھی فون بند کردیا۔

میرے اردگرد بہت سے دوستوں کو ایسے فون آتے ہیں جن کا مدعا آن لائن قرآن مجید پڑھانا ہے، مجھے ذاتی طور پر اِس طرح کی سیلز کالز پر بہت زیادہ اعتراض نہیں، لیکن عمومی طور پر یورپ میں ایسی لاتعداد سیلز کالز کا رجحان نہیں ہے اِس لئے اتنی زیادہ کالز کا آنا کچھ معیوب لگتا ہے۔ پھر آپ غور کیجئے کہ جب یہاں شام کے ساڑھے نو بجے ہیں تو پاکستان میں رات کے ساڑھے 12 بج رہے ہوں گے، کون ظالم ہے جو رات کے ساڑھے 12 بجے سیلز کالز کرتا پھر رہا ہے؟ میری مراد ہے اگر کسی نے کال کرنی ہے تو اِس علاقے کے لوگوں کے ورکنگ آورز یا دن کے اوقات کو سامنے رکھ کر فون کیا جائے نہ کہ منہ اُٹھا کر جب رات کے کسی پہر آپ کے پاس فرصت ہو تو کہیں سے چوری شدہ ٹیلی فون نمبر پر درس قرآن کی سیل کال ملا دی جائے۔

مجھے یقین ہے کہ اِن اداروں نے ہم جیسے لوگوں کے نمبر انٹرنیٹ سے کسی نہ کسی انداز میں چرائے ہی ہوں گے، اور اِس طرح کسی دو نمبری کے ذریعے حاصل کئے گئے نمبر پر کال کرکے اُن کے دین کی دعوت دینے کے بارے علماء کیا رائے رکھتے ہیں مجھے معلوم نہیں۔

اب اُن افراد کی سنیے جن کے بچے آن لائن قرآن مجید پڑھ رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کی بیٹی پڑھ رہی ہیں، اُن کی اُستانی صاحبہ اُن کی سہیلی کی طرح ہیں، اُن کو اردو سکھاتی ہیں، دن بھر کے معاملات پر بات کرتی ہیں اور گھر والے سارے بڑے خوش ہیں۔ کچھ احباب کا کہنا ہے کہ حافظ صاحب اپنے ٹائم کی پابندی نہیں کرتے اور کچھ نہ کچھ وقت اوپر نیچے ہوتا ہی رہتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اِسی طرح درس قرآن والے صاحب بچوں کے ذریعے سارے گھریلو حالات جان کر گھر والوں کو بلیک میل کرتے بھی پائے گئے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ ماہانہ ہدیہ مقابلے کی فضا کی وجہ سے بہت کم ہوگیا ہے، یہاں آدھے گھنٹے ماہانہ پڑھانے کا ہدیہ پاکستانی ایک ہزار روپے تک چلا آیا ہے۔

ایک دوسرے سے مقابلے کے رجحان کی وجہ سے ہی شاید سیلز کالز کا رجحان بڑھ گیا ہے، ہوسکتا ہے جن کے بچے ہوں وہ بھاؤ تاؤ بھی کرتے ہوں کہ فلاں کے بچے تو اتنے میں پڑھتے ہیں اور مجھے اتنے کیوں کہے جارہے ہیں؟ اکثر اوقات یہ نمبر پرائیویٹ ہوتے ہیں اِس لئے اُن کو بلاک کرنے کی بھی سہولت نہیں ہوتی، ایسی چند پروفائلز فیس بک اور اسکائپ پر بھی نظر آتی ہیں جو قرآن مجید کی تعلیم دینا چاہتے ہیں۔

میرے ذاتی خیال میں آن لائن قرآن پڑھانے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اِس کی مارکیٹنگ ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔ کیا قرآن مجید کی تعلیم اور درس کی مارکیٹنگ کا طریقہ کار ایسا ہی ہونا چاہئیے کہ خواتین کو سیلز کالز پر لگادیا جائے؟ کیا انٹرنیٹ پر شائستہ مارکیٹنگ کا کوئی اور طریقہ اختیار نہیں کیا جاسکتا؟ جیسے فیس بک ایڈورٹائز یا ایڈ ورڈ ایڈورٹائز؟ ساتھ ہی بے وقت پاکستانی انداز میں کال کرکے پریشان کرنے کے بارے میں اگر یہ خواتین و حضرات اور اُن کے دینی ادارے کچھ سوچیں تو بہت مناسب ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے  مختصر  مگر جامع  تعارف  کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔

رمضان رفیق

رمضان رفیق

رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ آپ ان کے بلاگ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ www.ramzanrafique.com

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔