جھوٹ اور جعل سازی کی داستان

سید بابر علی  ہفتہ 29 جولائی 2017
مدعا علیہان اپنے موقف کے حق میں کوئی دستاویزی ثبوت لانے میں ناکام رہے۔ فوٹو : فائل

مدعا علیہان اپنے موقف کے حق میں کوئی دستاویزی ثبوت لانے میں ناکام رہے۔ فوٹو : فائل

(پاناما کی پٹاری کْھلی تو شریف خاندان کے آف شور کاروبار کا انکشاف ہوا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا، جس پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تشکیل کا حکم صادر ہوا۔ اس کی حیثیت پر بہت سوالات اٹھے۔ بہ ہر حال، اس سال آٹھ مئی کو تحقیقات کا آغاز کرنے والی جے آئی ٹی نے مقررہ مْدت میں رپورٹ پیش کردی، جس پر آنے والے عدالتی فیصلے نے نئی تاریخ رقم کردی۔

یہ تاریخ ساز جے ٹی آئی ان اراکین پر مشتمل تھی: واجد ضیا، پی ایس پی، جے آئی کے سربراہ (ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے)، بریگیڈیئر محمد نعمان سعید، ممبر (نمائندہ آئی ایس آئی)، بلال رسول، ممبر سیکریٹری (ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان)، عرفان نعیم منگی، ممبر (ڈائریکٹر نیب)

اس ٹیم کو عدالت کے جانب سے دیا گیا دائرہ کار ان نکات پر مشتمل تھا:

گلف اسٹیل ملز کیسے لگائی گئی۔ اسے فروخت کیوں کیا گیا۔ اس کے ذمے قرضہ جات کا کیا بنا۔ اس کی فروخت کا حتمی نتیجہ کیا تھا۔ رقم جدہ، قطر اور برطانیہ کیسے پہنچی۔ کیا مدعا علیہان نمبر 7 (حسن نواز) اور 8 (حسین نواز) اپنی نوعمری میں 1990 کی دہائی کے اوائل میں اتنے منہگے فلیٹس خرید سکتے تھے۔ کیا حمد بن جاثم بن جابر الثانی کے خطوط کی اچانک آمد حقیقت ہے یا افسانہ۔ شیئرز کے شراکت داروں نے فلیٹس کی ملکیت کس طرح طے کی۔

میسرز نیلسن انٹر پرائزز لمیٹڈ اور میسرز نیسکول لمیٹڈ کا اصل فائدہ اٹھانے والا مالک کون ہے۔ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کس طرح قائم ہوئی۔ مدعا علیہ نمبر 8 (حسین نواز) کے پاس ٹیک شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ اور قائم کردہ دیگر کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لیے رقم کہاں سے آئی۔ ایسی کمپنیوں کے ذریعے کاروبار کرنے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا اور مدعا علیہ نمبر 1 (نواز شریف) کو مدعا علیہ نمبر 7 (حسن نواز) کی طرف سے جو بھاری رقوم کے تحائف ملے وہ کہاں سے آئے۔

اس کے ساتھ جے آئی ٹی نے عدالت کی ہدایت کے مطابق مدعا علیہان کے اعلانیہ وسائل اور آمدن سے کہیں بڑھ کر حاصل کردہ اثاثوں کی بھی کھوج لگائی۔ یہاں جے ٹی آئی کی عدالت میں پیش کردہ رپورٹ کے اہم نکات کا خلاصہ قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭ تحقیقات کے دوران جے آئی ٹی نے درج ذیل اہم دستاویزی ثبوت حاصل کیے:

(a) مریم نواز کی بی وی آئی کمپنیوں، نیلسن انٹر پرائزز لمیٹڈ اور نیسکول لمیٹڈ کی ملکیت کی تصدیق فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی، برٹش ورجن آئی لینڈز نے کی۔ (b)میاںنوازشریف کی سمندر پار کمپنی، ایف زیڈ ای کیپیٹل، متحدہ عرب امارات کی تصدیق جبل آل فری زون اتھارٹی (JAFZA) نے کی۔(c) مدعا علیہان کی طرف سے عدالت کے سامنے پیش کیے گئے خرید و فروخت کے معاہدوں کے جعلی ہونے کی تصدیق وزارت انصاف، متحدہ عرب امارات نے کی اور (d) مدعا علیہان کے سپریم کورٹ آف پاکستان اور جے آئی ٹی کے سامنے پیش کردہ جعلی اور تبدیل کیے گئے اقرار ناموں کے بارے میں برطانیہ کے فارنزک ماہر کی رپورٹ۔

٭مدعاعلیہان اس بنیادی سوال کا جواب نہ دے سکے کہ ایوین فیلڈ اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے آمدنی کے ذرائع کیا تھے، نیز وہ فنڈز بیرون ملک کس طرح منتقل کیے گئے؟ گلف اسٹیل ملز اصل فنڈز کی وضاحت کرنے کے سلسلے میں بے حد اہمیت اختیار کرگئی، کیوںکہ ان اپارٹمنٹس کی خرید کے لیے اس سے حاصل کردہ رقم استعمال کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ نوازشریف نے سعودی عرب میں ایک اسٹیل مل لگائی تھی۔ کئی ایک متضاد بیانات دینے اور مختلف پوزیشنز اختیار کرنے کے بعد مدعا علیہان نمبر 7 (حسن نواز) اور 8 (حُسین نواز) نے وضاحت کی کہ گلف اسٹیل ملز میں کسی کاغذی کارروائی کے بغیر سرمایہ کاری کی گئی جس میں قطر کا الثانی خاندان شریک تھاْ، بیرون ملک تمام خریداری اور سرمایہ کاری، سعودی عرب اور برطانیہ میں کاروبار اور التوفیق کمپنی کے ساتھ ڈیل کے لیے اسی سرمایہ کاری سے حاصل شدہ منافع استعمال کیا گیا۔ اس ضمن میںطارق شفیع اور مدعا علیہان نمبر 1(نوازشریف)، 7 (حسن نواز)، 8 (حسین نواز) کسی قسم کی اضافی دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہے۔ طارق شفیق اور مدعا علیہ نمبر 7 (حسن نواز) کے پیش کردہ بیان حلفی تحقیقات سے غلط ثابت ہوئے۔

٭ قوم سے خطاب، میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز اور سپریم کورٹ کی کارروائی کے دوران شریف فیملی نے ایوین فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت تسلیم کی، لیکن یہ ابہام تھا کہ ان کا اصل مالک کون ہے؟ سوال یہ تھا کہ ان گراں قیمت اپارٹمنٹس کو خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئی؟ اور اس کے لیے فنڈز بیرون ملک کس طرح منتقل ہوئے؟ ان اپارٹمنٹس کی ملکیت 2006 سے تسلیم کی گئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ اپارٹمنٹس قطر کی الثانی فیملی کی ملکیت تھے جن سے ایک کاروباری ڈیل کے ذریعے شریف فیملی نے خرید لیے۔

جے آئی ٹی کو پتا چلا کہ یہ اپارٹمنٹس 1993 سے ہی شریف خاندان کی ملکیت ہیں۔ مدعا علیہان نے میاں محمد شریف کا نام لیا کہ انھوں نے 1980 میں قطری رئیل اسٹیٹ میں بارہ ملین درہم کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے یہ سرمایہ کاری میاں شریف کی خواہش کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حسین نواز کے نام منتقل کردی۔ اس طرح حسین نواز نیلسن لمیٹڈ اور نیسکول لمیٹڈ سے فائدہ اٹھانے والے مالک بن گئے۔ چار فروری 2006 کو حسین نواز اور مسمات مریم نواز کے درمیان طے شدہ’’ٹرسٹ ڈیڈ‘‘ کے مطابق مریم نواز ان اپارٹمنٹس کی ٹرسٹی ہیں۔ اسی طرح 2008 میں بھی حسین نواز اور مریم نواز کے درمیان ایک اور معاہدہ طے پایا۔ انھوں نے اس معاہدے کی ’’اصل‘‘ دستاویزات پیش کیں، لیکن جے آئی ٹی کو پتا چلا کہ وہ صرف اچھی قسم کی فوٹو کاپیاں تھیں۔

٭نوٹس بھجوانے کے باوجود مدعا علیہان نمبر 6,1,8,7 اور مسٹر حمدالثانی کسی اضافی ریکارڈ یا ثبوت پیش کرنے اور اپارٹمنٹس کی ملکیت کا اپنا دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام رہے۔دو اہم دستاویزات کی مدد سے جے آئی ٹی نہ صرف ان اپارٹمنٹس کے اصل مالک تک پہنچ گئی بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اٹھائے گئے تمام سوالات کا جواب بھی دے دیا۔ ان میں سے ایک مسٹر ایرول جارج، ڈائریکٹر فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی، بی وی آئی کے تصدیق شدہ خطوط اور پاناما پیپرز میں آئی سی آئی جے کی جانب سے افشا کردہ موزیک فونسیکا کا ردعمل ہے۔ جے آئی ٹی کی درخواست کے ردعمل میں اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ کمپنی سے فائدہ اٹھانے والی مالکن مریم صفدر ہی ہیں۔ اسی طرح فاضل عدالت اور جے آئی ٹی کے سامنے حسین نواز بھی غلط بیانی کے مرتکب ہوئے۔

٭ گلف اسٹیل ملز کی فروخت کے 25 فیصد شیئرز کی جو دستاویزات جے ٹٰی آئی نے متحدہ عرب امارات بھیجی تھیں یو اے ای حکومت نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ یہی وہ واحد دستاویز ہے جس پر مدعا علیہان نے قطر میں ہونے والی سرمایہ کاری کی منی ٹریل کی وضاحت کے لیے انحصار کیا ہے، جس سے حاصل ہونے والی رقم برطانیہ اور جدہ میں کاروبار کرنے اور جائیدادیں خریدنے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔

مدعا علیہان اپنے موقف کے حق میں کوئی دستاویزی ثبوت لانے میں ناکام رہے۔ گلف اسٹیل کے جن قرضوں کی ادائیگی کی وضاحت کی گئی ہے گلف اسٹیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی تقریباً ساری رقم تو ان واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوگئی ہوگی لہٰذا ان کے پاس مزید سرمایہ کاری کے لیے کوئی رقم باقی نہیں بچی تھی۔

٭ مذکورہ حقائق کے پیش نظر جے آئی ٹی نے درج ذیل حتمی نتائج اخذ کیے ہیں۔

الف) گلف اسٹیل ملز خاندانی کاروبار تھا۔ طارق شفیع اور محمد حسین بے نامی مالکان تھے جب کہ خاندانی سربراہ ہونے کے ناتے میاں شریف اس کے حقیقی مالک تھے۔ میاں شریف نے اس لیے دو بے نامی افراد (ایک 18 سالہ یتیم لڑکا اور دوسرا غیرملکی شہریت کا حامل) کا نام استعمال کیا تاکہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کے افراد کو فارن اسٹیٹس ریگولیشن 1972 کے تحت کسی قسم کی قانونی کارروائی سے بچا جاسکے۔ب) مدعا علیہ نمبر 7 نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے روبرو طارق شفیع کے جو دو حلف نامے جمع کروائے ہیں وہ غلط گمراہ کن اور مسخ شدہ ہیں لہٰذا ان پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ج) متحدہ عرب امارات کی حکومت سے موصولہ معلومات کے مطابق مدعا علیہان نے 1980 میں ہونے والے جس سیل ایگریمنٹ کے حوالے سے حلف نامہ داخل کیا ہے ایسا کوئی ایگریمنٹ ان کے ریکارڈ میں وجود نہیں رکھتا۔ لہٰذا Annex-D میں منسلک کاپی غیرمصدقہ، جعلی اور خودساختہ ہے۔

متذکرہ دستاویز جعلی اور غیرقانونی ثابت ہوچکی ہے۔د) گلف اسٹیل ملز کی فروخت سے حاصل کردہ 12ملین درہم کے حوالے سے طارق شفیع اور مدعا علیہان کا بیان کردہ موقف جھوٹا، خودساختہ اور غلط ہے لہٰذا اس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ ہ) میاں نواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ 1980 میں گلف اسٹیل ملز 33.37 درہم (9ملین ڈالرز) میں فروخت کی گئی تھی۔ یہ بات مدعا علیہان کے خود فراہم کردہ ریکارڈ اور جے آئی ٹی کی تفتیش سے ہم آہنگ نہیں۔ف) طارق شفیع نے نہ تو خود گلف اسٹیل ملز کی فروخت سے اہلی اسٹیل ملز سے 25 فیصد شیئر وصول کیے اور نہ 1980 میں الثانی خاندان کے حوالے کیے تھے۔ق) گلف اسٹیل ملز کے ذمے 36.02 ملین درہم کے قرضے واجب الادا تھے جن میں سے 21 ملین درہم 1978 میں ادا کردیے گئے جب کہ باقی ماندہ 14 ملین درہم 1978 کے بعد ادا کیے گئے جن کی تفصیل اور ریکارڈ دستیاب نہیں۔ م) طارق شفیع نے نہ صرف سپریم کورٹ میں جھوٹے حلف نامے جمع کروائے بل کہ وہ مشکوک شہرت کے حوالے سے معروف ہیں کیوںکہ وہ 1987-88 میں بی سی سی آئی سے حاصل کردہ قرضوں کے بھی ڈیفالٹر ہیں۔ اسی مشکوک شہرت اور قانون کے مفرور ہونے کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا تھا۔ ن) مدعا علیہان نے سابق گلف اسٹیل ملز کی اسکریپ مشینری کی جدہ منتقلی کے حوالے سے بھی غلط بیانی سے کام لیا۔ دبئی سے جدہ اسکریپ مشینری کی منتقلی کے ایل سی کاغذات بھی غیر مصدقہ اور جعلی ہیں۔

گلف اسٹیل ملز کے بارے میں مدعا علیہان کی کہانی غیر مصدقہ اور من گھڑت ہے۔ ریکارڈ/ دستاویزات واقعات شہادتوں، طارق شفیع اور مدعا علیہان کے متضاد بیانات سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ گلف اسٹیل ملز کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کبھی بھی جدہ، قطر اور برطانیہ نہیں پہنچی۔

٭ایوین فیلڈ اپارٹمنٹس کے بارے میں ابہام رہا کہ ان کا حقیقی مالک کون ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران مدعا علیہ نے ان فلیٹس کی ملکیت تسلیم کی اور یہ بھی تسلیم کیا کہ ان کا خاندان مسلسل ان کے بعض ٹیکسز ادا کرتا رہا ہے۔ حسن نواز اس میں رہائش پذیر ہیں۔ تاہم انھوں نے یہاں اس وقت رہائش رکھی جب وہ طالب علم تھے۔ سوال پیدا ہوا کہ اتنی کم عمری میں ان کے پاس ان فلیٹس کی خریداری اور ملکیت کے ذرائع کہاں سے اور کیسے آئے۔ مدعاعلیہان کے بار بار بدلتے اور متضاد بیانات سامنے آئے۔

جے آئی ٹی نے ان تمام مدعا علیہان کے بیانات ریکارڈ کیے جن کے بارے میں امکان تھا کہ ان کے پاس ایوین فیلڈ اپارٹمنٹس کے بارے میں معلومات ہیں۔ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں پیش ہونے والی بعض دستاویزات کی تصدیق کے لیے برٹش ورجن آئی لینڈز برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ کو خطوط لکھے۔ فلیٹس کی ملکیت رکھنے والی کمپنیوں، نیلسن انٹر پرائزز اور نیسکول لمیٹڈ کے حقیقی مالک اور مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان ہونے والی ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے برٹش ورجن آئی لینڈز کی فنانشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کو خط لکھا گیا جس کے ڈائریکٹر مسٹر ایرل جارج کے خط کے مطابق:

’’کمپنی کی حقیقی مالک مریم صفدر ہیں۔ ہمارے ریکارڈ میں اس کمپنی کے کسی ٹرسٹ، ٹرسٹی، یا بینیفشری کے نام، فون نمبر یا ایڈریس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘‘

٭مدعا علیہان نے سپریم کورٹ میں مالیاتی اعدادوشمار کی جو فائل جمع کرائی تھی، اس میں فلیگ شپ سرمایہ کاری اور دیگر کمپنیوں کے لیے فنڈز کا ذریعہ قطر کے الثانی خاندان کو قرار دیا گیا۔ جے آئی ٹی کے روبرو پیشی کے دوران انھوں نے اپنے بیانات میں اس موقف سے متعلق کوئی حقائق پیش نہ کیے۔

مدعا علیہان کے معزز عدالت کے روبرو موقف اور جے آئی ٹی کے سامنے ان کے متعلقہ بیانات کا جائزہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ کمپنیوں کے قیام کے لیے قطری فنڈز کے استعمال کی کہانی سرے سے من گھڑت ہے اور جھوٹی ہے۔ فنڈز کے ذرائع کے برعکس جے آئی ٹی نے اپنے طور پر گہرائی سے کمپنیوں کے قیام کا جائزہ لیا ہے جس میں فنڈز کی نقل و حرکت کا ٹیبل تیار کیا گیا ہے جو کہ مدعا علیہ نمبر 8 کے دعوے کے مطابق قطر سے ملنے والے فنڈز، ان کی جانب سے برطانیہ میں اپنی کمپنیوں اور پاکستان میں قائم کمپنی چوہدری شوگر ملز لمیٹڈ کو دیے گئے قرضوں پر مبنی ہے۔

اس ٹیبل کے مطابق 02-2001، 05-2004، 08-2007، 09-2008، 12-2011 اور 13-2012 کے علاوہ مدعا علیہ نمبر 8 نے اپنی ذیلی برطانوی کمپنیوں اور چوہدری شوگر ملز کو قرضوں کی صورت میں زیادہ فنڈز دیے جوکہ قطر سے ملنے والی رقم سے بہت زیادہ تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تمام برطانوی کمپنیوں کا ادا شدہ سرمایہ محض ایک سے 100 برطانوی پاؤنڈ تک ہے۔ مزید برآں مدعا علیہ نمبر 8 کی معلوم برطانوی کمپنیوں نے 2001 سے 2016 تک مجموعی طور پر 10,551,540 کا نقصان اٹھایا۔ اس بھاری نقصان کے باوجود مدعا علیہ نمبر 8 نے برطانیہ میں رئیل اسٹیٹ اثاثوں کی ایک ایمپائر کھڑی کی، یہ سب چھوٹی چھوٹی کمپنیوں کے ذریعے کیا جوکہ قواعد کے مطابق رپورٹس جاری کرنے کی خاص پابند نہیں۔

جائیدادوں کی فہرست جے آئی ٹی کو ملنے والی محدود معلومات پر مبنی ہے اس لیے یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ برطانیہ میں مدعا علیہ نمبر 8 کے نام یا پھر اس کی کمپنیوں، خاندان کے دیگر افراد کے نام یا پھر دیگر مزید بے نامی جائیدادیں بھی ہوں گی۔ ان جائیدادوں کے حصول کے لیے ذرائع کا کوئی بھی دستاویزی ثبوت مدعا علیہ نمبر 8 پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔

مدعا علیہ نمبر 8 اپنی کمپنیوں کے ذریعے انٹر کارپوریٹ سرمایہ کاری میں بہت زیادہ ملوث تھا، جس کے باعث اس کے برٹش ورجن آئی لینڈز کی 2 آف شور کمپنیوں الانا سروسز لمیٹڈ اور لیمکن ایس اے کے ساتھ رابطے میں تھے۔ برٹش ورجن آئی لینڈ کی یہ کمپنیاں برطانوی کمپنیوں کو فنڈز منتقل کرتی تھیں۔ مدعا علیہ نمبر 8 سے ان رابطوں کی وضاحت مانگی گئی جواب میں اس نے ان کمپنیوں کو واجب الادا رقوم سے انکار کیا، جب کہ اس انکار سے مدعا علیہ نمبر 8 کی کمپنیوں کے مالی گوشواروں کی نفی ہوتی تھی۔

کوئنٹ پیڈنگٹن لمیٹڈ نے یو اے ای کی آف شور کمپنیوں کیپٹل ایف زیڈ ای سے قرضے لیے جس کے بارے میں مدعا علیہ نمبر 8 نے دعویٰ کیا کہ یو اے ای میں جائیداد خریدنے کے لیے اسی نے یہ کمپنی بنائی مگر اسے فعال نہیں کیا۔ جے آئی ٹی نے ثابت کیا کہ یہ کمپنی 2014تک فعال رہی اور اس کا انتظام براہ راست مدعا علیہ نمبر 1 میاں نواز شریف کے کنٹرول میں تھا۔ ایک اور آف شور کمپنی ہلٹرن انٹرنیشنل لمیٹڈ فلیگ شپ انویسٹمنٹس لمیٹڈ کو قرضے جاری کرنے کے لیے 2014 میں منظر عام پر آئی جس کی مدعا علیہ نمبر 8 نے تسلی بخش وضاحت نہیں کی۔

بینکنگ ٹرانزیکشنز ٹریل ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ چوہدری شوگر ملز لمیٹڈ نے مریم صفدر کو سات کروڑ روپے واپس کیے جوکہ ان کی واجب الادا رقم سے زیادہ تھے۔ مریم صفدر نے 2012 کی انکم ٹیکس ریٹرن میں زائد رقم کو مدعا علیہ نمبر 8 کی جانب سے قرض قرار دیا ہے۔ مدعا علیہ نمبر 8 نے شناخت کیے گئے 11 بینک اکاؤنٹس کے بارے میں تفصیل فراہم کرنے سے انکار کیا۔

جب مچایا پاناما دستاویزات نے ہنگامہ کس ملک میں کیا صورت حال پیش آئی، استعفوں، سزاؤں اور کارروائیوں کا ماجرا

گذشتہ سال لا فرم موسیک فونسیکا کی افشاء ہونے والی دستاویزات کے بعد دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کے مکروہ چہرے سامنے آئے، جن میں ایسے سیاست داں اور حکم راں بھی شامل تھے جو ایمان داری اور سچائی کا پرچار کرتے رہے ہیں۔ ان دستاویزات میں تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کی بدعنوانی سامنے آئی۔ پاناما پیپرز سامنے آنے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں کیا صورت حال پیدا ہوئی، اس کی تفصیل یوں ہے:

٭چین: ناجائز ذرایع سے دولت بنانے، منی لانڈرنگ، بیرون ملک اثاثہ جات اور آف شور کمپنیوں کی ملکیت رکھنے میں چین بھی اپنے دوست ملک پاکستان سے کسی صورت پیچھے نہیں۔ یوں تو پاناما لیکس میں شامل چینی شخصیات کے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے مگر بڑے عہدوں کی طرح بڑی کرپشن کرنے والوں میں سابق صدر لی پینگ کی بیٹی لی شیاؤلنگ، کمیونسٹ پارٹی کے سابق جنرل سیکریٹری ہو یاؤبینگ کے بیٹے ہو دیہوا اور ڈینگ جیاگوئی ، موجود جنرل سیکریٹری شی جنگ پنگ برٹش ورجن آئی لینڈ میں شیل کمپنیوں کے مالک ہیں۔

بدعنوانی میں ملوث حکم راں طبقے کے ناموں کی وجہ سے چینی حکومت سرچ انجنز اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پاناما پیپرز کے حوالے سے سخت قوانین نافذ کرچکی ہے۔ ان دستاویزات کے منظرعام پر آنے کے بعد چین کی کمیونسٹ پارٹی نے تمام میڈیا آؤٹ لیٹس سے پاناما لیکس سے متعلق تمام مواد ڈیلیٹ اور کئی غیرملکی ویب سائٹس کو بلاک کردیا۔ چین میں پاناما لیکس کے حوالے سے گفت گو کرنا بھی قابل مواخذہ جرم ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صدر زی جنگ پنگ کی جانب سے تین سال قبل شروع کی گئی انسداد رشوت ستانی مہم کے دوران اب تک کمیونسٹ پارٹی کے تین لاکھ سے زائد راہ نماؤں کو بدعنوانی کے جرم میں سزا دی جاچکی ہے۔ تاہم سخت سینسر پالیسی کی وجہ سے پانامالیکس کے حوالے سے دی جانے والے سزاؤں کے بارے میں کوئی اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔

٭ آئس لینڈ : پاناما لیکس میں نام آنے کے بعد آئس لینڈ کے صدر Sigmundur Davíð نے ’باعزت‘ طریقے سے گھر جانے کا فیصلہ کیا اور کچھ دن بعد ہی خود کو خطاوار قرار دیتے ہوئے مستعفی ہوگئے۔ ان کی تقلید کرتے ہوئے  Reykjavík سٹی کونسل کے رکن  Júlíus Vífill Ingvarssonنے بھی استعفیٰ دے دیا، جب کہ آئس لینڈ کے محکمہ برائے محصولات نے لوٹی گئی دولت کو واپس لانے کے لیے بہت سے اسکیمیں بھی متعارف کرائی۔

٭انڈیا: لا فرم موسیک فونسیکا کی افشاء ہونے والی دستاویزات کے مطابق بھارتی سپر اسٹار امیتابھ بچن ان کی بہو ایشوریہ رائے بچن، ریئل اسٹیٹ ٹائیکون کے پی سنگھ، ونود ایڈوانی اور اقبال مرچی سمیت بھارت کے پانچ سو سے زاید اداکار، سیاست داں، اور کاروباری شخصیات منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے مرتکب اور آف شور اکاؤنٹس اور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ پاناما دستاویزات سامنے آنے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک اسپیشل ٹاسک فورس تشکیل دی، جس میں بھارت کے سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز، فنانشنل انٹیلی جنس یونٹ اور ریزرو بینک آف انڈیا کے انویسٹی گیٹو یونٹ کے افسران کو شامل کیا گیا۔ اس خصوصی ٹیم نے شناخت ظاہر کیے بنا بہت سی شخصیات سے ٹیکس کی مد میں بھاری رقوم وصول کیں۔

٭ارجینٹیا: پاناما پیپرز میں ارجینٹینا کے صدر  Mauricio Macri بھی ایک شیل کمپنی کے سربراہ نکلے۔ بہاماس جزائر میں قائم فلیگ ٹریڈنگ کمپنی پاناما میں رجسٹرڈ تھی، اور صدر میکری کا نام بہ حیثیت ڈائریکٹر درج تھا۔ یہ دستاویزات سامنے آنے کے بعد ارجنٹینا کے صوبے Neuquén کے قانون ساز ڈیریو مارٹنز نے صدر کے خلاف وفاقی عدالت میں درخواست دائر کی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ صدر میکری اپنے صدارتی حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں، لہذا انہیں اس عہدے سے برطرف کیا جائے۔ ڈیریو نے عدالت میں ایک اور آف شور کمپنی Kagemusha SA سے صدر موریسیو کا تعلق ظاہر کیا۔ یہ کمپنی 1981میں قائم کی گئی تھی۔ تاہم صدر میکری نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا اور کچھ عرصے بعد یہ کیس نامعلوم وجوہات کی بنا پر سرد خانے کی نظر ہوگیا۔ پاناما دستاویزات میں شہرہ آفاق فٹ بالر لیونل میسی کا نام بھی سامنے آیا، جس پر میسی نے ٹیکس بچانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پاناما پیپرز میں جس کمپنی کا ذکر کیا گیا ہے وہ غیرفعال تھی اور ارجینٹینا کی ٹیکس ایجنسی میں ان کی آمدنی کا سارا ریکارڈ موجود ہے۔

٭آرمینیا: چار اپریل 2016 کو آن لائن نیوز ویب سائٹ  Hetq Online نے ایک رپورٹ شایع کی، جس کے مطابق آرمینیا کی کمپلسری انفورسمنٹ سروس کے سربراہ اور میجر جنرل برائے انصاف Mihran Poghosyanکے نام پاناما میں تین کمپنیاں Sigtem Real Estates Inc., Hopkinten Trading Inc  اورBangio Invest S.A  رجسٹرڈ ہیں، جب کہ پہلی دو کمپنیوں کے وہ اکلوتے مالک ہیں۔ آٹھ اپریل 2016کو آرمینیا کی ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل اینٹی کرپشن سینٹر نے Mihranکے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی۔ عدالتی حکم پر آرمینیا کے صدر نےSerzh Sargsyan  نے ان الزامات کی بنیاد پر Poghosyan سے استعفیٰ لے لیا۔

٭آذربائیجان: پاناما لیکس کے بعد سامنے آنے والی آذربائیجان اور پاکستان کے حکم راں طبقے کی کرپشن کی کہانی کچھ ملتی جلتی ہے۔ پاناما دستاویزات میں آذربائیجان کے صدر کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے کچھ اس طرح لکھا گیا،’’صدر  Ilham Aliyevاور ان کے اہل خانہ اپنے ملک کے عوام کے برعکس ایک پُرتعیش زندگی گزار رہے ہیں جو کہ ان کے ہر مالیاتی سیکٹر میں ان کو ملنے والے ’حصے‘ کی مرہون منت ہے۔ صدر کی بیٹی آرزو سونے کی کانوں، مواصلاتی انفرااسٹرکچر کے منصوبوں، قومی فضائی کمپنی کے منافع میں شراکت دار ہیں۔ صدر کی دو بہنیں اور ان کے بھائی دبئی میں کروڑوں ڈالر مالیت کی جائیداد کے مالک ہیں۔‘‘ ملکی کمپنیوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ صدر اور اُن کے اہل خانہ کئی آف شور کمپنیوں میں شراکت دار بھی ہیں، لیکن عوام اور عدالت کی جانب سے کرپٹ صدر اور ان کے اہل خانہ کے خلاف اتنے ٹھوس ثبوت سامنے آنے کے بعد بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور وہ آج بھی اسی عہدے پر ’باعزت‘ طریقے سے براجمان ہیں۔

٭بنگلادیش: پاناما دستاویزات کے مطابق بنگلادیش کی تقریباً تین درجن اہم شخصیات ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ آف شور کمپنیاں قائم کرنے میں ملوث ہیں، جن میں سُمٹ گروپ کے بانی اور ممتاز کاروباری شخصیت محمد عزیزخان، محی الدین منیم، بزنس ٹائیکون سیمون ایچ چوہدری، عوامی مسلم لیگ کے راہ نما قاضی ظفراللہ اور ان کی اہلیہ نیلوفرظفر کے نام قابل ذکر ہیں۔ پاناما لیکس کے بعد بنگلادیش اینٹی کرپشن کمیشن نے کرپشن میں ملوث ان افراد کے خلاف مزید ثبوت جمع کرکے ان سے ٹیکس وصول کیا اور سزائیں بھی دیں۔ بہت سے کیسز پر ابھی تفتیش جاری ہے۔

٭  برازیل :پاناما لیکس میں برازیل کی سات بڑی سیاسی جماعتوں کے راہ نما آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے، جس کے بعد ملک بھر میں ’’آپریشن کار واش‘‘ کے نام سے بد عنوان شخصیات کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا، جس میں منی لانڈرنگ، رشوت ستانی اور دیگر مالیاتی جرائم میں ملوث افراد کو سزائیں دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کارروائی کا آغاز عوام میں نہایت مقبول سیاست داں اور سابق صدر Luiz Inacio Lula da Silva سے ہوا جن پر قومی تیل کمپنی میں کرپشن اور منی لانڈرنگ رکھنے کے جرم میں ساڑھے نو سال قید کی فرد جرم عائد کی گئی۔ سابق وزیرخزانہ انٹونیو پالوسی کو منی لانڈرنگ کے جرم میں بارہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ برازیل کی عدالتوں کی جانب سے بدعنوان سیاست دانوں کو سزا دینے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔