خلفائے راشدینؓ کی نماز

علامہ محمد تبسّم بشیر اویسی  جمعـء 28 جولائی 2017
قریش نے اس شرط پر امان قبول کرلی کہ حضرت ابوبکرؓ کھلے طور پر نماز اور قرآن نہ پڑھیں۔ فوٹو؛ فائل

قریش نے اس شرط پر امان قبول کرلی کہ حضرت ابوبکرؓ کھلے طور پر نماز اور قرآن نہ پڑھیں۔ فوٹو؛ فائل

 حضرت ابوبکر صدیقؓ کی نماز : آپؓ کی نماز کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ آپؓ ابتدائی زمانے میں بھی اس سوز و گداز کے ساتھ نماز پڑھتے اور تلاوت کرتے کہ قریش کے بیوی بچے متاثر ہوکر آپؓ کے گرد جمع ہو جاتے اور قریش کو اندیشہ ہوتا کہ کہیں ان کے متعلقین اپنے دین سے منحرف نہ ہوجائیں، اس لیے آپ کو نماز پڑھنے سے روکتے اور اذیت پہنچاتے۔

حضرت ابوبکرؓ کو اپنی نماز اور تلاوت اس درجہ عزیز تھی کہ آپؓ نے قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مکہ سے حبشہ ہجرت کرنے کے لیے سوچا۔ آپؓ حضور اکرمؐؐ سے اجازت لے کر حبشہ جا رہے تھے کہ راستے میں قارہ کے رئیس ابن دغنہ سے ملاقات ہوگئی۔ وہ آپؓ کو مکہ واپس لایا اور آپؓ کے فضائل بیان کرکے قریش کو ملامت کی کہ تم نے ایسے شریف اور نیک دل انسان کو ترک وطن پر مجبور کردیا۔ اس کے ساتھ ہی ابن دغنہ نے اعلان کردیا کہ ابوبکرؓ میری امان میں ہیں۔ قریش نے اس شرط پر امان قبول کرلی کہ حضرت ابوبکرؓ کھلے طور پر نماز اور قرآن نہ پڑھیں۔

حضرت ابوبکرؓ نے دروازے پر ایک مسجد بنالی اس میں نماز اور قرآن پڑھنے لگے۔ اب پھر وہی حال تھا کہ آپؓ نماز پڑھتے اور تلاوت کرتے تو قریش کے بیوی بچے فرط اثر سے کھنچ کر آپؓ کے پاس جمع ہو جاتے قریش نے ابن دغنہ سے شکایت کی کہ ابوبکرؓ نے اپنے دروازے پر مسجد بنالی ہے اس میں بلند آواز سے نماز اور قرآن پڑھتے ہیں ۔ ہمیں اپنے متعلقین کے گم راہ ہو جانے کا اندیشہ ہے یا تو ابوبکرؓ شرائط کی پابندی کریں یا پھر تم ان کی ذمے داری سے علیحدہ ہوجاؤ۔ ابن دغنہ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا تو آپؓ نے جواب دیا تم میری حفاظت کی ذمے داری سے بَری ہو۔ میں اللہ کی حفاظت میں راضی اور خوش ہوں۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کا نماز کے ساتھ یہ ذوق و شغف تمام عمر قائم رہا۔ اکثر دن کو روزے رکھتے اور راتیں نماز میں گزارتے۔ خشوع و خضوع کا یہ حال تھا کہ نماز میں لکڑی کی طرح بے حس و حرکت نظر آتے، روتے اتنے کہ ہچکی بندھ جاتی۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے حضرت صدیق اکبرؓ سے نماز سیکھی اور انہوں نے حضور اکرمؐ سے یعنی جس طرح حضور اکرمؐ نماز پڑھتے تھے اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نماز پڑھا کرتے تھے۔ نماز پڑھتے وقت حد درجے کی انکساری ہوتی۔

٭ حضرت عمر فاروقؓ کی نماز : حضرت عمر فاروقؓ بہت بارعب جلیل القدر صحابی تھے۔ آپؓ کی نماز کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپؓ رات بھر جاگ کر بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتے جب صبح ہو تی تو اپنے گھر والوں کو جگاتے اور یہ آیت پڑھتے : ’’ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر جمے رہو۔‘‘ ( سورہ طٰہٰ )

آپؓ نماز میں ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کی ہولناکی کا ذکر یا خدا کی عظمت و جلالت کا بیان ہوتا اور ان چیزوں سے آپؓ اس قدر متاثر ہوتے کہ روتے روتے ہچکی بندہ جاتی۔ حضرت عمر فاروقؓ ایک بار نماز پڑھ رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے : ’’ بلا شک و شبہ تیرے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا، اس کا کوئی دفع کرنے والا نہیں۔‘‘ تو اس قدر روتے رہے کہ آنکھوں پر ورم آگیا۔ کنزالاعمال میں ہے کہ ایک نماز میں آپ نے یہ آیت پڑھی : ’’جس روز گناہ گار لوگ زنجیروں میں جکڑے ہوئے دوزخ کی ایک تنگ جگہ میں ڈال دیے جائیں گے تو موت موت پکاریں گے۔‘‘

یہ آیت پڑھ کر آپؓ پر ایسا خوف و خشوع طاری ہوا اور آپؓ کی حالت اتنی غیر ہوئی کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم نہ ہوتا کہ آپؓ پر اس طرح کی آیتوں کا ایسا ہی اثر ہوا کرتا ہے تو سمجھتے کہ آپؓ واصل بہ حق ہوگئے۔

حضر ت عبداللہ بن صائب کہتے ہیں کہ ایک بار حضرت عمرؓ کو عشاء کی نماز میں کسی وجہ سے دیر ہوگئی اس لیے میں نے نماز شروع کی آپ بعد میں آئے اور نماز میں شریک ہوگئے۔ میں سورۂ ذاریات پڑھ رہا تھا۔ جب میں نے یہ آیت پڑھی : ’’ تمہارا رزق آسمان میں ہے اور تم سے اس کا وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘ آپؓ کی زبان سے بے اختیار ’’ میں اس پر گواہی دیتا ہوں ‘‘ نکل گیا اور آواز اتنی اونچی تھی کہ مسجد گونج گئی۔

صائب بن یزید اپنے باپ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ قحط کا زمانہ تھا۔ میں نے آدھی رات کو دیکھا حضرت عمرؓ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے اور دعا میں بار بار کہہ رہے تھے۔ اے اللہ ہم لوگوں کو قحط سے ہلاک نہ کر اس بلا کو ہم سے دور کردے۔

٭ حضرت عثمان غنیؓ کی نماز : حضرت عثمانؓ دنیاوی اور تجارتی معاملات میں توجہ دینے کے باوجود بڑی انکساری اور خضوع سے نماز پڑھتے۔ جب آپؓ نماز میں ہوتے تو دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہوکر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے۔ حضرت عثمانؓ کو نماز سے خصوصی شغف تھا، لہٰذا آپؓ پوری توجہ سے نماز ادا کرتے۔

٭ حضرت علی المرتضیؓ کی نماز : حضرت علیؓ کے متعلق ایک راوی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ فجر کی نماز پڑھا کر دائیں جانب رُخ کرکے بیٹھ گئے۔ آپؓ کے چہرے سے رنج و غم ظاہر ہو رہا تھا۔ طلوع آفتاب تک آپؓ اسی طرح بیٹھے رہے۔ اس کے بعد بڑے دکھ کے ساتھ اپنا ہاتھ پلٹ کر فرمایا : اللہ کی قسم میں نے حضور اکرمؐ کے صحابہؓ کو دیکھا ہے آج اُن جیسا کوئی نظر نہیں آتا۔ ان کی صبح اس حال میں ہوتی کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہوتے، چہرے غبار آلود اور زرد ہوتے، وہ ساری رات اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں پڑے رہتے، کھڑے کھڑے قرآن مجید پڑھتے رہتے۔ حتیٰ کہ جب تھک جاتے تو کبھی ایک پاؤں پر سہارا دے لیتے اور کبھی دوسرے پاؤں پر گویا کہ وہ اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح جھومتے جیسے ہوا میں درخت حرکت کرتے ہیں اور اللہ کے خوف سے ان کی آنکھوں سے اتنے آنسو بہتے کہ ان کے کپڑے تر ہوجاتے تھے۔ مگر اب کے لوگ کیسے ہیں کہ غفلت میں رات گزار دیتے ہیں اور یاد الہٰی کی پروا نہیں۔

نماز کا وقت آتا تو حضرت علیؓ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا اور آپؓ پر لرزہ طاری ہو جاتا۔ ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ اے امیرالمومنینؓ آپ کا یہ حال کیا ہوجاتا ہے تو آپؓ نے فرمایا : کہ اللہ کی اس امانت کی ادائی کا وقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین اور پہاڑ پر پیش کیا تو ان سب نے اس بار کے اٹھانے سے ڈر کر انکار کردیا اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔

حضرت علیؓ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک مرتبہ ان کی ران میں تِیر گھس گیا تو لوگوں نے نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکل سکا ۔ آپس میں مشورہ کیا گیا کہ جب آپؓ نماز میں مشغول ہوں اس وقت تیر نکالا جائے۔ چناں چہ آپؓ جب نماز میں مشغول ہوئے اور سجدے میں گئے تو لوگوں نے اس کو زور سے کھینچ لیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آس پاس لوگوں کو دیکھا تو فرمایا کیا تم تیر نکالنے کے لیے آئے ہو، لوگوں نے عرض کیا کہ وہ تو ہم نے نکال بھی لیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ مجھے خبر تک نہیں ہوئی۔ اس واقعہ سے پتا چلتا ہے کہ آپؓ حالت نماز میں اللہ تعالیٰ کی طرف اتنے متوجہ ہوتے کہ آپؓ کو گرد و پیش کی کچھ خبر نہ رہتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔