ہندی کو بھارت کی قومی زبان بنانے کا مسئلہ

کلدیپ نئیر  جمعـء 28 جولائی 2017

جب بھی ایک ریاستی زبان قومی سطح تک پھیلنے کی کوشش کرتی ہے تو فطری طور پر اس کی مدافعت کی جاتی ہے۔ دونوں کی حدود واضح ہیں، ایک ریاست تک محدود رہتی ہے جب کہ دوسری کے لیے پورا ملک اس کے پھیلاؤ کا نشانہ ہوتا ہے۔ ریاست کے اندر جو انتہا پسند عناصر ہوتے ہیں وہ اس کو قبول نہیں کرتے یا اس انداز سے قبول نہیں کرتے جس طرح قبول کیا جانا چاہیے۔

اس ضمن میں کوئی مقابلہ یا مسابقہ نہیں ہوتا۔ ایک علاقائی مسئلہ ہے اور دوسرا قومی۔ ہندی زبان کو آئین ساز اسمبلی نے قومی زبان قرار دیا تھا۔ اس ضمن میں جو پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی تھی اس میں ہندی نہ بولنے والی ریاستوں کے نمایندے بھی شامل تھے۔ اس میں ایک بار پھر یہ واضح کیا گیا کہ ہندی قومی زبان ہے اور انگریزی سے ہندی میں تبدیلی کب ہو گی اس کا فیصلہ وقت اور حالات خود کریں گے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ زبان کے مسئلے کو ایک بار پھر اچھالا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے بعض لوگ تو بھارت کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگا رہے ہیں اور علاقائی قسم کے مطالبے سر اٹھا رہے ہیں۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔ ہندی کو قومی زبان کے طور پر آئین ساز اسمبلی نے اختیار کیا تھا جب کہ اس کے بارے میں یہ غلط تاثر دیا جا رہا ہے کہ اس کو صرف ’ایک‘ کی اکثریت سے سب پر ٹھونسا گیا ہے۔ یہ اخلاقی بحث زبان کے بارے میں نہیں بلکہ اعدادوشمار کے بارے میں شروع ہوئی۔

آج سرکاری کارروائی اور زیادہ تر دوسرا کام بھی ہندی زبان میں کیا جا رہا ہے جس کو ہندی نہ بولنے والے مشکل محسوس کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین کی تشکیل کے دوران سب سے زیادہ بحث مباحثہ زبان کے مسئلے پر ہی ہوا اور قومی زبان مقرر کرنے کا فیصلہ دو اہم فریقوں نے کیا جن میں سے ایک شمالی ہند کا فریق تھا جو ہندی زبان کو قومی زبان بنانے کا خواہاں تھا اور دوسرا جنوبی ہند کا کیمپ جو یہ نہیں چاہتا تھا کہ ہندی زبان ان پر مسلط کی جائے کیونکہ یہ ان کی زبان نہیں تھی۔

جب ہندی کیمپ نے اپنی عددی برتری کی بنا پر ہندی کو قومی زبان بنانے پر اصرار کیا مگر تامل کیمپ نے نہ صرف اس کو سرے سے مسترد کر دیا بلکہ ایک معروف تامل لیڈر نے عددی برتری کا مذاق اڑاتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اعداد و شمار کی برتری ہی معیار ہے پھر آپ بے شک مور کے بجائے کوے کو قومی پرندہ قرار دے لیں۔ بڑے سخت بحث و مباحثے کے بعد آئین ساز اسمبلی نے حتمی طور پر ہندی زبان کے قومی زبان ہونے کا اعلان کر دیا جس کا اسکرپٹ دیوناگری ہو گا۔

جب کہ یہ شق بھی شامل کی گئی کہ انگریزی آیندہ 15سال تک سرکاری زبان کے طور پر استعمال ہوتی رہے گی۔ زبان کو نافذ کرنے کے لیے جو کمیٹی قائم کی گئی تھی اسے چند برس کے بعد ہی زمینی حقائق کا اندازہ ہو گیا اور اس بات کا احساس ہو گیا کہ صرف 15سال کا عرصہ ہندی زبان کو قومی سطح پر نافذ کرنے کے لیے کافی نہیں اور اتنے عرصے میں اکیلی ہندی واحد قومی زبان کے طور پر رائج نہیں ہو سکے گی بلکہ اس کے لیے مزید وقت درکار ہو گا حتی کہ سی راج گوپال اچاریہ جو کہ شروع ہی سے ہندی کو قومی زبان بنانے کے حق میں تھے اور انھوں نے 1937ء میں مدراس کی حکومت تشکیل دیتے وقت ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دیدیا لیکن اسی دوران ہندی کے خلاف اختلافات شروع ہو گئے کہ اسے قومی زبان نہیں بنایا جا سکتا۔

جب گووند بالابھ پنت وزیر داخلہ تھے اور ان کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا تھا جس میں میں بھی شریک تھا۔ اس وقت میں انفارمیشن افسر تھا۔ جب اجلاس شروع ہوا تو انھیں محسوس ہوا کہ ہندی نہ بولنے والے اراکین نے آستینیں چڑھا لی ہیں اور وہ اس مسئلے کے شدت سے مخالف ہیں چنانچہ پنت کو صورت حال قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا اور کہنا پڑا کہ اس پر بات آیندہ کے اجلاس میں ہو گی۔

وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے ہندی نہ بولنے والے لوگوں کو یہ ضمانت دی کہ زبان کی تبدیلی صرف اس وقت عمل میں لائی جائے گی جب سب لوگ اس کے لیے تیار ہونگے۔ نہرو کے جانشین لال بہادر شاستری نے اس حوالے سے پارلیمنٹ میں مسودہ قانون پیش کیا جب کہ پارلیمنٹ نے ہندی نہ بولنے والے عوام کو یہ ضمانت دی کہ ان کی مشکل کا بطور خاص خیال رکھا جائے گا۔ پارلیمنٹ اس مسئلے پر بہت حساس ہے اور وہ کوئی ایسا قدم اٹھانا نہیں چاہتی جس کی ہندی نہ بولنے والے لوگ توثیق نہ کریں۔ لیکن بی جے پی حکومت کی طرف سے ہندی کی ترویج کے اعلان نے پنڈورا بکس کھول دیا ہے اور پرانے زخم ہرے کر دیے ہیں۔

سوشل میڈیا میں بھی زبان کے حوالے سے بحث و مباحثہ شروع ہو چکا ہے جب کہ شہریوں میں اس بات پر عمومی اتفاق ہے کہ کسی زبان کو بالجبر مسلط نہیں کرنا چاہیے۔ جنوب کی زیادہ ریاسیتں جن میں تامل ناڈو بالخصوص شامل ہے وہ ہندی زبان کی شدت سے مخالفت کر رہی ہیں۔

بی جے پی ملک میں نرم ہندوتوا پھیلا رہی ہے جس کے ساتھ ہی ہندی زبان کی بھی ترویج ہو رہی ہے۔ وزیراعظم مودی کو ہندی زبان بہت پسند ہے یہی حال ہندی بولنے والی اکثریتی ریاستوں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندی نہ بولنے والی ریاستیں اپنی زبان کا حاسدانہ انداز میں تحفظ کر رہی ہیں۔ چونکہ ملک نے لسانی فارمولا اختیار کر لیا ہے۔

انگریزی‘ ہندی اور علاقائی زبان۔ تو ہندی بولنے والی ریاستیں اس بات پر خوش ہیں کہ ہندی ان کی علاقائی زبان بھی ہے اور وہ انگریزی اور ہندی دونوں زبانوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ ہندی کے بارے میں متعصبانہ رویہ رکھنے والے جنہوں نے قبل ازیں کسی تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا تھا وہ اب خاموش ہو گئے ہیں کیونکہ ہندی کو ملک بھر میں لازمی مضمون کا درجہ مل گیا ہے۔

اگر آج نہیں تو کل آیندہ آنے والی نسلیں بھی ہندی سیکھ لیں گی حتیٰ کہ جنوبی ہند کے لوگوں کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ قومی زبان سے مفر ممکن نہیں لہذا انھوں نے بھی اپنے بچوں کو ہندی پڑھانا شروع کر دی ہے۔ سرکاری فائلوں پر پہلے ہندی میں نوٹ لکھے جاتے ہیں۔ جو ایسا کرتے ہیں ان کے ذہن میں ہے کہ ہندی کو قومی درجہ ملنے ہی والا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ ہندی میں لکھے گئے نوٹس کا انگریزی میں ترجمہ بھی کر دیتے ہیں۔ اس سے سب کا مقصد حل ہو جاتا ہے لہٰذا حکومت کے لیے کوئی سخت قدم اٹھانے کا جواز باقی نہیں رہتا۔

اگر صورتحال کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو حالات بتدریج بہتر ہو جائیں گے۔ ہندی پہلے ہی ملک میں رائج ہے۔ انتہا پسندوں کی طرف سے تھوڑے سے تحمل کی ضرورت ہے اور آر ایس ایس ایسا کر رہی ہے۔ مودی ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹرز میں آتے جاتے رہتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔