کمزور شہادت

جاوید قاضی  ہفتہ 29 جولائی 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

اتنی نعرے بازی ہے، ہر طرف شوروغْل ہے۔ کورٹ کے باہر اکھاڑا سا لگا ہے۔ اْس اکھاڑے کے سامنے بے تحاشہ کیمرے جو سیدھا اْس اکھاڑے کے مناظر کو گھروں کے اندر پہنچاتے ہیں۔حقیقت دب سی گئی ہے اور بالآخر چوہدری نثار گھر کو رخصت ہوئے کہ اب سیاست اْن کے مزاج کے مطابق نہ رہی۔ چوہدری نثار کیا تھے؟

جنرل ضیاء الحق کی باقیات، آپ کے خیالات نے جو آج پاکستان ہے اْس کی نشاندہی کی تھی خیر مزاجاً آپ نرم گو، لبرل دشمن وغیرہ جیسی صفات سے جانے پہچانے جاتے تھے۔وہ جس پارٹی کو الوداع کہہ کر جارہے ہیں وہ  پارٹی خود بھی ضیاالحق کی باقیات کا تسلسل ہے اور آج ضیا الحق ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی سوچ سے رخصت، یا اگر کہیں کچھ باقی رہ جاتا ہے تو اصل میں یہ حکمران جماعت ہے جو کہ اِس تسلسل کی روحانی علمبردار ہے۔ حقائق بہت گڈمڈ سے ہوگئے ہیں۔

اتنی دھول اْڑی ہے کہ خبر ہی نہیں کہ قاتل کون مقتول کون؟ اصلی کیا اور نقلی کیا؟ سچ کیا اورجھوٹ کیا!بیانیے پر بیانیہ ہے۔ کل جنہو ں نے آرٹیکل62-63 پر اپنی سیاست چمکائی، آج جب اْس کی زد میں خود آئے تو چِلا اْٹھے۔ کل جو آمریت کے سائے، میں پھلے پھْولے آج وہ جمہوریت کے رکھوالے ہیں۔ بات یہاں تک آ نکلی ہے کہ اْن کو ذوالفقار علی بھٹو کا کیس بھی اپنے ہی مفاد میں نظر آیا اور وہ کورٹ کے باہر لگے ہوئے اِس اکھاڑے میں بار بار بھٹو کی پھانسی کو یاد کر کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ کیا  تاریخ کی ستم ظریفی ہے یہ! ڈر اب اِس بات کا ہے کہ کہیں یہ کل سقراط کی صفوں میں نہ کھڑے ہو جائیں۔

ذوالفقارعلی بھٹو کاکیس تاریخ کے عظیم MISCARRIAGE OF JUSTICE  کے کیسز میں سے ایک ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم زیادہ باریکیوں میں جائیںضروری ہے کہ ہم اْس قانونی نکتے کو بھی تشریح کی خاطر زیر بحث لائیں جس سے میں یہ ثابت کرسکوںکہ نہ یہ وہ سپریم کورٹ ہے اور نہ ہی نواز شریف کا کیس، بھٹو کے کیس سے مماثلت رکھتا ہے۔ وہ سرد جنگ کا زمانہ تھا، سی آئی اے کا ہمارے جیسے ملکوںپر راج تھا۔

چلی کے 1973 ALLENDEء، شیخ مجیب 1975ء، ذوالفقارعلی بھٹو1977ء اورایسے کئی شبِ خوں مارے گئے یا PNA کی تحریکیں ہوں، جو CIA  نے دنیا  میں برپا کیں۔ یہ تمام باتیں عالمی آشکار ہیں اور ریکارڈ کا حصہ ہیں اور کہیں شاید یاد پڑتا ہے HILLARY CLINTON نے اپنے وزیر خارجہ ہونے کی حیثیت میں اشارتاً اعتراف بھی کیا۔

میں یہ تمام  باتیںDOCTRINE OF DISTINGUISHING A CASE کے اصول پر اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کر رہا ہوں کہ میاں صاحب  نہ ہی آپ کے ساتھ وہ سب کچھ ہونے جارہا رہے جو بھٹو کے ساتھ ہو ا بلکہ ایک طرح سے دیکھا جائے تو شاید آپ کے ساتھ انصاف ہونے جارہا ہے۔ اِس لیگل نکتے کے تحت میں تفریق کرنا چاہتا ہوں، سرد جنگ کے اْس زمانے کی آج کے زمانے سے، لیگل فریم ورک آرڈر LFO کے تحت حلف اٹھانے والے اْس سپریم کورٹ کا، آج کی سپریم کورٹ سے، ذوالفقار علی بھٹوکے کیس کے حقائق سے نواز شریف کے کیس کے حقائق کا۔ تو سب سے پہلے نظر ڈالتے ہیں بھٹوکے کیس کے حقائق پر۔ایک ایسا کیس جس کی ایف آئی آر بہت سالوں  بعد دوبارہ رجسٹر ہوئی۔

کیس سیشن کورٹ میں چلنا تھا مگر سیدھا ہائی کورٹ نے کرمنل پروسیجرکی ایک شق کے تحت خود ٹرائل کورٹ کی حیثیت سے چلایا۔ یہ کیس اپنی نوعیت کا تیز ترین کیس تھا۔ایک سال کے اندر فیصلہ صادرکردیا گیا اور ملزم ذوالفقار علی بھٹوکو مجرم قرار دیتے ہوئے تعزیرات ِ پاکستان 302 کے تحت قتل کی سزا سنائی گئی۔ اِس کیس کا بنیادی ثبوت کیا تھا؟

اقبالِ جْرم، دو گواہان ’’مسعود محمود‘‘ اور ’’غلام حسین‘‘۔ بھٹو اِس کیس میں بطورِ سازش ملوث تھے۔ اقبال ِ جْرم کروانے والے، اس جْرم میں ملوث دو ملزمان کو اقبال ِ جْرم کرنے کی وجہ سے معافی ملی اور بری ہوئے۔ بھٹو کے ساتھ ساتھ چار اور ملزمان تھے جن کو پھانسی کی سزا ہوئی ۔ اقبال جرم بہ حیثیت ثبوت ایک کمزور شہادت ہے اور اگر کورٹ اقبال جْرم کو بطور شہادت بنیادی حیثیت دیتی بھی ہے تو سزائے موت سو فیصد لاگو نہیں ہوتی صرف عمر قید لاگو ہو سکتی ہے۔یعنی کوئی بھی مجرم اقبالِ جْرم کر کے ، اپنی جگہ کسی اور کو پھانسی پر چڑھا دے یہ کیس سازشی حیثیت سے قدراً عمران فاروق کی کیس سے ملتا جْلتا ہے۔

اور اتنا بڑا برطانیہ کا انویسٹی گیشن  ادارہ اسکاٹ لینڈ یارڈ  بھی الطاف حْسین کی خلاف شواہدات نہ ڈھونڈ سکا۔ اگر بر طانیہ کو اقبال جْرم کے تحت ملزم کے ساتھ ملوث دوسرے ملزمان کو سزا دینی ہوگی تو وہ نہیں دیں گے کیونکہ اس طرح سے اْن کے قانون کی تذلیل ہوگی۔ دنیا فرانزک شہادتوں  کے تحت آگے بڑھ رہی ہے، چشم دید گواہ جھوٹے ہوسکتے ہیں اگر ان کو  فارنزک ایویڈینس Corroborate نہیں کرتیں۔ مثال کے طور پر ظفر حجازی تک تو بات پہنچی کہ اْس نے ریکارڈ میں رد و بدل کیا مگر کس کے کہنے پر! اگر اس بات کو ثابت کر دیا جائے کہ ریکارڈ میں رد و بدل نواز شریف کے کہنے  پر کیا گیا اور اقبال جْرم کر کے ظفر حجازی کو بر ی کر دیا جائے اور نوازشریف کو ملزم ٹھہرایا جائے تو اس بات کا توازن کس طرح سے قائم ہو گا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو اصولاً دو اپیلوں کا حق حاصل تھا، مگر اْس کی ایک اپیل ماری گئی۔ بھٹوکو سو فیصد عمر قید کی سزا ہوتی مگر سپریم کورٹ کے سات ججوں کے بینچ  میں سے چار ججوں  نے سزائے موت کو بر قرار رکھا اور تین نے اختلاف رکھا۔ جسٹس نسیم  حسین شاہ بھی اْن چار ججز میں سے ایک تھے اپنی سوانح  حیات میں انھوں نے اعتراف کر ہی لیا کہ ان پر کسی قدر ضیاء الحق کی طرف سے پریشر تھا اور وہ یہ گناہ کر بیٹھے۔

اب جسٹس دراب پٹیل کی بھی سنیے جو کہ اقلیتی ججز میں سے تھے۔ اْن کی داستان کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں، سوشل میڈیا سائٹ ویب یو ٹیوب پر ان کی ویڈیو موجود ہے، میں اپنی آنکھوں سے آنسو نہ روک سکا جب دراب پٹیل نے اپنے انٹر ویو میں بھٹو کے کیس میں کمزور شواہد WEAK EVIDENCES کی حقیقت کو آشکار کیا۔ کہاں اقبال جرم اور (HERESAY) یعنی مفروضوں پر مبنی شواہدات  جس نے بھٹو کو پھانسی گھاٹ تک پہنچایا اور کہاں ’’اقامہ‘‘ CAPITAL FZE پناما کمپنی، لنڈن میں فلیٹ، ICIJ جیسی  تصدیق شدہ ادارے کی تفتیش۔

تو غالب کہتا ہے کہ

’’ایسا آساں نہیں لہو رونا

دل میں طاقت, جگر میں حال کہاں

وہ شب و روز و ماہ وسال کہاں‘‘

میں نے کہا آرٹیکل62 1 (F)  یہ وہ  شق ہے جو ضیا الحق ترمیم کے ذریعے آئین تک لایا تھا۔ مسئلہ بنیادی طور پر اِس شق میں یہ ہے کہ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ کو ثابت کرنا حقیقتاً بہت مشکل ہے اسی لیے اس کو ثابت کرنے کے لیے مفروضوں اور PRESUMPTIONS کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ لیکن ’’اقامہ‘‘ اور ICIJ  کے پیش کردہ حقائق JIT کی تفتیش،  فورینزک ایویڈنسز یہ تمام شہادتیں قانونی تقاضے پورے کرتے  ہوئے ملک کے وزیر اعظم کے گرد گھیرا تنگ کرتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔