کردستان ایک نیا بحران

انیس باقر  جمعـء 28 جولائی 2017
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

یہ عجیب بات ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد فاتحین یا شکست خوردہ قوتیں نئی مملکتیں بنانے میں مصروف ہوگئے۔ جہاں مضبوط لیڈرشپ تھی اس نے استعماری قوتوں کے سہارے ان کی پسندیدہ حکومتیں قائم کرلیں یا عوام کی تائید سے نئے ممالک قائم کرلیے، مگر کرد وہ نسلی گروہ ہے جو ترکی سے آرمینیا تک آباد ہے مگر کوئی مکمل ریاست اب تک قائم کرنے میں ناکام رہے۔

اس کی دو وجوہ ہیں ایک تو ان کی آبادی کا تناسب بہت کم ہے۔ دویم یہ کم آبادی بہت دور تک پھیلی ہوئی ہے، اگر ہم موجودہ کردوں کا تخمینہ لگائیں تو یہ پچاس لاکھ کے قریب ہے جو ہزاروں میل کے وسیع علاقے میں آباد ہیں۔ یعنی ترکی، شام ، ایران، عراق آذربائیجان، جرمنی، آرمینیا، لیکن ان کا اصل مسکن عراق ہی تھا، خصوصاً شمالی علاقے میں جہاں آئل فیلڈ ہیں مگر ترکی، ایران ، عراق کے علاقے میں 30 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی ہے۔ اور حالیہ داعش نکالو تحریک میں کردوں نے زبردست مزاحمت کی اور ان کے مرد و زن بے جگری سے لڑے اور داعش کی افواج کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جن علاقوں سے انھوں نے داعش کو نکال باہر کیا، وہ شام کے علاقے تھے جنھیں شامی افواج نہ نکال سکیں کیونکہ شامی افواج داعش اور النصرہ سے دوسرے اہم فرنٹ حلف پر مصروف تھیں اور اس علاقے پر دمشق کو براہ راست ہٹ کر رہا تھا۔

کرمان شاہ اور ہمدان جو ایران کے علاقے ہیں یہاں بھی کرد چند لاکھ ہیں مگر اب وہ گزرتے وقت میں ایرانی بن گئے۔ خصوصاً صدر احمدی نژاد کے اچھے برتاؤ اور غریب پروری کے نتیجے میں لہٰذا ایران میں کرد مومنٹ اپنا وجود کھو بیٹھا ویسے بھی ہمدان اور کرمان شاہ میں جو کرد آباد ہیں،  ان کی اکثریت اہل تشیع ہے اور یہ زیادہ تر وہ لوگ تھے جو صدر صدام حسین کے مظالم کا شکار ہوئے، نائن الیون سے بہت قبل عراق میں کردوں کی ایک زبردست بغاوت ہوئی خصوصاً 1980 کے قرب و جوار میں جس میں وہ کرد جو بغداد کے قرب و جوار میں رہتے تھے (وکی پیڈیا) اور یہ سلسلہ کافی طویل عرصے پر محیط رہا۔اور یہ سلسلہ 1990 تک چلتا رہا جس میں بلاتفریق شیعہ سنی عام کردوں کو ہلاک کیا جاتا رہا۔

عراق پر نائن الیون کے بعد جو حملہ صدر بش نے کیا گوکہ روس ایک سیکولر ملک اور تھوڑا بہت صدام حسین کی پالیسیوں کے قریب تر تھا اور دیگر ممالک بھی دم بہ خود رہے اور صدام حسین کا مجسمہ جب عراقیوں نے گرایا تو اس سے عوامی نفرت کا اظہار ہوتا رہا۔ گوکہ عراق پر غیرملکوں کا حملہ ہوتا رہا پھر بھی عراق جنگ میں عوامی مزاحمت دیکھنے میں نہ آئی۔ اس کے برعکس پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں عراقی حکومت کے خلاف جذبہ دیکھنے میں آیا۔ بہرحال کردوں میں خصوصی طور سے صدام حسین کی قیادت سے نفرت رہی ہے اور صدام حسین کے پڑوسی ایران سے ان کی برسہا برس جنگ چلتی رہی اور خلیجی ممالک بھی ان کے خلاف تھے۔

صدام کی ڈکٹیٹر شپ تو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ختم کردی مگر جو خلا پیدا ہوا اس میں امریکا نواز اسلامی قوتوں نے سر اٹھایا، شام، لیبیا میں عرب انتہا پسندوں کی یلغارکو بغاوت کا نام دیا گیا اور عراق پر مملکت اسلامیہ کا نام لے کر رحم سے عاری، انتہا پسندوں نے بڑی سرعت سے عراق کی حکومت تو ختم ہوچکی تھی ۔ابوبکر البغدادی نامی شخص نے اپنا فلسفہ پھیلانا شروع کیا، النصرہ اور دیگر اسلامی ناموں کے حملہ آوروں کو تیار کیا۔ اسلام میں رحم، عدل، انصاف، درگزر، محبت، سلامتی کو ہٹا کر اپنے قوانین نافذکرنے کی کوشش کی۔

اس کا اصل نشانہ شام اور عراق کے عوام بنے، لاکھوں کی تعداد میں بیوائیں،کم سن یتیم بچے، لاکھوں معذور لوگ اس جنگ کا ثمر تھا۔ بڑی مشقت سے عوام نے یہ دن کاٹے موصل جو کبھی 40 لاکھ کا شہر تھا۔ محض چند لاکھ لوگ وہاں رہ گئے گھر گھر، دست بہ دست لڑائی ہوئی تو بغدادی کا خاتمہ ہوا،  بلکہ مرہم پٹی ان داعشی زخمیوں کی اسرائیل میں ہوتی رہی۔ اس لیے اسرائیل کے اس حصے کا راستہ جو شام سے قریب تر تھا آخری وقت تک وہ داعش کے قبضے میں رہا اور امریکی جہازوں کی اس علاقے میں بمباری رہی بہرحال اس جنگ میں کردوں نے اپنا مثبت کردار ادا کیا اور بڑی جانفشانی سے داعش کو پسپائی پر مجبور کیا۔

ظاہر ہے یہ علاقہ جو جغرافیائی طور پر شام کا حصہ تھا اس پر اب کردوں کا قبضہ ہوگیا ، چونکہ یہ علاقہ ترکی کا بارڈر ہے اور شام کا آخری حصہ ہے اس لیے ترکی کو اس علاقے پر کردوں کا قبضہ ہونے سے تکلیف ہے کیونکہ ترکی میں کئی لاکھ کرد موجود ہیں اور کرد ایک آزاد ریاست کے لیے تقریباً 48 برس سے کوشاں ہیں لہٰذا کردوں کے اس علاقے پر قبضے نے دونوں ملکوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ چونکہ یہ علاقہ جو کبھی داعش کے قبضے میں تھا، آج وہ کردوں کے پاس ہے اور ان کے سامنے ترکی ہے جہاں پر کرد ایک بڑی ریاست یعنی آزاد کردستان کے خواہش مند ہیں اور الحاق کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ ترکی کے لیے ایک خطرہ ہیں، ترکی کے وزیر اعظم ہزاروں مرتبہ کردستان کی آزاد ریاست کے خلاف آواز بلند کرچکے ہیں۔ ایک ایسی قوم جو ترکی کے بارڈر سے آزر بائیجان تک پھیلی ہوئی ہے مگر زمین نے اس کو ہر طرف کے بارڈر سے گھیر رکھا ہے جس کو لینڈ لاک علاقہ کہہ سکتے ہیں اس کے پاس کوئی مضبوط آزاد ریاست نہیں ہے۔

پہلی مرتبہ مصطفیٰ برزانی نے 1968 میں تمام کردوں کی ایک ریاست کا تصور پیش کیا ورنہ ٹکڑوں میں بٹے ہوئے کرد جدوجہد کرتے رہے، مگر ہزاروں میل کے بارڈر پر آباد کردوں کو منظم کرنا کوئی آسان کام نہیں خصوصاً ایسے دور میں جب روابط کے آلات موجود نہ تھے اور لیڈر کو خود ذاتی طور پر جاکر رابطے کرنا ہوتا تھا۔ مگر یہ دور بھی دو دھاری تلوار ہے جیساکہ تنظیم آسان ہے تو اس کو گرفت میں لانا بھی بہت آسان ہے۔

بہرصورت مصطفیٰ برزانی نے کردستان ڈیموکریٹک پارٹی قائم کی، ترکی نے اس کو دہشت پسند تنظیم کا لقب دیا ہے (PKK) نظریاتی طور پر سوشلسٹ ہے مگر تعجب کی بات ہے کہ شام کی جنگ بند ہونے کے بعد ترکی اور شام میں جو رنجش تھی ، اس میں یکسر کمی واقع ہوگئی۔ اس کی وجہ صورت حال ایسی ہوچکی ہے کہ ترکی اور شام کے مفادات یکساں ہوگئے ہیں۔

یعنی دونوں ملکوں کو اب مل کر چلنا ہوگا اس لیے داعش کے جو بچے کچھے فوجی شام کے ان علاقوں میں موجود ہیں جو شمال میں رہ گئے ہیں اب ان کا وجود بھی خطرے میں ہے اور سعودی عرب بھی ان کی مدد سے قاصر ہے اور امریکا نے بھی اس موقعے پر ایک جوا کھیلا ہے کیونکہ اب امریکا نے کردوں کو بھاری اسلحے سے لیس کرنا شروع کردیا ہے جس سے امریکا اور ترکی کے سیاسی تعلقات میں واضح کشیدگی سامنے آچکی ہے جب کہ ترکی کردوں کی ریاست کے خلاف تو تھا ہی اب امریکا کی طرف سے بڑھتے ہوئے رابطے بس نام کا نیٹو رہ گیا ہے۔

قطر کے معاملے میں امریکا اور سعودی عرب کے رشتے کی دوری تو نمایاں ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی چال نے جو کردوں کا پتہ کھیلا ہے دیکھیے یہ کس سمت جاتا ہے۔ اس مسئلے پر عالمی سطح پر یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ وزیر اعظم عابدی کو داعش کا خاتمہ ایک نوید ہے مگر امریکا کا کھل کر کردوں کی حمایت ایک بڑے جھٹکے سے کم نہیں کیونکہ عراقی آئل فیلڈ زیادہ تر کرد علاقے میں ہی موجود ہیں اور امریکا کی یہ مہربانی کسی نئے بحران کا اشارہ ہے۔ اس علاقے کے انتظامات چلانے کے لیے عراقی کردستان میں ایک علاقائی حکومت موجود ہے باقی ماندہ سیاسی مزاحمت کے لیے شمالی علاقے میں کے پی پی اور پیش مرگہ عسکری محاذ پر عمل پیرا ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔