بلدیاتی ملازمین کے پنشن و واجبات کا مسئلہ

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 28 جولائی 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں جہاں ہر چیز مہنگی ملتی ہے، وہیں انصاف کو بھی اتنا مہنگا بنادیا گیا ہے کہ وہ غریب عوام کی دسترس سے باہر ہوجاتا ہے۔ غریب طبقات کی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ کسی ادارے یا فرد کے سامنے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی داستان پرالم بھی نہیں سناسکتے، ذمے دار لوگ غیر ذمے دارانہ کاموں میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس مظلوم لوگوں کی فریاد سننے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ ایسے مظلوم لوگوں میں بدترین مظالم کا سامنا کرنے والے وہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین شامل ہیں جنھیں ریٹائر ہوئے برسوں گزر گئے ہیں لیکن نہ ان کی پنشن جاری کی جا رہی ہے نہ انھیں ان کے واجبات ادا کیے جا رہے ہیں۔

کے ایم سی ایک سرکاری ادارہ ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ 80 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں، ایسے ادارے موجود ہیں جہاں ملازمین کی تاریخ ریٹائرمنٹ سے پہلے ان کے پنشن اور واجبات کے کاغذات تیار کردیے جاتے ہیں اور جیسے ہی کوئی ملازم ریٹائر ہوتا ہے، اسے پنشن کی ادائیگی شروع ہوجاتی ہے اور واجبات ادا کردیے جاتے ہیں۔ لیکن کے ایم سی اور ڈی ایم سیز ایسے ادارے ہیں جن کے ملازمین ریٹائرڈ ہونے کے بعد برسوں سے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔

اپنی پنشن اور گریجویٹی کے حصول کے انتظار میں کئی ملازمین دنیا سے جا چکے ہیں اور کئی معذوری کا شکار ہوگئے ہیں اور سیکڑوں ملازمین نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوکر ایک اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔ کے ایم سی میں کوئی ایک بھی ایسا شریف اور ذمے دار افسر موجود نہیں جو ان مظلوموں کی داد رسی کرے۔ ہمارے میئر وسیم اختر شہر کے مسائل میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ انھیں ریٹائرڈ ملازمین کی حالت زار پر توجہ دینے کی فرصت نہیں۔

ہر ماہ اپنی تنخواہیں لے کر اپنا اور اپنے خاندان کا بہ مشکل گزارا کرنے والوں کی آمدنی ریٹائرمنٹ کے ساتھ اچانک اس طرح بند ہوجاتی ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ ریٹائرڈ ملازمین اپنی زندگی کے 40-30 سال سرکاری ملازمت میں گزارنے کے بعد اس قابل نہیں رہتے کہ وہ کوئی دوسری ملازمت کرسکیں ویسے بھی 40-30 سال ملازمت کرنے کے بعد ملازمین کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ پرسکون اور آرام دہ زندگی گزاریں ایسی پرسکون زندگی کے بجائے انھیں پنشن اور واجبات کے حصول کے لیے در در دھکے کھانے اور ذلت سہنا پڑتا ہے۔

کے ایم سی صوبائی حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے، اس کی اپنی اتنی آمدنی نہیں کہ وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن ادا کرسکے۔ اسے اپنی ضروریات کے لیے صوبائی حکومت کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور بدقسمتی سے صوبائی حکومت اور کے ایم سی کے درمیان اختیارات کے مسئلے پر سخت کھینچا تانی کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کے آئین کے تحت اور دنیا کی جمہوری روایات کے مطابق بلدیاتی اداروں کو انتظامی اور مالی اختیارات حاصل ہونے چاہئیں لیکن ہماری جمہوریت کے اصول ایسے نرالے ہیں کہ عشروں سے بلدیاتی ادارے اپنے انتظامی اور مالی اختیارات سے محروم ہیں، اس ناانصافی کی وجہ سے بلدیاتی ملازمین بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔

بلدیہ میں ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے دوسرے اداروں کی طرح ٹریڈ یونین بھی موجود ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ریٹائرڈ ملازمین پر ہونے والے مظالم کا ازالہ ٹریڈ یونین کی ذمے داری میں شامل ہے یا نہیں لیکن بہرحال ٹریڈ یونین کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ ریٹائرڈ ملازمین پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ کرنے کے لیے آگے بڑھے۔

دوسرے اداروں میں ریٹائرڈ ملازمین کی اپنی تنظیمیں ہوتی ہیں جو ریٹائرڈ ملازمین کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن کے ایم سی ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں ریٹائرڈ ملازمین ہر طرح سے لاوارث نظر آتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں جو کرپشن کا کلچر عام ہے کے ایم سی بھی اس سے بچی ہوئی نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر کام کے ایک باضابطہ ریٹ مقرر ہیں جو ریٹائرڈ ملازم یہ قیمت ادا نہیں کرتا اسے برسوں دھکے کھانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

ایک زمانے میں کے ایم سی میں ایک طاقتور اور فعال ٹریڈ یونین ہوا کرتی تھی جس کی قیادت کنیز فاطمہ کیا کرتی تھیں، اس زمانے میں کے ایم سی کی ٹریڈ یونین نہ صرف کے ایم سی کے ملازمین کے لیے جدوجہد کرتی تھی بلکہ دوسرے اداروں کے ملازمین کے حقوق کی جدوجہد میں بھی شامل رہتی ہے۔ خدا معلوم یہ یونین کیوں فعال نہیں؟

جن ملکوں میں قانون گونگا بہرا اور بے زبان ہوتا ہے یا ظالموں کا محافظ ہوتا ہے، ان ملکوں میں انصاف کا ادارہ ہی مظلوموں کا آخری سہارا ہوتا ہے۔ اگرچہ کہ ایک عام آدمی کے لیے اعلیٰ عدلیہ تک انصاف کے حصول کے لیے پہنچنا آسان نہیں لیکن ہماری عدالت عظمیٰ انفرادی مظالم کے خلاف بھی ازخود نوٹس لے کر مظلوم کو انصاف دلانے کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ کے ایم سی کے ریٹائرڈ ملازمین کا مسئلہ ہزاروں ریٹائرڈ ملازمین کا مسئلہ ہے جو بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کیا عدالت عظمیٰ ان مظلوم اور بے آسرا ملازمین کے ساتھ ہونے والے مظالم کا نوٹس لے کر ان کی پنشن جاری کرنے اور واجبات ادا کرنے کا حکم دے کر ہزاروں ریٹائرڈ ملازمین کی دادرسی کرے گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔