نفرت کے نشانات مٹاتی بُڑھیا ۔۔۔

ندیم سبحان میو  جمعرات 27 جولائی 2017
جرمن عورت تین عشروں سے نفرت انگیز مواد کے خلاف جنگ کررہی ہے ۔  فوٹو : فائل

جرمن عورت تین عشروں سے نفرت انگیز مواد کے خلاف جنگ کررہی ہے ۔ فوٹو : فائل

نفرت کی آگ نے دنیا کو جہنم بنادیا ہے۔ اس آگ کو پیار و محبت کی بارش سے ہی ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے ارمیلا جرمنی کی سڑکوں اور گلیوں سے نفرت و عداوت کے اظہار کی ہر نشانی مٹانے پر کمربستہ ہے۔ بہترسالہ ارمیلا مینسا کو سڑکوں اور گلیوں میں لگے ہوئے نفرت انگیز بینر اور کھمبوں اور دیواروں پر چسپاں پوسٹر ہٹاتے اور تحریریں مٹاتے ہوئے اکتیس سال ہوچکے ہیں۔ تین عشروں سے وہ نفرت پھیلانے والا مواد صاف کرکے اپنے تئیں محبت کو فروغ دینے کی سعی کررہی ہے۔ اس کوشش کے دوران کئی بار اسے نازی نظریے کے پیروکاروں کی جانب سے جان سے ماردینے کی دھمکیاں بھی ملیں، متعدد بار پولیس نے اس پر جرمانے کیے مگر ارمیلا نے یہ روش ترک نہ کی۔ وہ نسلی و مذہبی منافرت، غیرملکیوں اور یہود مخالف جذبات کے آگے سینہ سپر رہی ہے۔

ارمیلا ہمیشہ کُھرپی اور اسپرے پینٹ کا کین ہاتھوں میں لیے نظر آتی ہے۔ دیواروں پر جہاں کہیں اسے نفرت انگیز نعرے اور اسی نوع کی تحریریں نظر آتی ہیں وہ انھیں کھرچ دیتی ہے۔ اسی قسم کے بینروں پر وہ سیاہ پینٹ کا اسپرے کردیتی ہے یا ممکن ہو تو انھیں اتاردیتی ہے۔ نفرت انگیز مواد کے خلاف جنگ میں ارمیلا کی استقامت دیکھتے ہوئے کئی برس قبل اسے Hate Destroyer کہا جانے لگا تھا۔ بہت سے لوگ ارمیلا کو سراہتے ہیں جب کہ اس پر تنقید کرنے والے بھی موجود ہیں۔

ہم وطنوں کی بڑی تعداد ارمیلا کو نفرت سے برسرپیکار ہیرو سمجھتی ہے۔کئی لوگوں کے نزدیک وہ اپنے اقدام سے آزادیٔ اظہار کی مخالفت کررہی ہے۔ سرکاری ملازمین میں بھی اس کے حامی و مخالف پائے جاتے ہیں۔ نفرت انگیز پروپیگنڈے کے خلاف تیس سالہ جدوجہد کے دوران ارمیلا کو سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر متعدد اعزازات سے نوازا جاچکا ہے۔ دوسری جانب اس پر پوسٹروں اور بینروں کو خراب کرنے کی پاداش میں متعدد بار جرمانے بھی ہوئے اور دوسروں کی ملکیت کو نقصان پہنچانے کے الزام میں عدالت میں بھی گھسیٹا گیا۔

ارمیلا کی پیدائش جرمنی کے شہر شٹوٹگارٹ میں ہوئی تھی۔ ارمیلا کو اپنی قوم میں موجود نسلی منافرت کے جذبات کا صحیح معنوں میں احساس اس وقت ہوا جب اس نے ایک افریقی سیاہ فام سے شادی کی۔ اپنے شوہر کے ساتھ سڑکوں اورگلیوں میں سے گزرتے ہوئے اسے لوگوں کے چہرے پر اُبھر آنے والے تأثرات نے سیاہ فاموں کے لیے ان کے دلوں میں موجود تحقیر سے آگاہ کردیا تھا۔

شوہر کو جرمن شہریت دلانے کے دوران امیگریشن آفس میں روا رکھے جانے والے تحقیر آمیز رویے اور پھر دوران سفر بس میں اس پر ہونے والے حملے نے ارمیلا کو اچھی طرح احساس دلا دیا تھا کہ اس معاشرے میں نسلی منافرت کس حد تک سرایت کرچکی ہے۔ اس نے اس جذبے کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ ارمیلا نے اس جنگ کا آغاز 1986ء میں پہلا نفرت انگیز اسٹیکر ہٹا کر کیا۔ وہ کہیں جانے کے لیے بس میں سوار ہونے والی تھی جب اس کی نظر بس اسٹیشن کے ستون پر چپکے ہوئے ایک اسٹیکر پر پڑی جس پر ایک سیاسی رہنما کو آزاد کرنے کے مطالبے پر مشتمل الفاظ درج تھے۔

ارمیلا نے یہ اسٹیکر اکھاڑ پھینکا۔ ایسا کر کے اسے یک گونہ اطمینان محسوس ہوا۔ اب اسے جب بھی اس قسم کے اسٹیکرنظر آتے وہ انھیں اکھاڑ پھینکتی، بینر اتار دیتی اور دیواروں پر سے تحریر مٹادیتی۔ یہ اس نے اپنا مقصد بنالیا تھا۔ کئی برس تک وہ اپنے شہر سے نفرت انگیز مواد صاف کرتی رہی۔ پھر اس نے دوسرے شہروں اور قصبات کا بھی سفر شروع کردیا۔ ارمیلا کی ان کوششوں کو اس کے شوہر کی تائید بھی حاصل رہی ہے۔

نفرت کی بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی ارمیلا کی کوششوں کو سراہا گیا۔ فیڈرل امپلائمنٹ سروس سمیت کئی اداروں کی جانب سے اسے میڈل دیے گئے۔ دوسری جانب اسے قدامت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں بھی ملتی رہیں۔ ایک بار ارمیلا پر جان لیوا بھی حملہ بھی ہوا جس میں وہ شدید زخمی ہوئی مگر اس نے یہ روش ترک کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے خلاف قانونی کارروائیاں بھی ہوئیں۔ املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت اسے عدالتوں میں بھی گھسیٹا گیا مگر نفرت انگیز مواد سے نفرت کا جذبہ ماند نہیں پڑا۔

ارمیلا کا کہنا ہے کہ یورپی پناہ گزینوں کے بحران کے بعد ملک میں نسلی منافرت اور غیرملکیوں سے نفرت بڑھ رہی ہے۔ اس صورت حال میں نفرت انگیز مواد کے خلاف مہم کو وسیع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ہم وطنوں سے اپیل کرتی رہتی ہے کہ وہ اس مہم میں اس کا ساتھ دیں اور اپنے دلوں اور اپنی سرزمین سے نفرت کو اکھاڑ پھینکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔