یہ جو ایک ملک ہے

مقتدا منصور  جمعرات 27 جولائی 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ریاست ہائے متحدہ امریکا، ایک ایسی عالمی قوت جس پر دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک یا شہری ہو، جو لعن طعن نہ کرتا ہو۔ اس کی پالیسیوں پر نفرین نہ کی جاتی ہو، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر ملک کے شہری یہاں آنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کے لیے تن، من، دھن کی بازی لگانے کو آمادہ رہتے ہیں۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو، جہاں اس کے سفارت خانے پر ویزا حاصل کرنے والوں کا اژدھام نہ ہوتا ہو۔ اس کے علاوہ یہ دنیا کا وہ سب سے بڑا ملک ہے، جہاں اصل مقامی باشندے (سرخ ہندی)آج بھی جنوب کی ریاستوں میں انتہائی پسماندہ زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، جب کہ اکثریتی آبادی یورپ سے آئے تارک الوطن افراد پر مشتمل ہے، پھر دنیا بھر سے آئے افراد بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اس پوری صورتحال کو سمجھنے کے لیے اس کی تاریخ اور سیاسی، معاشی و انتظامی ڈھانچے کا اجمالی جائزہ لینا ضروری ہے۔

یہ خطہ دنیا کے سامنے 1492 میں اس وقت آشکار ہوا، جب کرسٹوفرکولمبس کی بادبانی کشتیاں یہاں لنگر انداز ہوئیں۔گویا اس خطے کی معلوم تاریخ کوئی پانچ سو برس پر محیط ہے۔ کولمبس اس سرزمین کو ہندوستان سمجھ بیٹھا۔ جس کی وجہ سے یہاں ہزاروں برسوں سے آباد انسانوں کو جن کی رنگت سرخی مائل تھی، انھیں سرخ ہندی (Red Indians) قرار دیدیا، جو آج تک مستعمل ہے۔

سولہویں صدی میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جب یورپی ممالک نے دنیا بھر میں اپنی نوآبادیات قائم کرناشروع  کیں، تو یہ وسیع وعریض علاقہ ان کے لیے سونے کی چڑیا ثابت ہوا۔ برطانیہ، فرانس، اسپین، اٹلی اور پرتگال نے مختلف علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ ان ممالک سے عوام کے قافلے جوق در جوق یہاں آکر آباد ہونے لگے۔ان  کے درمیان جنگیں بھی ہوئی اور معاہدے بھی۔ بالآخر شمال کا خطہ مکمل طور پر برطانیہ کے تسلط میں آگیا ، جب کہ وسطی اور جنوبی علاقوں میں اسپین، پرتگال، اٹلی اور فرانس کی کالونیاں قائم ہوئیں۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا کا رقبہ تقریباً98 لاکھ مربع کلومیٹر(یعنی بھارت کے رقبے سے تین گنا)۔جب کہ 2016کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی32کروڑ 40 لاکھ ہے (جو بھارت کی آبادی کا ایک تہائی ہے)۔ یہ 50ریاستوں، 5 خودمختار خطوں اور ایک وفاقی ضلع پر مشتمل ہے۔ یہ ملک ابتدا میں برطانیہ کی کالونی تھا۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ یورپ سے آئے مہاجرین (Immigrants) نے اپنی ہی ایک سابقہ حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ جس کے نتیجے میں 1775 میں جنگ شروع ہوگئی، جو 8 برس جاری رہی۔اس دوران 4جولائی 1776 کو13 ریاستوں کی مجلس نے آزادی کا اعلان کیا، جو بعد از جنگ ملک کی تشکیل کا باعث بنا۔1783میں بالآخر برطانیہ نے گھٹنے ٹیک دیے اوریونین کے حق خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں آزاد کردیا۔

یونین کی کانگریس میں 1787میں آئین کا مسودہ پیش کیا گیا۔ جسے سال بھرکی بحث و تمحیص کے بعد 1788 میں منظورکرلیاگیا اور 4مارچ 1789سے نافذالعمل ہوا۔ آئین کی رو سے ریاست ہائے متحدہ ایک وفاقی جمہوریہ ہے۔جس کی پارلیمان دو ایوانی یعنی ایوان زرین (کانگریس) اور ایوان بالا (سینیٹ) پر مشتمل ہے۔ ملک کا انتظامی سربراہ صدر ہوتا ہے۔ صدر کا انتخاب ہر چار سال بعد ہوتا ہے۔ کوئی بھی صدر دو مدت سے زیادہ اس عہدے پر تعینات رہنے کا آئینی حق نہیں رکھتا۔اس وفاق میں شمال، مغرب اور وسطی علاقوں کی ریاستوں نے یکے بعد دیگرے شمولیت اختیار کرنا شروع کی۔ سب سے آخر (1959) میں دو ریاستیں شامل ہوئیں۔ جن میں کینیڈا کے شمال مغربی کونے پر موجود ریاست الاسکا اور مغرب میں بحر الکاہل میں موجود جزائر ہوائی شامل ہیں۔

اب اس سوال کی جانب آتے ہیں کہ دنیا بھر سے انسانوں کی اولین ترجیح ریاست ہائے متحدہ امریکا اور پھرکینیڈا ہی کیوں ہوتی ہے؟ لوگ جنوبی براعظم جو لاطینی امریکا کہلاتا ہے، اس کا رخ کیوں نہیں کرتے؟ اس سوال کا انتہائی سہل سا جواب یہ ہے کہ جنوب کے ممالک میں بھی گو کہ وسائل کی بہتات ہے، مگر نظم حکمرانی کمزور ہونے کی وجہ سے ترقی کی ان منازل تک نہیں پہنچ پائے جو شمال کے ان متذکرہ بالا دونوں ممالک کا طرہ امتیاز ہے۔ اس کے علاوہ لاطینی امریکی ممالک میں آئین اس حد تک جمہوری اور سیکیولر نہیں ہیں کہ وہ دنیا بھر کے عوام کو اپنے دامن میں سمو سکے اور انھیں مرحلہ وار شہری حقوق دے سکے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا میں شہریت  (Citizenship)کے واضح قوانین ہیں۔ یہاں دو قسم کی شہریت ہوتی ہے۔ اول، پیدائشی کی بنیاد پر یعنی Birthright Citizenship ۔ 1886میں ہونے والی 14ویں آئینی ترمیم کے مطابق ہر وہ بچہ جو امریکا کی کسی بھی ریاست یا وفاقی دارالحکومت میں پیدا ہوا ہے، امریکی شہریت کا پیدائشی حقدار ہے۔ دوئم، وہ افراد جو کسی دوسرے ملک سے ہجرت کر کے امریکا آئے ہوں۔ ان افراد کو مختلف مدتوں کی تکمیل کے بعد مرحلہ وار شہری حقوق  تفویض کیے جاتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں کام کرنے اور سوشل سیکیورٹی میں رجسٹر ہونے کا حق دیا جاتا ہے۔

پھر آدھی شہریت یعنی پاسپورٹ سمیت دیگر سہولیات تک رسائی۔ آخر میں مکمل شہریت یعنی سیاسی حقوق بھی دیدیے جاتے ہیں۔ مکمل شہریت کے بعد ہر شہری انتخابات میں حصہ لینے کا بھی مجاز ہوجاتا ہے۔ جن غیر ملکیوں کو شہریت دی جاتی ہے، وہ اپنے سابقہ ملک کی شہریت تو برقرار رکھ سکتے ہیں، لیکن اس ملک کی سیاست میں حصہ لینے کے مجاز نہیں رہتے۔ یاد رہے کہ برطانیہ میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے، بلکہ اس کے شہری اپنے وطن مالوف میں بھی انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا حق رکھتے ہیں۔

امریکا میں شہریت کے حصول کی خواہش کا دوسرا بڑا سبب یہاں، رہائش اور روزگارکا تحفظ، آزادی اظہار، اپنے ضمیر کے مطابق مذہب اختیار کرنے اور اپنے عقیدے کے مطابق عبادات کرنے اور عبادت گاہیں تعمیر کرنے، عدل و انصاف تک رسائی اور عہدہ صدارت سمیت ہر منصب تک میرٹ پررسائی جیسے حقوق حاصل ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت اور منصوبہ سازوں کا عالمی منظرنامے میں جو بھی کردار ہو، اس سے قطع نظر دنیا بھر کے شہری اپنے ضمیر کے مطابق پر سکون، اطمینان بخش اور آزادانہ زندگی گذارنے کی خاطر اس ملک کا رخ کرتے ہیں اور شہریت کے حصول کے لیے ہر جتن کر گذرتے ہیں۔

ہمارے یہاں جو حلقے سیکیولر ازم کو لادینیت قرار دے کر اس کے خلاف بغلیں بجاتے ہیں، انھیں اس بات کا فہم و ادراک ہی نہیں کہ جمہوریت سیکیولر ازم سے مشروط ہوتی ہے۔ دوسرے سیکیولر معاشرے ہی میں ہر عقیدے اور نسلی و لسانی اکائیوں اور اقلیتوں کا آئینی و قانونی تحفظ ممکن ہوتا ہے۔ اکا دکا واقعات کو سیکیولر ازم کی خامی کے طورپر پیش کرنے والے حلقے تھیوکریٹک ریاستوں میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہونے والے مظالم کو فراموش کردیتے ہیں۔ بھارت کا معاملہ مختلف ہے۔ وہاں ریاست آئین اور حکومت کی حد تک تو جمہوری اور سیکیولر ہے، مگر معاشرہ سیکیولر نہیں ہوسکا ہے۔جس کی وجہ سے آئے دن کمیونل فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ بھارت کو سیکیولر ازم کی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا، جب کہ یورپ اور امریکا میں ہر سطح پرسیکیولرازم کے ثمرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔