ڈٹ جائیں، مقابلہ کریں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 26 جولائی 2017

کہتے ہیں کہ مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی ہے جب بھی آتی ہے تو اپنے ساتھ اپنے بچے لے کر آتی ہے اور پھر اس وقت تک واپس نہیں جاتی جب تک کہ اس کے بچے جوان نہ ہو جائیں۔ مصیبت اس بیوہ کی طرح ہوتی ہے جسے اس کے سسرال والے شوہر کے مرتے ہی بچوں سمیت گھر سے نکال باہر کر دیتے ہیں اور پھر وہ چھت کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہوتی ہے اور جیسے ہی اسے کوئی چھت میسر آ جاتی ہے تو وہ پھر اس جگہ اپنے بچوں سمیت اس طرح آ دھمکتی ہے کہ پھر اسے نکالنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی لیے بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ ہمیشہ مصیبت اور بیوہ سے بچتے رہنا لیکن کیا کریں یہ ہی زندگی کی اہم ترین نصیحت ہمارے حکمران اپنے بڑے بوڑھوں سے سننے سے قاصر اور محروم رہے۔

اسی لیے اب ان کی حالت وہ ہی ہوگئی ہے جوگوئٹے کے ناول ’’فاؤسٹ‘‘ میں چانسلر اپنے بادشاہ کو رپورٹ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ ’’ہر طرف دکھ ہیں، مصائب ہیں، ایک برائی جاتی ہے تو دوسری آ جاتی ہے‘‘ چاروں طرف اندھیری رات طاری ہو گئی ہے تمام بڑے ایوانوں میں مصیبت کے بچے اچھلتے کودتے پھر رہے ہیں کوئی راستہ نہ تو سجھائی دے رہا ہے اور نہ ہی دکھائی دے رہا ہے اب وہ عقل، سمجھداری، دانش مندی اور دوراندیشی کو ڈھونڈ رہے ہیں لیکن وہ ہیں کہ مل ہی نہیں پا رہی ہیں کہیں جا کر ایسی چھپی ہیں کہ بڑے بڑے جاسوس عامل، نجومی ان کی تلاش میں سر ٹکراتے پھر رہے ہیں۔ کئی نامور جاسوس، عامل اور نجومی تو مایوس ہو کر چھپ کر دوسرے ممالک میں جا بسے ہیں اور جو باقی حکمرانوں کے ہتھے لگ گئے ہیں۔

ان کا حال نہ پوچھیں تو بہتر ہے انھیں نہ تو سونے دیا جا رہا ہے اور نہ ہی انھوں نے کئی روز سے کچھ کھایا پیا ہے بس انھیں بار بار یہ ہی کہا جا رہا ہے کہ جب تک تم عقل، سمجھ داری، دانش مندی، دور اندیشی اور اس صورتحال سے باعزت نکلنے کا راستے کو ڈھونڈ نہیں نکالو گے تو تمہیں نہ تو سونے دیا جائے گا اور نہ ہی تم کچھ کھا پی سکتے ہو، ہائے بیچارے اب تو وہ سوکھ کر بالکل کانٹے کی طرح ہو گئے ہیں اور باربار اپنے عامل اور نجومی ہونے پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ ذہن میں رہے ہمارے حکمران اس حال پر صرف اپنے اعمال، کارناموں، فیصلوں، حرکتوں کی بنا پر نہیں پہنچے ہیں ساتھ ساتھ ان کے مشیروں نے بھی اس حال پر پہنچانے میں حسب توفیق اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔

آپ میں سے اکثر نے اگاتھا کرسٹی کاناول ’’مرڈر ان دی اورینٹ ایکسپریس‘‘ ضرور پڑھا ہو گا، اس ناول پر فلم بھی بن چکی ہے۔ کہانی کے مطابق اس ٹرین میں قتل ہو جاتا ہے۔ اس ٹرین میں ایک سراغ رساں بھی موجود ہے جب وہ قتل کی تفتیش کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا کہ جس ڈبے میں ایک مسافر کا قتل ہوتا ہے اس ڈبے کے ہر مسافر نے اس قتل میں حصہ لیا ہوتا ہے۔

یہ ناول اس لیے یاد آیا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ بھی یہ ہی سب کچھ ہوا ہے۔ اسی لیے حکمرانوں کے مشیر اس ساری صورتحال پر خو شی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں کیونکہ انھوں نے بڑی محنت، لگن، پسینہ بہا کر حکمرانوں کو اس حال پر پہنچایا ہے۔

ظاہر ہے جیسے مشیر ہونگے ویسے ہی مشورے ہونگے اور پھر ویسی ہی صورتحال پیدا ہو گی۔ اس لیے ان مشیروں کا خوش ہونا حق بجانب ہے یہ تو حقیقت ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی عقل و سمجھ اور دانش مندی کی کسی بات پر کان نہیں دھرا اب ان کے لیے تازہ مشورہ یہ ہے کہ و ہ اپنے مشیروں اور اتحادیوں کے اس مشورے پر کہ ’’ ڈٹ جائیں مقابلہ کریں‘‘ پر ہرگز ہرگز کان نہ دھریں کیونکہ ان کو یہ مشورہ دینے والے خود محفوظ جگہوں کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ راتوں کو ان کی گاڑیاں ’’معلوم‘‘ جگہوں پر جاتی دیکھی جا رہی ہیں۔

یاد رہے انسان انتہائی خود غرض واقع ہوا ہے اور وہ کبھی ڈوبنے والے کے ساتھ نہیں ڈوبتا ہے، بس ’’موقع‘‘ کی تاک میں رہتا ہے اور جیسے ہی اسے وہ ’’موقع ‘‘ ہاتھ چڑھ جاتا ہے وہ ڈوبنے والے کو چھوڑ کر خودکنارے کی سمت جا نکلتا ہے اور’’آپ‘‘ تو ان تجربات سے پہلے بھی گزر چکے ہیں۔ سمجھ داری انسان اپنے تجربے سے سیکھتا ہے لیکن اگر اس نے ناسیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے تو پھر اس کا حال اس آدمی کی طرح ہوجاتا ہے جو سفر کر رہا تھا پھر ایک چوراہے پر پہنچا۔ اس نے وہاں سے گزرتے ہوئے ایک بوڑھے راہ گیر سے پوچھا یہ سامنے والی سڑک کہاں جا رہی ہے۔

بوڑھے نے پوچھا تم نے کہاں جانا ہے، اس آدمی نے کہا کہیں نہیں اس پر بوڑھا بولا تو پھر کوئی بھی سڑک لے لو اس سے کیا فرق پڑے گا، اگر تم اپنی کار کی بریکیں لگا کر اسے ڈرائیوکرنے کی کوشش کروگے تو کیا ہو گا؟ ہو گا یہ کہ تم تیز رفتاری سے ڈرائیو نہیں کر سکو گے کیونکہ بریکیں رفتار تیز ہونے میں رکاوٹ ڈالیں گی، اس طرح تمہاری کار کا انجن گرم ہو جائے گا اور کار خراب ہو جائے گی اگرکار خراب نہ بھی ہوئی تو بریکیں لگا کر کار ڈرائیو کرنے کے نتیجے میں انجن پر دباؤ ضرور پڑے گا۔

یہ مثال زندگی پر صادق آتی ہے ہم میں سے بہت سے لوگ زندگی کی راہ پر یوں سفر کرتے ہیں کہ ’’لالچ کی بریکیں‘‘ لگائے رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کچھ دنوں بعد زندگی کا انجن گرم ہو جاتا ہے اور پھر خراب ہو جاتا ہے اور آپ کبھی بھی منزل پر نہیں پہنچ پاتے ہیں اور پھر ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں پر پہنچنے کا آپ نے کبھی خیال بھی نہیں کیا ہوتا ہے اور ساتھ ہی آپ کا حال درج ذیل آدمی کی طرح ہو جاتا ہے۔

ایک شخص نے گھوڑا خریدا اور اس کے اصطبل پر لکھوا دیا ’’دنیاکا سب سے تیز رفتار گھوڑا‘‘ جب اس نے گھوڑے کو گھڑ دوڑ میں دوڑایا تو وہ سب سے آخری نمبر پر آیا۔ اب اس شخص نے عبارت یوں لکھوائی ’’دنیا گھوڑے سے تیز رفتار ہے‘‘ یاد رکھیں دنیا بہت تیز رفتار ہے اس لیے آپ کی کوئی چلاکی، جعلسازی، جھوٹ آپ کے کبھی بھی کچھ کام نہ آتا ہے بلکہ الٹا آپ کے لیے تباہی اور بربادی لے آتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔