احتساب، مہذب معاشرہ اور پاکستان

کاشف احمد مہار  منگل 25 جولائی 2017
وہ معاشرہ جس کا وطیرہ ناانصافی، تفریق و امتیاز اور استحصال ہو، جہاں امیر اور غریب کے طرزِ زندگی میں موافقت نہ ہو، وہاں بالآخر مفلس اور غریب لوگ ناانصافی اور استحصال کی سب زنجیروں کو توڑ دیتے ہیں۔

وہ معاشرہ جس کا وطیرہ ناانصافی، تفریق و امتیاز اور استحصال ہو، جہاں امیر اور غریب کے طرزِ زندگی میں موافقت نہ ہو، وہاں بالآخر مفلس اور غریب لوگ ناانصافی اور استحصال کی سب زنجیروں کو توڑ دیتے ہیں۔

احتساب صرف تحقیق و تفتیش کا نام نہیں بلکہ احتساب ایک ایسا طرزِ عمل ہے جس پر گامزن ہوکر ایک بے ترتیب معاشرہ ایک قوم کی شکل اختیار کرتا ہے اور ایک مہذب معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ احتساب کا عمل ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ عمل اُسی وقت کارگر ہوسکتا ہے جب اِس کا اطلاق بغیر کسی امتیاز اور تفریق کے ممکن ہو۔ احتساب اور انصاف کا بہت گہرا تعلق ہے، کیونکہ انصاف کے بغیر احتساب، استحصال کہلاتا ہے۔

پاکستان میں احتساب کی مثال اُس بچے کی مانند ہے جس کی ٹانگیں اور بازو پیدائشی طور پر کمزور ہوں۔ پاکستان میں احتساب ہوتا ہے لیکن غریبوں کا، بے کسوں کا، بے آسرا اور بے سہارا لوگوں کا، لیکن یہاں جاگیرداروں، امیروں اور طاقتور لوگوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ یہاں احتساب ہوتا ہے اُن لوگوں کا جو رشوت ستانی اور سیاسی اثر و رسوخ سے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو غلط ثابت نہیں کرسکتے۔ نیز وہ لوگ جو اپنے جائز حقوق کے حصول کے لئے زمانے کے فرعونوں سے ٹکراتے ہیں، اُن کا قلع قمع کرنے کے لئے احتساب کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ہر قسم کی بے راہ روی سے اِس معاشرے کی اقدار کو پامال کرتے ہیں اور پھر بھی ہر قسم کے احتساب سے بری الزمہ ہیں، کیونکہ اُن کے وسائل کی طاقت احتساب کی بساط سے بالاتر ہوتی ہے۔

اِس کی بنیادی وجہ احتساب کے اداروں کی پیدائشی کمزوری ہے۔ جہاں تک اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کا تعلق ہے تو صاحب! حکمران تو اِس پاک مٹی سے وجود میں آتے ہیں جس کی سرشت میں خلقِ خدا کی خدمت ودیت کی گئی ہے۔ وہ اِس استحصال کے معاشرے میں پروان ضرور چڑھتے ہیں لیکن اِس کی بے اعتدالیاں اُن کے اوصاف حمیدانہ پر بالکل اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔ اب کوئی صاحبِ دانش ہی بتائے کیا ایسے پوتر لوگوں کے احتساب کا کوئی جواز باقی رہتا ہے؟ کیا کوئی اُن کا احتساب کرسکتا ہے؟

ہم اکثر سُنا کرتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن ایک نظرِ عمیق ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون اندھا نہیں ہوتا بلکہ قانون کی تو چار آنکھیں ہیں۔ وہ فیصلہ صادر فرماتے ہوئے دیکھتا ہے کہ ملزم غریب و بے کس ہے یا طاقتور؟ اب اِس طرح کا قانون کس کا احتساب کرتا ہے اور کس کا استحصال کرتا ہے یہ مسئلہ لاینحل ہے۔ ہاں یہ بات واضح اور غیر مبہم ہے کہ جن معاشروں میں اس طرح قانون کی عملداری ہو وہاں انصاف کی فراہمی مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتی ہے اور جو معاشرہ انصاف ترک کردیتا ہے معاشرہ اُسے معاف نہیں کرتا۔

وہ معاشرہ جس کا وطیرہ ناانصافی، تفریق و امتیاز اور استحصال ہو، جہاں امیر اور غریب کے طرزِ زندگی میں موافقت نہ ہو۔ جس میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا چلا جائے، بالآخر اُس معاشرے کے مفلس اور غریب لوگ ناانصافی اور استحصال کی سب زنجیروں کو توڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنی گردنوں سے طاقتوروں کے پہنائے ہوئے طوق اتار دیتے ہیں۔ تب اِن مفلس اور نادار لوگوں سے جو ٹکراتا ہے وہ پاش پاش ہوجاتا ہے۔ بالآخر اِنہی غریب لوگوں کے خون کی آبیاری سے گلشن میں بہار آتی ہے، بقول احمد فراز

اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے

اِنہی مفلس لوگوں کی قربانیوں سے معاشرے میں نئی اقدار کا وجود ظہور پذیر ہوتا ہے۔ تب انصاف، برابری اور قانون کی پاسداری معاشرے کے ہر فرد کی زینت بن جاتی ہے۔ اِن اعلیٰ اقدار پر ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔

اِس نئے معاشرے کی تخلیق گویا ایک نئے زمانے کی نوید سناتی ہے اور جس طرح پانی بہتا ہے تو خود بخود صاف ہوتا چلا جاتا ہے، اِسی طرح جب اِن نوزائیدہ مگر اعلیٰ و ارفع اقدار پر لوگ عمل کرتے ہیں تو وہ اقدار معاشرے کی گندگی کو دور کرکے اُسے مصفا پانی کی طرح کردیتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ اقدار اِس معاشرے کے رگ و ریشہ میں پیوست ہوجاتی ہیں۔

گویا کہ اب وہی اقدار جن کے حصول کے لئے جنگ کی گئی ہر قسم کے خطرات سے معاشرے کی حفاظت کی ضامن ہوجاتی ہیں۔ تب وہ معاشرہ ایک مہذب معاشرے کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ چاہے اِس معاشرے کے افراد کا تعلق کسی بھی قبیلے، رنگ، نسل یا مذہب سے ہو ہر قوم، مذہب اور معاشرہ کے لوگ اِس مہذب معاشرے کی اقدار کو نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ اُسے بطور نمونہ خیال کرتے ہیں۔ بلاشبہ اِس نئے زمانے اور نئے تمدن کے متحرک جمہور ہی ہیں، بقول جون ایلیا

تم اپنے سرکار سے یہ کہنا، نظام زر کے وظیفہ خوارو
نظام کہنہ کی ہڈیوں کے مجاورو اور فروش کارو
تمہاری خواہش کے بر خلاف اک نیا تمدن طلوع ہوگا
نیا فسانہ نیا ترانہ نیا زمانہ شروع ہوگا
جمود و جنبش کی رزم گاہوں میں ساعت جنگ آچکی ہے
سماج کے استخواں فروشوں سے زندگی تنگ آچکی ہے
تمہارے سرکار کہہ رہے تھے یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں
یہ لوگ جمہور کی صدا ہیں یہ لوگ دنیا کے راہ نما ہیں
یہ لوگ پاگل نہیں ہوئے!

پاکستان کے 20 کروڑ عوام آج پھر قانون کے ایک فیصلے کے منتظر ہیں۔ ہر کس و ناکس پاکستان کے شاندار مستقبل کا خواہاں ہے مگر کیا پاکستان تاریخ کے اِس دہانے پر پہنچ چکا ہے جہاں احتساب کا منصفانہ اور شفاف عمل اِس مملکت خداداد کی تقدیر کے لئے کارگر ثابت ہوگا؟ کب انصاف برابری کی بنیادی خصوصیت کا حامل ہوگا؟ کیا پاکستان میں اِن اصولوں پر مبنی ایک نیا زمانہ شروع ہوگا؟ آنے والے دن یقینی طور پر پاکستان کی سمت کا تعین کریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے  مختصر  مگر جامع  تعارف  کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔

کاشف احمد مہار

کاشف احمد مہار

بلاگر نے قائد اعظم یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ مختلف رسائل اور اخبارات میں حالات حاضرہ پر لکھتے ہو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔