ہرکام تجربہ سمجھ کرکیا مگر تھیٹر میرا جنون ہے

عمیر علی انجم / عرفان علی  ہفتہ 9 فروری 2013
نوجوانوں کے پاس ترقی کا سب سے آسان راستہ تعلیم ہے، اس لئے کوشش کریں کہ اپنی تعلیم پرخاص توجہ دیں، انور مقصود۔ فوٹو : فائل

نوجوانوں کے پاس ترقی کا سب سے آسان راستہ تعلیم ہے، اس لئے کوشش کریں کہ اپنی تعلیم پرخاص توجہ دیں، انور مقصود۔ فوٹو : فائل

 کسی شخص میں کوئی ایک خوبی ہو تو وہ دنیا میں اپنے پیار کرنے والوں کی آنکھ کا تارہ ہوتا ہے مگر کبھی کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آیاہے کہ کوئی ایک آدمی ہر فن میں خود کومنوانے کا ہنر رکھتا ہے ایسے شخص کوکیا کہیں یہ طے کرنا مشکل ہے۔

معروف ڈرامہ نویس، اداکار، کمپیئر، مصور اور شاعر انور مقصود نے اپنے کیریئر کا آغاز 1963میں ماڈلنگ سے کیا اور چار کمرشل بھی ریکارڈ کروائے اسکے بعد 1967میں ٹی وی سے چلنے والے پہلے لانگ پلے میں بطور ہیروکام کیا۔انور مقصود 35سال سے شوبز کی صنعت سے وابستہ ہیں اوراس درمیان انھوں نے ’ففٹی ففٹی‘ شوٹائم‘ آنگن ٹیڑھا‘ہاف پلیٹ‘سلور جوبلی‘ستارہ اور مہرالنسا‘ نادان نادیہ جیسے مقبول کھیل پیش کئے۔ انور مقصود نے اپنے 35سالہ کیرئیر میں معاشرے کے اہم معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کیا ۔انکے پیش کئے جانے والے تمام پروگرامز ہر عمر کے فردمیں مقبول ہیں ۔انور مقصود نے معاشرے کے اہم مسائل کوانتہائی سادہ اور ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں ناظرین کے سامنے پیش کیا اور اپنے اسی خاص انداز کی وجہ سے دنیا بھرمیں مقبول ہیں۔آئیے ان سے گفتگو کریں۔

سوال:-آپ نے ڈرامہ اس کے بعد ٹاک شواور اب تھیٹر کا آغاز کیا کوئی خاص وجہ؟
جواب:-میں نے ہرکام کو تجربہ سمجھ کرکیا ہے مگر تھیٹر تجربہ نہیں میرا جنون ہے سو میں اسے شوق سے کرتا ہوں۔

سوال:-آپ نے ڈرامے سے تھیٹر کا رخ کیوں کیا؟
جواب:-میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھے کبھی تھیٹر ڈرامہ بھی لکھنا ہے مگر کچھ عرصہ قبل جب ملک کے حالات کو تیزی سے بگڑتے دیکھا ‘ تو مجھے ایسا لگا کہ اب کوئی ایسا کام کرنا چاہیئے جس میں نیا پن بھی ہو اور عوام کا میسج بھی حکمرانوں تک پہنچ جائے۔ سو یہ سارے معاملات نظر میں رکھتے ہوئے میں نے تھیٹر ڈرامہ ’’پونے چودہ اگست‘‘ پیش کیا۔ جس میں عوام نے کھڑکیاں توڑ کر شرکت کی‘ شاید یہ ہی وہ چیز تھی جس نے مجھے حوصلہ بخشااور میں نے تھیٹر کو باقاعدگی سے کرنے کا فیصلہ کیا۔

سوال:-آپ نے بے شمار ڈرامے تحریر کئے کیا آج کے ڈرامے سے مطمئن ہیں؟
جواب:-سوال تو بہت اچھا ہے مگر افسوس جواب سن کر اس سے زیادہ افسوس ہوگا‘ کیونکہ میں ہمیشہ سے سچ بولنے کا عادی ہوںدراصل بات یہ ہے کہ پہلے ڈرامہ نویس باقاعدہ تربیت حاصل کرکے میدان میں اترتا تھا مگر آج وہ ڈرامہ نگار ڈرامہ لکھ رہے ہیںجو کل تک ڈائجسٹ میں لکھا کرتے تھے اسی لئے کہانی میں بھی کوئی معیار دکھائی نہیں دیتا ۔

سوال:-اگر آپ سے کہا جائے کہ اس طرح کے ڈرامے آپ لکھیں تو کیا جواب دیں گے؟
جواب:-اتنا کہونگا کہ بھائی میں ایسے ڈرامے مرنے کے بعد تو لکھ سکتا ہوں اس سے پہلے اس معیار کا کام میرے بس کی بات نہیں۔

سوال:-محبت کی ہے؟
جواب:-ہاں اپنے کام اور ملک سے بہت محبت کرتا ہوں ۔

سوال:-زندگی کا کوئی ایسا واقعہ جو آپکو اکثر یاد آتا ہو؟
جواب:- واقعات تو بہت سے ہیں مگر ایک واقعہ مجھے یاداکثر یاد آتا ہے، جنرل ضیاالحق کا دور تھا اور مجھے ایک پروگرام کی کمپیئرنگ کے لئے خاص طور پر بلایا گیا اس دور میں پیپلز پارٹی پر پابندی تھی ‘ میں کمپیئرنگ کررہا تھا۔ جنرل ضیا الحق سامنے بیٹھے تھے میں نے کہا کہ یہ عجیب حکومت ہے‘ پیپلز پارٹی پر پابندی بھی لگائی ہوئی ہے اور ان کے ایک وزیر جب اپنے گھر سے نکلتے ہیں تو انکی گاڑی اسٹارٹنگ میں پی پی پی کرتی ہے پھراسٹارٹ ہوتی ہے۔ پنڈال میں بیٹھے جیالوں نے جئے بھٹو کے نعرے لگانا شروع کردیئے فوری طور پر ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہا انوربھائی پروگرام لائیوجارہا ہے اتنی دیر میں تمام لائٹیں بند ہوگئیں اور پروگرام ختم کردیا گیا۔

سوال:-ملکی حالات کے بارے میں کیا خیال ہے؟
جواب:-دعا ہے کوئی بہتر سربراہ اس ملک کے مقدر میں بھی لکھ دیا جائے کیونکہ ہم اس وقت جن مسائل کا شکار ہیں وہ ناقابل بیان ہے دنیا بھرمیں ہر نکلتے ہوئے دن کے ساتھ لوگ سکھ کا سانس لیتے ہیں مگر پاکستان میں اسکا الٹ ہے۔

سوال:-شاعری پسند ہے؟
جواب:-مجھے شاعری سے بے پناہ شغف ہے اور ہر نئی کتاب کو ضرو پڑھتا ہوں اس وقت نوجوان نسل کو ادب کے حوالے سے کام کرتا دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔

سوال:-آپ نے بے شمار گانے بھی لکھے اس وقت اردو زبان کو کس طرح سے دیکھتے ہیںِ؟
جواب:-اردو اتنی بڑی زبان ہے کہ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اردو زوال پذیر ہے وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔

سوال:-موسیقی پسند ہے؟
جواب:-ہاں میں اکثرکام سے فراغت کے بعد کلاسیکل موسیقی کو بہت شوق سے سنتا ہوں۔

سوال:-معین اختر آپ کے دیرینہ دوست بھی رہے اور اپنے ساتھ کام بھی کیا آپکی جوڑی مشہور تھی ۔انکی وفات کے بعد کس طرح سے دیکھتے ہیں۔کیا زندگی میں کوئی کمی محسوس ہوتی ہے؟
جواب:-اب تک یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ معین ہمارے درمیان نہیں ہے‘ اسکے ساتھ میری تیس سال کی رفاقت تھی اسکی بہت سی باتیں جب یاد آتی ہیں تو اداس ہوجاتا ہوں۔

سوال:-نئے فنکاروں کے کام سے مطمئن ہیں؟
جواب:-کسی حد تک کیونکہ نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے اور نوجوان اس ماحول میں بھی کام کررہے ہیں یہ غنیمت ہے۔

سوال:-نئے فنکاروں سے کچھ کہنا چاہیں گے؟
جواب:-اتنا ہی کہونگا کہ اپنے کام کو دیانتداری سے کریں اور کوشش کریں کہ اپنی تعلیم پرخاص توجہ دیں نوجوانوں کے پاس ترقی کا سب سے آسان راستہ تعلیم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔