کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر رات کا شہباز

رئیس فاطمہ  ہفتہ 9 فروری 2013

اقبال کے ’’جواب شکوہ‘‘ کا ایک بند ہے:
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ، وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہونکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے؟

یہ طویل نظم انھوں نے 1908ء کے آس پاس لکھی تھی، لیکن ایسا لگتا ہے جیسے اس کے مخاطب آج کے پاکستانی ہوں۔کہتے ہیں کہ جب حضورؐ تشریف لائے تو کوئی ایسا عیب نہ تھا جو عرب قوم میں نہ ہو، لیکن آج کا منظر نامہ کیا کچھ الگ ہے؟ پوری سچائی سے ذرا اپنے گریبان میں جھانکیے اور قوم کے مجموعی مزاج اور عادات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ برائیوں اور خرابیوں کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے، خصوصاً ہم جھوٹ، فریب اور دھوکا دہی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور نادم بھی نہیں ہوتے، بس موجودہ حکومت کی پانچ سال کی کارکردگی دیکھیے اور وزرا کے قصیدے سنیے! ٹی وی چینلز پر اراکین اسمبلی اور وزیر صاحبان پوری طرح یہ ثابت کرنے پہ تلے ہوتے ہیں کہ موجودہ حکومت کا اپنی مدت پوری کر لینا ہی اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کے بعد کسی اور کارنامے کا ذکر کرنا محض حماقت ہے۔

اسی لیے مہنگائی کے اژدھے کا عام آدمی کے لیے آگ اگلنا، بے روزگاری کے عفریت کا گراف ہولناک حد تک بڑھنا، غربت کے باعث بچوں کو بیچنا، دوشیزاؤں کا دولت کے لیے ’’شارٹ کٹ‘‘ اختیار کرنا، نوجوانوں کا جرائم میں ملوث ہونا، خاندان کی کفالت کے لیے خودکش بمبار بننا اور مذہب کے نام پر بے گناہوں کا خون بہانا، ایسے کارنامے ہیں جو دنیا بھر میں ہمیں رسوا کر رہے ہیں، لیکن برسر اقتدار آقاؤں کے لیے سب سے بڑا کارنامہ صرف پانچ سال پورے کرنا ہے، یہ پانچ سال کس نے اور کیوں پورے کروائے؟ یہ کوئی راز نہیں، لیکن جھوٹ اور منافقت کی سیاست میں صرف قصیدہ خوانی ہی کی اصل اہمیت ہے۔ کیونکہ کسی سیانے نے کہا ہے کہ جھوٹ اس کثرت اور اتنے یقین سے بار بار اور مسلسل بولو کہ وہی سچ لگنے لگے اور اصل سچ جھوٹ کی چادر کے نیچے دب جائے۔ جو وزرا دن رات ٹی وی چینلز پر ’’پانچ سال‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں وہ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟ لیکن وہ یہ شرمناک کام کرنے پر اس لیے مجبور ہیں کہ اگلے الیکشن میں انھیں اسی ’’خدمت بے بہا‘‘ کے عوض پہلے ٹکٹ اور پھر وزارت ملنے کی امید ہے۔

سب سے بڑی خرابی جو پوری قوم میں بڑی شدت سے در آئی ہے وہ بے محابہ جھوٹ بولنا ہے، لیڈروں سے لے کر سیاستدان اور مذہبی علما تک، اور ایک دودھ فروش سے لے کر قصاب تک، سب جھوٹ کی روزی کھا رہے ہیں، اور فخریہ خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں۔ حضورؐ نے تو فرمایا تھا کہ ’’اپنی چیز کا نقص خود خریدار کو بتا دو‘‘ لیکن کیا ایسا ہوتا ہے؟ بازار جائیے تو مسجد میں پانچ وقت جانے والا تاجر اور دکاندار خراب سے خراب چیز آپ کو فروخت کر دے گا اور اگر شکایت کرو تو وہ خریدار کو پہچاننے سے انکاری ہوتا ہے، رقم واپس کرنے کا تو کوئی رواج ہی نہیں، یہاں تو خراب شے کو بدلنے کا بھی کوئی تصور نہیں۔

کنزیومر رائٹ کا کہیں وجود نہیں۔ ہم بڑے اہتمام سے مسجدوں میں بھی جاتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، لیکن تگنی چوگنی قیمت وصول کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، کبھی پہلے علمائے کرام سے حق گوئی کی توقع رکھی جاتی تھی، صرف پینسٹھ سال پہلے تک حق بات کہنے والے کو معلوم ہوتا تھا کہ اسے سچ کہنے پر پھانسی کا پھندا یا دلی کا خونی دروازہ اس کا منتظر ہوگا، لیکن سچ کہنے سے نہیں ڈرتے تھے۔ لیکن آج ہمارے علما ہی سب سے زیادہ اہل ثروت اور اہل اقتدار کی خوشامد میں زمین و آسمان ایک کر دیتے ہیں کہ اس کام کا صلہ انھیں بھرپور اور بہت جلد ملتا ہے۔ کیا تقسیم سے پہلے کبھی کسی عالم یا مذہبی پیشوا نے مرسڈیز یا پجیرو کا تصور بھی کیا ہو گا؟ نہیں بالکل نہیں، کیونکہ ان کے لیے ’’عزت سادات‘‘ ہی سب کچھ تھی اور پھر ضیاء الحق نے انھیں بتا دیا کہ وہ بھی اقتدار کا اہم ستون ہیں، بس حکومت کے ہر کام کی تعریف کرو، پھر ہر حکمران کی تم ضرورت بن جاؤ گے، اور یہی آج ہو رہا ہے۔

آج جس اذیتناک صورتحال سے ہم گزر رہے ہیں اس کی زیادہ تر ذمے داری ان جہادی گروہوں اور مذہبی انتہا پسندوں کی ہے جو نہ ہمسایہ ملک سے رابطے بحال ہونے دیتے تھے، نہ قبائلی علاقوں میں اسکول اور کالجوں میں لڑکیوں کو جانے دیتے ہیں۔ ان کی انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ پولیو کے قطروں میں انھیں اپنی نسلیں گم ہوتی نظر آتی ہیں۔ ان کے حلیے دیکھو تو دہشتگردی چہروں سے عیاں ہے، ایک سربراہ جنھیں لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کا بڑا شوق ہے، خود ساختہ ’’پروفیسر بن گئے ہیں، شاید ان کے لا محدود علم نے انھیں یہ نہیں بتایا کہ ’’پروفیسر‘‘ کہلانے کی کچھ شرائط ہوتی ہیں۔ وہ تو دہشت گردی کے فروغ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

جھوٹ اور فریب جس طرح زندگیوں میں شامل ہو گیا ہے وہ اتنا ہولناک ہے کہ اب سچ بولنے والے کو احمق سمجھا جاتا ہے، خاص طور سے ارکان اسمبلی اور حکومتی وزیر جس دھڑلے سے سیاہ کو سفید کرتے ہیں اسے سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے، اب والدین بھی جھوٹ اور غنڈہ گردی کی سرپرستی کرتے ہیں، تین دن پہلے ہی ایک خبر دیکھ لیجیے جو اخبارات میں صفحہ اول پر تین کالمی شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک ایم این اے کے بیٹے نے ایک افسر کو مار مار کر بے ہوش کر دیا، افسر کا چہرہ خون آلود ہو گیا لیکن طاقت کے نشے میں چور بیٹے کے ابا جان نے بجائے سرزنش کرنے اور آفیسر سے معذرت کرنے کے جو بیان دیا وہ ان کی ذہنی پسماندگی کی علامت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ ان کا بیٹا بیگناہ ہے، چونکہ افسر ان کے بیٹے کو نظر انداز کر رہا تھا اس لیے جوان خون جوش میں آ گیا کیونکہ جوان خون کچھ بھی کر دیتا ہے۔ کاش! موصوف اس جوان خون کی حرارت کو کسی مثبت کام کے لیے استعمال کرنے کی تربیت کرتے! لیکن بھلا کیوں؟ کیونکہ وہ ایم این اے ہیں، اس لیے انھیں اور ان کے بیٹے کو حق حاصل ہے کہ وہ ہر ایک کو اپنا ذاتی ملازم سمجھیں، اسی کلچر نے پاکستان کو ایک اپاہج اور لولی لنگڑی ریاست بنا کر رکھ دیا ہے۔

چلتے چلتے اقبال کا ایک اور بند سنیے!
میں کار جہاں سے نہیں آگاہ و لیکن
ارباب نظر سے نہیں پوشیدہ کوئی راز
کر تو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد
دستور نیا اور نئے دور کا آغاز
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت
کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر رات کا شہباز

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔