کیا چل رہا ہے آج کل ؟

سعد اللہ جان برق  جمعرات 27 جولائی 2017
barq@email.com

[email protected]

کافی عرصے سے پڑوسی ملک کے چینلوں پر ایک پرفیوم کے زبردست اشتہار آرہے ہیں اس کا نام کچھ اور ہے لیکن آپ دھرنا یا پاناما سمجھ لیجیے ۔ مختلف مقامات پر مختلف لوگ آپس میں ملتے ہیں تو ۔ایک پوچھتا ہے

کیا چل رہا ہے آج کل
آج کل تو پاناما ہی چل رہا ہے

حتیٰ کہ دونوں ملکوں کے عوام میں سے کوئی ایک دوسرے کو ملتا ہے تو ایک دوسرے کو کوئی مشروب دیتا ہے تو بات چیت بھی ہونے لگتی ہے

بھئی آج کل کیا چل رہا ہے
آج کل بھارت میں تو پاناما ہی چل رہا ہے

گاڑیوں کے ڈرائیور بھی سٹرک پر گاڑی سے سر نکال کر۔

کیا چل رہا ہے آج کل
آج کل تو پاناما ہی چل رہا ہے

سہیلی دوسری سہیلی سے شاپنگ مال میں ملتی ہے تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ کیا چل رہا ہے ۔گاہک دکاندار سے سودا خریدتا ہے تو دکاندار چیزیں نکالتے ہوئے پوچھتا ہے کیو ں جناب کیا چل رہا ہے آج کل ۔ گاہک سودا لیتے ہوئے آج کل تو پاناما ہی چل رہا ہے ۔
رکشے والا اور سواری کے درمیان بھی یہی مکالمہ ہو رہا ہے ۔رکشے والا صاحب کیا چل رہا ہے سواری پاناما ہی چل رہا ہے۔

اب ہمارے ہاںکوئی ایسی اور چیز تو ہے نہیں لے دے کر ایک ملک ہے دوسرے لیڈر ہیں تیسرے وہ کہ ہر چندکہیں کہ ہے نہیںکہ ہے۔اور ان سب کے لبوں پر بھی وہی ہے جو بھارت والوں کا اس پرفیوم کے سلسلے میں ہے

بھئی کیا چل رہا ہے
آج کل تو پاناما ہی چل رہا ہے

اس کا اندازہ ہمیں یوں ہوا کہ ہم نے فون پر اس کی بیماری کا سن کر عیادت کرنا چاہی تو ہیلو کے بعد اور السلام علیکم سے بھی پہلے بولے ۔ ہا ں بھئی کیا چل رہا ہے آج کل چونکہ ہم ابھی پاناما زدگان یا متاثرین پاناما میں سے نہیں ہوئے تھے اس لیے جواب کو کک مارکر اس کے کورٹ میں پہنچا دیا بھئی تم اپنی صحت کے بارے میں بتاؤ ۔ سنا ہے تمہارا سر کانوں کے درمیان میں پھنس گیا۔ بولا وہ خیر چھوڑو ۔ چل کیا رہا ہے ہم نے عرض کیا گرمی چل رہی ہے روز ے چل رہے ہیں لوڈشیڈنگ چل رہی ہے کرپشن چل رہی ہے تبدیلی چل رہی ہے ؟بولا وہ تو چلتے رہتے ہیں آج کل کیا چل رہا ہے۔

\زچ ہوکر عرض کیا اگر ہم نے فون نہیں رکھا تو شاید ہمارا دماغ بھی چل جائے۔ ادھر سے وہ بڑی مسرت آمیز آواز میں بولا، میرا مطلب ہے کہ آج کل پاناما ہی چل رہا ہے۔ غصہ تو بہت آیا خدا کے بندے جب تمہیں پتہ ہی تھا کہ کیا چل رہا ہے تو خواہ مخوا ہمارا دماغ چلانے پر کیوں تلے ہوئے ہو ؟یہ جانکاری کے باوجود جانکاری کرنے کا کام ہمارے ایک بزرگ بھی کیا کرتے تھے، ان کا صرف ایک بیٹا تھا جو بہت ہی لاڈلا اور پسندیدہ تھا،وہ کہیں ملتے تو پوچھتے؟اقبال کو تو نہیں دیکھا ہے ہم کہتے نہیں چچا ہم نے تو نہیں دیکھا ہے ۔بڑی پیاری سی ہنسی ہنس کر کہتا ، گھر میں ہے۔

اس پر ہمیں غصہ آجانا لازم تھا کہ جب تمہیں معلوم ہے کہ گھر میں ہے تو ہم سے کیوں پوچھ رہے ہو اور یہ معاملہ ہمارے ساتھ ان کا نہیں بلکہ جو بھی ملتا اس کا پہلا سوال یہی ہوتا ۔ کہ اقبال کو کہیں دیکھا ہے ۔ہمیں اس پانامے کے سلسلے میں بھی کچھ اس قسم کے نفسیاتی مرض کا شبہ ہو رہا ہے، کیا چل رہا ہے بھئی ۔ بس جناب پاناما ہی چل رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں چلنے والی تمام چیزیں ایک دم رک گئی ہوں۔ آدمی، سائیکل، گدھے، گھوڑے، گاڑیاں، ریل، جہاز حتیٰ کہ ہوا اور پانی بھی رک کر پاناما کو راستہ دے رہے ہیں تو لنگ جا ساڈی خیر اے۔ حتیٰ کہ چھیڑ خوباں سے اور جوتے آپس میں بھی نہیں چل رہے ہیں صرف پاناما چل رہا ہے۔ گھروں میں، دفتروں، میں، شہروں میں، بازاروں میں حتیٰ کہ دیہات اور کھیتوں میں بھی بیل اور کیئر ٹریکٹر رک کر پاناما کو چلنے دے رہے ہیں۔ ہم کسی کو بُرا تو نہیں کہیں گے، چاہے وہ عمران ہو نواز شریف ہو یا کوئی بھی لیڈر، فرض کر لیجیے کہ سارے ایک ہی جیسے ہیں لیکن بقول فراق گورکھ پوری ؎

منہ سے ہم اپنے بُرا تو نہیں کہتے کہ فراق
ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں

لیکن کہیں کہیں دبی دبی آوازیں ایسی بھی آرہی ہیں کہ شاید اس میں بھی وہی کم بخت مارا بیرونی ہاتھ ملوث نہ ہو جو ہمارے ہر معاملے میں کبھی ٹانگ اڑانے سے باز نہیں آتا حالانکہ خود ہاتھ ہے ۔کیونکہ حاصل اس ہنگامے کا کچھ بھی نہیں ہوگا، وہی کھودا پہاڑ والی بات ہوگی البتہ لگ بھگ ڈیڑھ سال تک سارے ملک کو ’’بخار ‘‘ میں مبتلا رکنے سے بیرونی ہاتھ کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔ کتنے سرکاری اہل کار جج صاحبان اور مختلف محکموں کا کام اسی ایک محور کے گرد گھوم رہے ہیں جب کہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پانی بلونے سے کچھ بھی نہیں نکل سکتا۔

اس معاملے میں چشم گل چشم عرف خداوندی کے پاس بڑا زبردست کلیہ ہے اس کا کہنا ہے بلکہ روزمرہ بول چال بھی وہ ’’نوٹوں ‘‘ کو ’’پر ‘‘ کہتا ہے اور جس کے پاس ’’پر ‘‘ ہوتے ہیں اسے اڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا کتنے جال کتنے دام ہے انٹی کرپشن احتساب،ایف آئی اے، سی جی آئی حتیٰ کہ آئی آئی بھی آئے یا آئیں ۔ لیکن اس پرندے کو جو آج تک کوئی نہیں پکڑ سکا جس کا نام کرپشن ہے کیونکہ اس کے پاس ’’ پر ‘‘ ہیں بلکہ سر، پر، پاؤں تینوں ہیں، اڑنے والوں کو کہاں روک سکتا ہے۔ کوئی پرانی کہانیوں میں صرف ’’سرخاب‘‘ کے ’’پر ‘‘ مشہور تھے جب کہ آج کل سرخاب ، نیلاب ،زرداب ، سبزاب حتیٰ کہ پنجاب تک کے ’’پر ‘‘ پائے جاتے ہیں اور پھر

چل اڑ جا رے پنچھی رے
کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
کا آتش تو کہیں گیا نہیں ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔