پاناما کیس کے فیصلے کی گھڑی

ایڈیٹوریل  جمعـء 28 جولائی 2017
اگر وزیراعظم کو نااہل نہیں قرار دیا جاتا تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اس فیصلے کو تسلیم کرنا چاہیے۔ فوٹو : فائل

اگر وزیراعظم کو نااہل نہیں قرار دیا جاتا تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اس فیصلے کو تسلیم کرنا چاہیے۔ فوٹو : فائل

سپریم کورٹ کے تین رکنی عملدرآمد بینچ کی طرف سے پاناما کیس کا فیصلہ آج سنایا جا رہا ہے۔ ماہرین قانون پاناما کیس کے حوالے سے میڈیا میں اس کی ضرورت، اور قانونی و آئینی پہلوؤں کی اپنے اپنے  فہم اور علم کے مطابق وضاحتیں اور تشریح کرتے رہے۔

قانون پر دسترس رکھنے والے سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ ججز اسی وقت اہم اور ہائی پروفائل کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہیں جب انھیں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کیس کے تمام قانونی پہلوؤں ، فریقین کے وکلا کی جانب سے پیش کردہ شواہد، دستاویزات ، جرح اور بحث سے پیدا ہونے والے نکات ، قانونی موشگافیوں،آئینی حوالوں، گواہوں کے بیانات، شہادتوں اور دیگر کیسز اور نظائر کے مختلف حوالوں کی روشنی میں فیصلہ تحریر کرنے کے لیے کچھ وقت اور مہلت حاصل کی جائے تاکہ قانون وانصاف کی بنیادی اقدار کے تحت ایسا  منصفانہ ،غیر جانبدارانہ ، جامع ، مبسوط، مکمل اورمعقول فیصلہ reasoned judgement) (دیا جائے جو عدالتی تاریخ میں امر ہو اور اسے قانون و حقائق کے مابین تعلق ، بنیادی حقوق اورانصاف و مفاد عامہ کی روشنی میں غیر جانبدارانہ اور منصفانہ قراردیا جائے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاناما کیس کے تمام مراحل اعصاب شکن کہے جا سکتے ہیں، فریقین کے درمیان بے تابی کا عجیب منظرسب کے سامنے ہے، سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور قائدین میں بلیم گیم عروج پر رہی ہے، وزیراعظم اور مختلف وزرا کے اقاموں اور خاموش ملازمتوں کا انکشاف ہوا ہے۔

سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت بھی ہوئی، بہر حال سپریم کورٹ کے باہر سیاسی عدالتیں بھی لگتی ہیں ، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور عدالتی فیصلہ سے پہلے، تبصروں ، قیاس آرائیوں اور پیشگوئیوں سے میدان سیاست ، صحافت اور ٹی وی چینلز پر ہنگامہ محشر برپا رہا ہے۔

بدھ کے روز چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا تھا کہ فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد پورا ملک رکا ہوا ہے، سپریم کورٹ پاناما کیس کا جلد از جلد فیصلہ سنائے تاکہ ملک آگے چل سکے۔یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ جب سے پاناما کیس سامنے آیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے  ہیں۔

ادھر سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن، بارکونسلز اور دیگر وکلاء تنظیموں کے رہنماؤں نے ایک کنونشن میں کہا کہ  ملک میں ادارے اور عدالتیں موجود ہیں جو آئین اور قانون کے مطابق کام کررہے ہیں، عدالت کے فیصلے پر اثرانداز ہونے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔یہ ایک درست بات ہے۔

عدالتوں کو پوری آزادی سے فیصلے کرنے دیے جانے چاہئیں اور فیصلوں پر کسی طرح بھی اثر انداز ہونے کے لیے کوئی مہم نہیں چلائی جانی چاہیے۔عوامی جائزے کے مطابق ملک کے عوام پاناما کیس کے حتمی فیصلے کے منتظر ہیں جب کہ شہریوں میں ایک اضطراب پایا جاتا ہے اور اکثریت اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچتا دیکھنا چاہتی ہے ،خصوصاً مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ سامنے آنے اور21 جولائی کو فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد عوام ذہنی کشمکش میں مبتلا ہیں جب کہ اب کچھ سیاستدانوں کی جانب سے الزامات کا غیرمتوقع سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔

وکلا بھی اس کیس کا فیصلہ سننے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ ملک اور قوم کے لیے بہتر مفاد میں یہ ہے کہ فریقین عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تسلیم کر لیں تاکہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی مسلمہ حقیقت بن کر سامنے آئے ،اگر وزیراعظم کے خلاف بھی فیصلہ آتا ہے تو اسے خوشدلی سے قبول کیا جانا چاہیے۔ پارلیمنٹ موجود ہے اور نیا وزیراعظم لایا جا سکتا ہے ۔لہٰذا سسٹم کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔اسی طرح اگر وزیراعظم کو نااہل نہیں قرار دیا جاتا تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو اس فیصلے کو تسلیم کرنا چاہیے۔یہی جمہوری اسپرٹ ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام فریق  عدلیہ پرغیر متزلزل اعتماد کا مظاہرہ کریں۔

فریقین اور سیاست دان قانون اور انصاف کے پراسس کی تکمیل میں اپنا حصہ یوں ڈال سکتے ہیں کہ آئین اور قوم کی سربلندی کے لیے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں کیونکہ اس وقت ملک کسی قسم کی محاذ آرائی یا تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ملک کو جو خطرات درپیش ہیں اس کے بارے میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں اشارہ کیا ہے۔

تاہم اس بنیادی حقیقت کی طرف بھی اہل سیاست اور خاص طور پر حکمراں طبقہ توجہ فرمائے کہ فریقین کی سیاسی ، فکری اور سماجی بصیرت کا اصل امتحان فیصلہ کے بعد ہی شروع ہوگا۔دیکھنا یہ ہے کہ اس ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔اصولی طور پر سب کو ملک اور قوم کے حوالے سے سوچنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔