تعلیم کے فضائل و آداب

مفتی محمد وقاص رفیع  جمعـء 28 جولائی 2017
’’ جہنم میں ایک وادی (جنگل) ہے جس سے خود جہنم ہر روز چار سو بار پناہ مانگتی ہے، اُس میں ریاکار علماء داخل ہوں گے۔‘‘ (مشکوٰۃ)۔ فوٹو: فائل

’’ جہنم میں ایک وادی (جنگل) ہے جس سے خود جہنم ہر روز چار سو بار پناہ مانگتی ہے، اُس میں ریاکار علماء داخل ہوں گے۔‘‘ (مشکوٰۃ)۔ فوٹو: فائل

علم انسانی زندگی کا وہ انمول زیور اور بیش قیمت دولت ہے کہ جس کی بہ دولت انسان حق و باطل، حلال و حرام، جائز و ناجائز اور صحیح اور غلط میں واضح فرق کرسکتا ہے۔ انسان کے پاس اگر علم ہے اور وہ اس عظیم الشان دولت سے مالا مال ہے تو پھر گویا اپنی زندگی کے سفر میں اُس نے اپنے ہاتھ میں مشعل راہ تھام رکھی ہے اور وہ اس راستے کے تمام نشیب و فراز، اُتار چڑھاؤ اور جملہ سفری صعوبتوں سے گزر کر بہت آسانی اور اطمینان کے ساتھ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جائے گا۔

لیکن اگر اس کے پاس علم نہیں ہے ور وہ اس دولت سے کلیتاً محروم ہے تو پھر اس کی مثال اُس اندھے شخص کی سی ہے جو رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بغیر کسی راہ بر کے اپنی منزل کی جانب ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے سفر کرنا شروع تو کردے لیکن راستے کے ہر خار، ہر روڑے، ہر موڑ اور ہر گڑھے سے اُس کا ضرور ٹکراؤ ہوگا اور اُسے ضرور ان سے اُلجھنا پڑے گا۔

علم، قرآن و حدیث کی مبارک اور رُوشن تعلیمات کے اُس مجموعے کا نام ہے کہ جس کی بہ دولت انسان اپنے حقیقی خالق و مالک اور اپنے پالنے والے کو پہچانتا ہے اور اس کی ذات کی معرفت حاصل کرتا ہے، تاکہ وہ اپنی حیاتِ مستعار اس کے احکامات اور حضور نبی کریمؐ کے مبارک طریقوں کے مطابق گزار کر دُنیا و آخرت کی بھلائیوں سے مالا مال ہوکر اللہ کریم کے حضور کام یاب بندہ بن کر پیش ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی کا پروانہ اُسے نصیب ہوجائے۔

قرآن مجید میں مختلف جگہ اللہ تعالیٰ نے علم والوں کا مقام و مرتبہ بیان فرمایا ہے۔

مفہوم : ’’ اللہ تعالیٰ تم میں سے اُن لوگوں کے درجے بلند کرتا ہے جو ایمان لائے اور جنہیں علم عطا کیا گیا۔‘‘ ( المجادلۃ )

مفہوم: (اے محمدؐ! ) آپ فرما دیجیے! کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں۔۔۔ ؟

اسی طرح احادیث شریف میں آتا ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں، میں علم بانٹنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطا فرمانے والے ہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم)

’’علم کا طلب کرنا ہر مسلمان (خواہ مرد ہو یا عورت دونوں) پر فرض ہے۔‘‘

’’ جب آدمی مر جاتا ہے تو اُس سے اُس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ، مگر تین اعمال ( کا ثواب) اُس سے منقطع نہیں ہوتا۔ اوّل صدقۂ جاریہ، دوسرے علم کہ جس سے لوگ منتفع ہوتے رہیں، تیسرے فرزندِ صالح کہ جو میت کے لیے دُعائے خیر کرتا رہے۔‘‘

(صحیح مسلم)

حضرت کثیر بن قیسؒ سے روایت ہے کہ میں دمشق کی مسجد میں حضرت ابودردا ؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور آکر عرض کی : ’’ اے ابودردا ؓ! میں مدینۃ الرسولؐ سے ایک صرف ایک حدیث سننے کے لیے تمہارے پاس آیا ہوں جس کی بابت مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے وہ حدیث نبی اکرمؐ سے روایت کی ہے اور کسی ضرورت سے تمہارے پاس نہیں آیا۔ حضرت ابودرداؓ نے فرمایا کہ ’’ بے شک میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص دین کا علم حاصل کرنے کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے راستوں میں سے کسی راستے پر اس کو چلائیں گے ، اور فرشتے طالب علم کی خوش نودی کی خاطر اپنے پَر ان کے لیے بچھاتے ہیں اور عالم کے لیے زمین و آسمان کی مخلوقات حتیٰ کہ پانی کے اندر مچھلیاں تک استغفار کرتی ہیں اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسا کہ چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہوتی ہے اور علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء اپنے ترکے میں درہم و دینار نہیں چھوڑتے بل کہ وہ تو اپنے پیچھے علم چھوڑ کر جاتے ہیں، پس جس شخص نے علم حاصل کیا اُس نے بہت بڑی دولت حاصل کرلی۔‘‘

(ترمذی ، ابوداؤد، ابن ماجہ ، دارمی، مسند احمد)

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ’’ رات کا ایک گھڑی علم پڑھنا پڑھانا رات بھر عبادت کرنے سے افضل ہے۔ ‘‘ (مسند دارمی)

’’ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندے (عالم باعمل) کو جہنم میں داخل نہیں فرمائیں گے۔‘‘ (جامع الصغیر)

’’ تم اللہ تعالیٰ کو لوگوں کا محبوب بنا دو، اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنالیں گے۔‘‘ (کنز العمال)

’’ جو عالم اپنے علم پر عمل کرے اللہ تعالیٰ اس کو ایسے علم کا وارث بنادیں گے جس کو وہ نہیں جانتا۔‘‘ (یعنی اس کو علم کے اسرار و رموز سمجھا دیں گے جس سے اُس کے علم میں مزید ترقی ہوجائے گی) (حلیۃ الاولیاء)

رسولِ مقبول ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ تر و تازہ (خوش و خرم) رکھے اُس شخص کو کہ جس نے مجھ سے کچھ سنا پھر اُس کے آگے ویسا ہی پہنچادیا جیسا کہ اس کو سنا تھا، اس لیے کہ بہت سے وہ لوگ جن کو کلام پہنچایا جائے اُس کلام کے سننے والے سے اس کو زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔‘‘ (ترمذی ، ابن ماجہ)

’’ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب اُس عالم کو ہوگا کہ جس نے (دُنیا میں) اپنے علم سے نفع نہیں اٹھایا۔‘‘ (جامع الصغیر)

’’ جہنم میں ایک وادی (جنگل) ہے جس سے خود جہنم ہر روز چار سو بار پناہ مانگتی ہے، اُس میں ریاکار علماء داخل ہوں گے۔‘‘ (مشکوٰۃ)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ علم (حاصل کرنے کی ابتداء) پیر کے دن سے کیا کرو کہ اس سے علم حاصل کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔‘‘ (کنز العمال)

’’ جس نے کسی کو ایک آیت بھی کلام اللہ کی سکھا دی تو وہ سکھانے والا طالب علم کا آقا بن گیا۔‘‘ ( معجم طبرانی)

’’ جس عالم سے مسئلہ دریافت کیا جائے اور وہ بغیر کسی شرعی عذر کے اس کو چھپا لے اور بیان نہ کرے تو کل قیامت کے دن اُس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالے جائے گی۔‘‘ (مشکوٰۃ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔