تاریخی فیصلہ؛ تاریخ ساز بھی ثابت ہوگا؟

محمد عثمان جامعی  ہفتہ 29 جولائی 2017
مدعا علیہان اپنے موقف کو ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ فوٹو : فائل

مدعا علیہان اپنے موقف کو ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ فوٹو : فائل

فیصلہ آگیا، وہ فیصلہ جو کسی کے لیے امکان تھا، کسی کی توقع اور کسی کا اندیشہ۔ اس عدالتی فیصلے نے تاریخ تو بہ ہر حال رقم کردی، یہ الگ بات ہے کہ مستقبل کا مورخ اور وقت کے ساتھ سامنے آنے والے حقائق تاریخ کے اس باب کو کس رنگ میں دیکھیں گے۔

پاناماکیس کی عدالتی کارروائی، جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹٰیم کی کارکردگی اور  آخرکار پانچ رُکنی بینچ کے فیصلے پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جائے، اسے متنازع قرار دیا جائے یا اس پر کتنے ہی قانونی نوعیت کے سوال اٹھائے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مدعا علیہان اپنے موقف کو ثابت کرنے میں ناکام رہے، بھاری رقوم بہ طور تحفہ ایک دوسرے کو دینے کا مضحکہ خیز دعویٰ، دستاویزات سے اپنی زبان بلوانے کے لیے کی جانے والی فن کاریاں اور جھوٹے بیانات ہی ہر ذی شعور شخص کو یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ  سیاہ کاری کی پردہ داری کی خاطر کیا کیا جتن کیے گئے۔

سازش اور تعصب کے الزامات درست ہوسکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں یہ سب ہوتا رہا ہے اور اس کے ختم ہونے کی فی الوقت کوئی امید بھی نہیں، لیکن اگر نوازشریف اور ان کے ساتھ اس فیصلے سے متاثر ہونے والے دیگر افراد کا دامن صاف ہوتا تو کوئی ’’سازش‘‘ کارگر ثابت ہوسکتی تھی نہ ’’تعصب‘‘ کام یاب ہوسکتا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ کوئی الزام درست ہے یا غلط۔۔۔الزام لگانے والے کی نیت کیا ہے اور صورت حال کی بنیاد پر کوئی کھیل کھیلنے والوں کے عزائم کیا ہیں، یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ البتہ یہ سچ اپنی جگہ کہ خدا کے ہاں بھی اعمال نیتوں پر منحصر ہوتے ہیں اور دنیا میں بھی انصاف کے لیے دل صاف ہونا ضروری ہے، ورنہ ہماری تاریخ میں حیران کُن واقعات تو ہوتے رہیں گے، لیکن یہ تاریخ سنہری صفحات پر درج ہونے سے محروم ہی رہے گی۔

یہ فیصلہ اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ پہلی بار مسند اقتدار پر براجمان شخصیت اور عوام میں مقبولیت رکھنے والی جماعت کے سربراہ کو خالصتاً مالی معاملے میں سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، ورنہ بدعنوانی اور مالی بے ضابطگیاں حکم رانوں سے حکومت چھیننے کا بہانہ تو بنی ہیں، انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے اور سزا یاب کرنے کی وجہ نہ بن سکیں۔ قومی خزانے کی لوٹ مار ہو، رشوت اور کِک بیکس ہوں یا قوم سے لوٹا جانے والا سرمایہ بیرون ملک جمع کرانے، کسی کاروبار میں لگانے یا اس سے محلات خریدنے کا معاملہ، حقیقی مقتدر قوتوں سے عوام تک سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں سے قومی اداروں تک برسراقتدار افراد کی بددیانتی سمجھوتوں، مصلحتوں، پسند اور تعصب  کی بھینٹ چڑھتی رہی ہے۔

باقی کا ذکر بعد میں، پہلے اس فریق کی بات کرتے ہیں جو لوٹ کھسوٹ سے براہ راست متاثر ہوتا ہے، یعنی عام پاکستانی۔ ہمارے ہاں یہ چلن ہے کہ اپنی اپنی سیاسی جماعت اور قیادت کی حمایت پر کمربستہ افراد سب کچھ جاننے کے باوجود  حمایت اور اعانت سے دست کش ہونا گوارا نہیں کرتے۔ کیا جواز ہوتا ہے،’’ہمارا لیڈر ایسا ہے تو دوسرے کون سے فرشتے ہیں۔‘‘ یہ وہ جنتا ہے کہ کوئی معمولی سی چوری کرنے والا، چھوٹی موٹی ڈکیتی کا مرتکب یا چند ہزار مالیت کی راہ زنی کا مجرم اگر اس کے ہتھے چڑھ جائے تو مار مار کے ادھ موا کردینے بل کہ زندہ جلادینے سے بھی دریغ نہیں کرتی، لیکن انتخاب کا معاملہ آئے تو کروڑوں اربوں روپے کی خیانت کرنے والے کو سب کچھ جاننے کے باوجود ہنسی خوشی  زندہ باد کے نعرے لگاتی منتخب کرلیتی ہے۔

ہمارے ملک پر حکومت کرنے والے آمروں کو چٹکی بھر مخالفت برداشت نہیں ہوئی، لیکن بدعنوانی کے پہاڑ کے پہاڑ ان کی نظروں سے اوجھل رہے۔ سیاست کا چولا پہنے ڈاکو اور لٹیرے تو ان کے دست وبازو قرار پائے، ان ہی کی مدد سے بھان متی کا کنبہ جوڑ کر سیاسی جماعتیں تشکیل دی جاتی رہیں اور اقتدار کو طول دیا جاتا رہا۔ ’’چُن لیا میں نے تمھیں، سارا جہاں رہنے دیا‘‘ کہتے ہوئے احتساب اور انصاف کے کوڑے صرف مخالفین کی کمروں پر برسائے گئے، اور جب ان کی ضرورت آن پڑی تو کسی این آر او کا گھاٹ لگاکر انھیں دھویا اور پاک کردیا گیا۔ اس دُھلائی اور صفائی کے لیے این آراو کا کام جادو کی چھڑی سے کوئی نئی سیاسی جماعت بنا کر بھی لیا جاتا رہا ہے۔

سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار تو کرتی ہیں، گالیوں کی گولہ باری تو جاری رکھتی ہیں، لیکن سنجیدگی کے ساتھ اپنے مخالف کی بدعنوانی کے خلاف اقتدار میں آکر کچھ کرتی ہیں نہ اس مقصد کے لیے عدالت کا رُخ کرتی ہیں، وہ تو منتخب ایوانوں میں بھی ٹھوس ثبوت کے ساتھ مالی بدمعاملگیوں پر بات کرنے سے گریزاں رہتی ہیں کہ بات نکلے گی تو پھر اپنے تلک آئے گی۔

یہی چلن اداروں کا رہا ہے، کسی ادارے نے اربوں روپے لوٹنے والے سے اس رقم کا معمولی صدقہ وصول کرکے اسے صفائی کی سند عطا کردی، تو کہیں کرپشن اور اصغرخان کیس جیسے مقدمات کی فائلیں خوف اور مصلحت کے بار تلے دبی رہیں۔

اب ایسی ’’بدعنوان دوست‘‘ فضا میں جمعہ کی اذانوں سے کچھ دیر پہلے سماعتوں میں گونجنے والا فیصلہ خائنوں اور بدعنوانوں کے لیے ’’حی عَلیٰ الفلاح ‘‘ کا پیغام ثابت ہوگا یا  بے اثر جائے گا؟ یہ اس پر منحصر ہے کہ احتساب اور مَنی ٹریلز کی کھوج کا سلسلہ دراز ہوتا  ہے یا بس ایک تماشا دکھا کر۔۔۔ختم ہوجاتا ہے۔

مستقبل کیا لارہا ہے، وقت بتائے گا، تاہم اتنا ضرور ہے کہ اقتدار میں آنے والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ سبب کچھ بھی ہو، اس ملک میں احتساب بھی ہوسکتا ہے، کرتوت رسوائی کا ہار بھی بن سکتے ہیں اور تمام تر مقبولیت کے باوجود حکومت ہی نہیں سیاست شجرممنوعہ قرار پاسکتی ہے، کیوں کہ عدلیہ نے مثال قائم کردی ہے،  امید رکھنی چاہیے کہ بات نکلی ہے تو پھر دور تلک جائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ تاریخی فیصلہ تاریخ ساز بھی ثابت ہوگا؟ احتساب کا سفر جاری رہنا چاہیے، کیوں کہ عدل کے تقاضے، ملک کے حالات،  عوام کی آنکھیں اور عدالت کے کٹہرے ابھی بہت سے چہروں کے منتظر ہیں۔

نوازشریف کا موقف
جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کچھ یوں کہنا تھا ’اس ساری کارروائی کا مقصد میرے خاندان کی تجارتی سرگرمیوں سے ہے۔ یہ الزام کہیں نہیں لگایا گیا کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے بدعنوانیوں کے ذریعے رقم کمائی، کک بیکس یا رشوت حاصل کی یا اس قسم کی کوئی اور مالی بے ضابطگی کا ارتکاب کیا۔‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔