لڑکی کے ساتھ زیادتی کا ایک اور افسوسناک واقعہ

ایڈیٹوریل  جمعـء 28 جولائی 2017
ملتان کے اس واقعے کو ایک مثال بنانا چاہیے اور اس کے واقعے کے ذمے داروں کو کڑی سزا ملنی چاہیے۔.فوٹو: فائل

ملتان کے اس واقعے کو ایک مثال بنانا چاہیے اور اس کے واقعے کے ذمے داروں کو کڑی سزا ملنی چاہیے۔.فوٹو: فائل

چند برس پہلے جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی کا ایک کیس سامنے آیا تھا اور اب ملتان میں تھانہ مظفر آباد میں بھی اسی سے ملتا جلتا ایک اور شرمناک واقعہ سامنے آیا ہے‘ اس واقعے میں بھی علاقے کے چند لوگوں پر مشتمل ایک خود ساختہ پنچایت نے ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کے بدلے میں زیادتی کے مبینہ ملزم کی بہن کے ساتھ زیادتی کرنے کا فیصلہ دیا‘ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تھانہ مظفر آباد کے تمام عملے کو معطل کر دیا ہے جب کہ سی سی پی او ملتان کو ان کے عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہےْ

ادھر میڈیا کی اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی اس واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ زیادتی کے مرکزی ملزمان سمیت 24پنچایتیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس قسم کے شرمناک واقعات سے ہمارے ملک کے بعض پسماندہ ، نیم قبائلی اوردیہی معاشرے کی اخلاقی  پستی آشکار ہوتی ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ بھری پنچایت میں کمسن لڑکی پر مجرمانہ حملے کا حکم دیا گیا تو کیا وہاں  ایک بھی ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جو اس شیطانی حکم پر احتجاج کرتا اور مزاحمت کرتا۔ مختاراں مائی کے ساتھ بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا تھا جس کی گونج بیرونی دنیا میں بھی سنی گئی اور پاکستان کے معاشرتی نظام پرا نگلیاں اٹھائی گئیں۔

اب مختاراں مائی کا ایک بیان منظر عام پر آیا ہے ک اگر اس کے مجرموںکوعبرت ناک سزا دے دی جاتی تو ان شرمناک واقعات کا سلسلہ رک سکتا تھا۔ اس حوالے سے ذمے دار افراد کی طرف سے اغماض برتنے کی وجہ سے ایسی برائیاں جن کا سختی سے قلع قمع کیا جا سکتا ہے مگر غفلت برتنے کے نتیجے میں برائی پہلے سے سوا ہو جاتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس واقعے کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کرائی جائے اور اس کیس کے ملزموں اور زیادتی کا حکم دینے والے پنچایتیوں کو قانون کے مطابق زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے‘ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں پنچایتیوں اور جرگوں کے انعقاد کو ریگولیٹ کیا جائے تاکہ غیرقانونی پنچایتیوں اور جرگوں کے انعقاد کو روکا جا سکے۔

اس وقت ہو یہ رہا ہے کہ کسی بھی علاقے یا گاؤں میں چند لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اسے پنچایت کا نام دے دیا جاتا ہے ‘اس قسم کی خود ساختہ پنچایتوں کے اکثر فیصلے ملک و قوم کے لیے بدنامی اور شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ پنچایتوں اور جرگوں کے نظام کو سرکاری سطح پر ریگولیٹ کیا جائے تو خود ساختہ پنچایتوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔

پاکستان کے تمام علاقوں میں خواتین کا احترام کیا جاتا ہے‘خواتین کے حوالے سے فیصلہ کرتے ہوئے بھی احترام کے رشتے کو سامنے رکھا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ملک کے بعض حصوں سے ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جس سے پوری قوم کو شرمندگی اور ندامت کا شدید احساس ہوتا ہے۔ ملتان کے اس واقعے کو ایک مثال بنانا چاہیے اور اس کے واقعے کے ذمے داروں کو کڑی سزا ملنی چاہیے اور اس معاملے میں کسی قسم کی مصلحت یا دباؤ کو خاطر میں نہیں لایا جانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔