جہانگیر ترین نااہلی کیس؛ سپریم کورٹ میں سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی

ویب ڈیسک  جمعرات 27 جولائی 2017

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نا اہلی کیس میں جہانگیر ترینکے وکیل کو کیس سے متعلق دستاویزات 10 دنوں میں جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ میں حنیف عباسی کی درخواست پر جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت جاری ہے، سماعت کے موقع پر جہانگیر ترین نے حنیف عباسی کی تحائف سے متعلق درخواست پر سپریم کورٹ میں جواب جمع کروا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حنیف عباسی کی جانب سے دائر درخواست پس پردہ مقاصد کے لیے دائر کی گئی، درخواست گزار عدالتی کارروائی کو لمبا اور آرٹیکل 184 (3) کو وسیع کرنا چاہتا ہے جب کہ مرکزی درخواست میں تحائف کا کوئی نکتہ نہیں اٹھایا گیا۔

جہانگیر ترین کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ وہ 11-2010 کے ٹیکس کا مکمل ریکارڈ جمع کروا چکے ہیں جس میں تحائف کا ذکر موجود ہے جب کہ درخواست گزار کسی بھی قانون کے تحت دستاویزات طلب کرنے کا مجاز نہیں لہذا حنیف عباسی کی متفرق درخواست کو خارج کیا جائے۔

وکیل حنیف عباسی سے دلائل میں کہا کہ میں نے 2 نکات پر کل دلائل مکمل کرلے تھے جس پر  جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آف شور کمپنی سے متعلق جہانگیر ترین کے کیس کا فیصلہ آچکا ہے تاہم آپ کن دستاویزات پر انحصار کررہے ہیں، وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ میرے پاس آف شور کمپنی سے متعلق دستاویزات نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ  دستاویزات نہیں تو کیسے مان لیں، آف شور کمپنی جہانگیر ترین نے بنائی،  جہانگیر ترین کا پاکستان سے غیر قانونی رقم لے جا کر آف شور کمپنی بنانے کاریکارڈ نہیں جس پر وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس اخباری تراشوں کی بنیاد پر سنا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پاناما کیس میں تقاریر، ٹی وی انٹرویوز اور دیگر مواد پر کارروائی شروع کی گئی، پاناما کیس میں تو پارلیمنٹ کی تقریریں، اخباری خبریں اور بہت کچھ تھا تاہم یہاں تو آپ کے پاس ایسا کچھ نہیں، وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ جہانگیر ترین نے اثاثوں کے بارے الیکشن کمیشن اور ایف بی آر میں غلط بیانی کی، انہوں نے ایف بی آر میں 2010 کی آمدن 54 کروڑ بتائی اور الیکشن کمیشن میں اسی سال 120 ملین بتائی لہذا جہانگیر ترین نے الیکشن کمیشن میں غلط بیانی کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا کیس یہ ہے کہ جہانگیر ترین صادق اور امین نہیں جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ جہانگیر ترین نے زرعی زمین کا انکم ٹیکس کم دیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زرعی زمین کا انکم ٹیکس کم دیا تو جہانگیر ترین جانے اور انکم ٹیکس والے جانیں، وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین نے ایک جگہ زرعی زمین کی آمدن زیادہ  اور دوسری جگہ کم ظاہر کی جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا زرعی زمین کی آمدن سے متعلق کیس کسی اور عدالت میں زیر سماعت ہے جس پر وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ زرعی زمین کی آمدن کم ظاہر کرنے کا کیس کہیں اور زیر سماعت نہیں، جہانگیر ترین نے 2013 کے کاغذات نامزدگی میں زرعی زمین چھپائی جس کے باعث وہ الیکشن کمیشن کے سامنے مس ڈیکلیریشن کے مرتکب ہوئے، جہانگیر ترین نے ٹیکس چوری کی اور غلط آمدن بتائی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ جہانگیر ترین اور ٹیکس اتھارٹی کے درمیان کا معاملہ ہے، اگر کم ٹیکس ادا کیا گیا تو یہ معاملہ محکمہ ٹیکس سے متعلق ہے جس پر وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ عدالت جائزہ لے کہ جہانگیر ترین نے زرعی آمدن سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں الیکشن کمیشن کو کم ٹیکس بتا کر فائدہ کیا ہوا، جہاں ٹیکس دینا تھا وہاں سارا صحیح بتایا، جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ ٹیکس قانون میں لقونہ ہے کہ ٹھیکے پر اراضی لینے والے پر ٹیکس عائد نہیں، صرف ٹھیکے پر دینے والا ہی ٹیکس ادا کرے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کے مطابق آمدن سے متعلق اثاثوں کی غلط بیانی کی گئی، درخواست گزار کا کہنا ہے یہ غلط بیانی کے اثرات ہوں گے لہذا جہانگیر ترین کے وکیل عدالت کو اس معاملے پر دلائل دیں گے۔

وکیل جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ آمدن سے متعلق عدالت کو تفصیلی دلائل دوں گا جس پر چیف جسٹ نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ تضاد کی بنیاد پر آرٹیکل 62 کا اطلاق ہوتا ہے، جسٹس فیصل عرب کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ 500 ایکڑ پر 12 کروڑ آمدن کو بھی آپ کم بتا رہے ہیں جس پر وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ میرا کہنا ہے کہ زرعی آمدن بتا کر ٹیکس کم ادا کر رہے ہیں، زرعی آمدن پر ٹیکس کی شرح دوسری آمدن سے کم ہوتی ہے۔

،جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کا کیس یہ بنتا ہے کہ زرعی آمدن بتا کر کم ٹیکس ادا کیا، اس کے لیے تو پنجاب حکومت کے پاس جائیں جس پر وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ جہاں فائدہ لگا وہاں آمدن کم بتا دی گئی، جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ تو آپ کا خیال ہے، آپ کا سوال اچھا ہے لیکن اس کا تعین پنجاب کے محکمہ ٹیکس کو کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کو سمجھائیں کہ غلطی کیا ہے جس پر وکیل حنیف عباسی کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کو اپنی اصل آمدن ظاہر کرنا چاہیے تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ ابھی عدالتوں میں زیر التواء ہے، ہم کیسے کہہ دیں یہ غلط بیانی ہے، جب تک ثابت نہ ہو جائے غلط بیانی ہوئی تو اس کا فائدہ کیا لیا گیا تو کیسے فیصلہ کریں، وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ عدالت صرف غلط بیانی کو دیکھے۔

وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ سال 2015 کے کاغذات کا بھی عدالت جائزہ لے، سال 2013، 14 اور 15 کی ٹیکس ادائیگی میں کوئی غلط بیانی نہیں کی جس پر جسٹس فیصل عرب استفسار کیا کہ 1500 اراکین اسمبلی پر آرٹیکل 62، 63 کا اطلاق ہو سکتا ہے، کیا ہر ممبر کے حوالے سے یونہی درخواست دائر ہو سکتی ہے، علیحدہ فورمز پر ان کا اپنا دائرہ اختیار ہے جب کہ جس ممبر کے خلاف کسی عدالت کا فیصلہ نہیں، کیسے لاگو کر دیں، آرٹیکل 62، 63 کا اطلاق کسی عدالت کے فیصلے سے مشروط ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کسی فیصلے کے علاوہ اپنی رائے نہیں دی جس پر وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ جہانگیر ترین اور ان کے خاندان کے دوسرے ممبران کمپنی کی ڈائریکٹرز تھے، جہانگیر ترین کی اس کمپنی نے 49 ملین کا قرضہ معاف کرایا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں شیئر ہولڈرز تک کے تناسب کو بھی دیکھنا ہو گا جب کہ قرضے جہانگیر ترین، ان کی اہلیہ اور ان کے زیر کفالت افراد کے نام نہیں جس پر وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ جہانگیر ترین کمپنی کے ڈائریکٹر تھے، جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ صرف ڈائریکٹر نہیں دیکھا جاتا، گارنٹر بھی دیکھا جاتا ہے۔ وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ 2007 میں قرضہ معاف ہوا اور 2010 میں جہانگیر ترین کمپنی کے ڈائریکٹر بنےاور 2013 تک ڈائریکٹر رہے، جہانگیر ترین نے انٹرویو میں کہا کہ قرضہ معافی کے وقت وہ وزیر انڈسٹریز تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ جہانگیر ترین نے بطور وزیر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا یا نہیں، وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ جہانگیر ترین نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ قرضہ معافی کے وقت داماد ڈائریکٹر تھے تاہم باقی دلائل جواب الجواب میں دوں گا۔

حںیف عباسی کے وکیل کے دلائل کے بعد جہانگیر ترین کے وکیل کا دلائل میں کہنا تھا کہ کوشش کی ہے کہ عدالت کے پانچ سوالات کا جواب دے سکوں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپنی رائے کا اظہار صرف فیصلے کے ذریعے کرتے ہیں، ہم صرف سمجھنے کے لیے سوالات اٹھاتے ہیں۔

جہانگیر ترین کے وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ میں کچھ دستاویز بھی جمع کروا رہا ہوں،  بینک تفصیلات، جہانگیر ترین اور بچوں کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ جمع کروا رہا ہوں جب کہ کمپنی کی بنیادی معلومات میں ٹرسٹ معلومات شامل ہیں، کمپنی کا نام شائنی ویو لمیٹڈ ہے جب کہ میں نے رجسٹرڈ شیئر ہولڈرز کی تفصیلات عدالت میں جمع کروائی ہیں۔

وکیل جہانگیر ترین سکندر مہمند نے کہا کہ ایک شیئر ای ایف جی لمیٹڈ کمپنی کے نام ہے جو کہ ٹرسٹ کی نمائندہ ہے جب کہ ٹرسٹ کا نام رینڈم ٹرسٹ ہے، اس کمپنی کا صرف ایک ہی رہائشی اثاثہ ہے جو کہ یارک شائر میں ہے تاہم مکمل ایڈریس نہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو بتانا چاہیے تھا کہ کمپنی کے اثاثہ کی تفصیل کیا ہے اور اس کو کب خریدا گیا،  سکندر مہمند نے کہا کہ ابھی تفصیلات نہیں، اس کمپنی کے بینیفیشل مالک جہانگیر ترین کے 4 بچے ہیں، علی ترین، مہر خان ترین، ثمر خان ترین اور مریم خان ترین بینی فیشل مالک ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمران خان نے اپنے فلیٹ کی خریداری کی مکمل تفصیل بتائی تھی، آپ نے یہ جائیداد کب خریدی جس پر وکیل جہانگیر ترین نے کہا کہ اس کمپنی کے عمران خان واحد مالک تھے تاہم میرے کیس میں بچے مالک ہیں تاہم فنڈز جہانگیر ترین نے دیے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کے لیے تحقیقات کروانا پڑیں گی، عمران خان تو بڑے واضح جواب دیتے تھے،تحقیقات کروانا پڑیں گی تاکہ حقائق سے پردہ اٹھے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں پاوٴنڈز میں کتنے اثاثے خریدے گئے جس پر سکندر مہمند نے کہا کہ ٹرسٹ کے جہانگیر ترین نے اڑھائی ملین پاؤنڈ دیے، یہ رقم جہانگیر ترین اور بچوں نے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ٹرسٹ ڈیڈ ریکارڈ پر ہے جس پر سکندر مہمند نے کہا کہ جہانگیر ترین کے اپنے پاس ریکارڈ نہیں، یہ ٹرسٹ کمپنیاں چلا رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ میرے پیارے یہ سارا ریکارڈ آپ کو سامنے لانا چاہیے جس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے دلائل دیے کہ جہانگیر ترین نے قائم کیے گئے ٹیکس کو 3اقساط میں رقم دی، پہلی قسط میں 2.5ملین پاؤنڈ، دوسری قسط میں 5 لاکھ پاؤنڈ اور تیسری قسط میں 11لاکھ ڈالر دیے تاہم مجھے ان معلومات کے لیے بطور ٹرسٹی تحریری درخواست دینا ہو گی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ میں کوئی ثبوت نہیں، رقم بچوں نے ٹرسٹ میں استعمال کی یا جائیداد خریدی جب کہ 52 کروڑ58لاکھ 71ہزار 2011میں بچوں کو تحفے میں دیے گئے پھر جہانگیر ترین نے 2012 میں بھی تحفے دیے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کا موقف ہے کہ جائیداد کے اصل مالک جہانگیر ترین ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بچوں کی عمریں کیاہیں جس پر سکندر مہمند نے کہا کہ علی ترین شادی شدہ ہیں جب کہ بچے تسلیم شدہ مالدار آدمی ہیں اور ٹیکس ریٹرنز جمع کرواتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں ممکن ہے تحقیق کے لیے مزید دستاویزات طلب کریں جب کہ ایس ای سی پی کے معاملہ پر شائد آپ کو جواب جمع کروانے کی ضرورت نہیں جس پر سکندر مہمند نے کہا کہ ایس ای سی پی کے معاملے پر دلائل دوں گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان کا کہنا ہے کہ آپ نے اعتراف جرم کرکے رقم ایس ای سی پی میں جمع کروائی جس پر سکندر مہمند نے کہا کہ ایس ای سی پی کی دستاویزات دے چکا ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موقع دینا چاہیے کہ کوئی بعد میں یہ نہ کہے کہ ایک دستاویز رہ گئی، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ 2011 میں تحفے کے وقت کیا بچے جوان تھے یا نہیں جس پر سکندر مہمند  نے کہا کہ بچے 2011 سے پہلے ٹیکس ریٹرنز دے رہے تھے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بچوں کی ویلتھ سٹیٹمنٹ کے ساتھ انکم ٹیکس اسٹیٹمنٹ بھی عدالت کو دیں جس پر وکیل جہانگیر ترین نے کہا کہ دستاویزات 99فیصد جمع کروا چکا ہوں، عدالت نے جہانگیر ترین کے وکیل کو متعلقہ دستاویزات 10 دنوں میں جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔