اللہ کی رسی…

شیریں حیدر  اتوار 30 جولائی 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ٹائم اسکوائر،نیو یارک میں اس خوشگوار شام کو یوں لگ رہا تھا کہ دنیا میں کوئی غم نہیں، کہیں اندھیرا نہیں۔ روشنیوں کا سیلاب رات میں دن کا سماں پیدا کر رہا تھا تو ہنستے مسکراتے چہروں والے لوگوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ کوئی میلہ ہے اور ہم بھی اس میلے سے محظوظ ہو رہے تھے- کئی قومیتوں، رنگوں اور نسلوں کے لوگ وہاں تماشے سجائے ہوئے تھے اور ہر تماشے کے گرد لگا ہوا لوگوں کا حلقہ بتا رہا تھا کہ کون سا تماشہ لوگوں کو زیادہ لطف دے رہا تھا- تبھی میری نظر ایک طرف پڑی تو وہاں مختصر ترین لباس میں ملبوس ایک جل پری،جس کا دو ٹکڑوں کا لباس امریکی جھنڈے سے بنا ہوا تھا، وہ لوگوں کو اشارے کر کر کے بلا رہی تھی، لوگ اس کی طرف فورا متوجہ ہو رہے تھے… ’’ feed the baby! ‘‘ وہ چلا چلا کر کہہ رہی تھی- لوگ اسی کو بے بی سمجھ کر اس کی طرف لپکتے تو وہ ہجوم کے بیچوں بیچ اس بچے کی طرف اشارہ کر دیتی-

گورے چٹے رنگ کا، بڑے سے سر، سوجے ہوئے تھوبڑے، سرخی مائل بالوں والا وہ انتہائی فربہ بچہ… قد میں وہ بچہ اتنا بڑا تھا جیسے کوئی چودہ پندرہ سال کا لڑکا ہو، اس کے تن پر صرف ایک ڈائپر تھا- شاید وہ کوئی ابنارمل بچہ تھا، میں نے سوچا، غور سے دیکھنے پر علم ہوا کہ اس کا سر بڑا نہ تھا بلکہ اس پر ماسک چڑھایا گیا تھا- دو فٹ لمبا ایک فیڈر تھامے ہوئے ایک اور آدمی ہجوم سے درخواست کر رہا تھا کہ کچھ رقم دے دیں تا کہ اس بچے کو دودھ پلایا جا سکے- لوگ اس کی درخواست پر ہنستے، اسے کچھ سکے پکڑاتے، اس سے فیڈر لے کر اس بچے کو علامتی دودھ پلاتے اور ساتھ ہی تصویر بھی بنواتے، اس قیمتی تصویر کے لیے چند سکے کوئی برا سودا نہ تھا- سب سے زیادہ جس بات نے مجھے حیران کیا وہ اس ’’ بچے کے ہاتھ میں پکڑا ہوا وہ بورڈ تھا جس پر ایک طرف انگریزی میں درج تھا، ’’ ڈونلڈ ٹرمپ میرا باپ ہے ‘‘ اس کے دوسری طرف لکھا ہوا تھا، ’’ ہیلری کلنٹن میری ماں ہے‘‘

مجھے یاد آ گیا کہ جب ہم نے امریکا کا قصد کیا تو کسی مخلص نے صلاح دی تھی کہ ہمیں اپنے فون، آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ سے اپنے سارے اکاؤنٹس سے لاگ آؤٹ کر لینا چاہیے۔ ممکن ہے کہ ان میں کوئی ای میل، کوئی پیغام، کوئی اسٹیٹس یا تصویر کسی بھی سوشل میڈیا پر ایسی ہو جس میں امریکا کے خلاف کچھ لکھا گیا ہو- آپ نے کسی اسلامی پوسٹ کو پسند کیا ہو یا اس پر اپنے مثبت تاثرات درج کیے ہوں، ایسی صورت حال میں آپ کو امیگریشن کے دوران کوئی مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے۔

مندرجہ بالا کوئی بھی صورت حال نہ ہونے کے با وصف بھی ہم نے اپنے تمام اکاؤنٹس سے سائن آؤٹ کر لیا- دل سے معترف ہوئے کہ چلیں یہ قومیں مہذب ہیں، انھیں کم از کم یہ تہذیب ہے کہ اپنے ملک، مذہب یا سربراہان کے خلاف کسی کی رائے برداشت نہیں کرتے، کیونکہ ان کے حکمران کرپٹ نہیں-

مگر نیویارک کی مصروف ترین جگہ پر، سر عام ، لاکھوں لوگوں کی نظر پڑ رہی تھی، ا س عملی مذاق پر- اس علاقے میں جا بجا پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی، اس آدمی کو جو کہ اس بچے کا ’’ انچارج ‘‘ تھا، اس عورت کو جو لوگوں کو متوجہ کر رہی تھی اور اس جعلی بچے کو جو دھڑلے سے وہ بورڈ اٹھائے ہوئے ، اسے ہر طرف لہرا لہرا کر اپنے والدین کا پتا بتا رہا تھا۔ کوئی کچھ نہ کہہ رہا تھا، کیا اس لیے کہ وہ ان کے اپنے لوگ تھے؟ کیا ساری پابندیاں ہمارے لیے ہیں کہ ہم اپنی رائے کا اظہار بھی نہیں کر سکتے اور دوسروں کی رائے کو پسند یا ناپسند بھی نہیں کر سکتے- ’’ حیرت ہے، کوئی انھیں چیک نہیں کرتا؟ یہ اپنے ملک کے صدر کے بارے میں ایسا سر عام کیونکر کر سکتے ہیں؟ ‘‘ میں اپنے میزبانوں سے پوچھے بغیر نہ رہ سکی تھی۔’’ ہمارا حالیہ صدر اس ملک کی تاریخ کا ناپسندیدہ ترین صدر ہے… ہاں امریکی اس کو چیک بھی کرتے تھے اور برا بھی مناتے تھے کہ اگرکوئی ان کے صدر کے خلاف کہے… مگر اس صدر کے لیے نہیں، باراک اوبامہ جیسے صدر کے لیے لوگ لڑنے مرنے کو بھی تیار ہو جاتے تھے!! ‘‘

’’ مگر اس صدر کو بھی تو آپ لوگوں نے اپنے ووٹوں سے منتخب کیا ہے نا؟ ‘‘ میں نے جتلایا۔’’ آپ بھی تو اپنے سربراہ اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں اور پھر ان سے جلد ہی متنفر ہوجاتے ہیں؟ ‘‘ سوال کے جواب میں سوال آیا-

’’ ہمارے ہاں ووٹ امیدواروں کی قابلیت کی بنا پر نہیں دیے جاتے!! ‘‘ میں نے اعتراف کیا-

’’ اچھا، تو کیسے انتخاب ہوتا ہے آپ کے ہاں ؟ ‘‘

’’ ہم ایک پلیٹ بریانی کے عوض بھی ووٹ دے دیتے ہیں، ہمیں کسی کے قابل اور نا قابل ہونے کا علم ہی کہاں ہوتا ہے؟ ‘‘’’ کیوں آپ پڑھے لکھے لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں کیا؟ ‘‘ …’’ ہمارے لیڈر پیسے کی طاقت سے ووٹ خریدتے ہیں یا دھونس سے!!‘‘ ’’ کیا آپ یقین کریں گی کہ ہمارے حالیہ صدر کے بارے میں بھی یہاں(امریکا) کے لوگوں کی یہی رائے ہے کہ اس کے پیسے کی طاقت نے اسے یہاں تک پہنچایا ہے نہ کہ اس کی قابلیت نے!!‘‘ …’’ تو گویا ہمارے ہاں کی خرابیاں آپ کے نظام کا حصہ بھی بن رہی ہیں؟ ‘‘…’’ جیسے ہمارے ہاں کی خرابیاں ہم سے زیادہ آپ لوگوں نے اپنا لی ہیں!!‘‘ دو بدو جواب آیا- میں سمجھ گئی تھی کہ اس سے ان کی مراد کیا تھی- ایک شام پہلے ہی اس بات پر بحث ہو چکی تھی کہ ہمارے ملک کا میڈیا کس طرح ملک کا منفی تاثر دنیا بھر میں اپنے ڈراموں اور ٹاک شوز کے ذریعے پیش کرتا ہے، ’’ یقین کریں اپنے ملک کی خبریں ، اشتہارات، ٹاک شوز اور ڈرامے دیکھ کر شرم آتی ہے ، اپنے بچوں کو بتاتے ہوئے اپنا یقین بھی ڈول جاتا ہے کہ ہمارا کلچر ایسا نہیں ہے!!‘‘ …’’ واقعی ایسا افسوسناک ہے ‘‘ میرا لہجہ کمزور تھا-…’’ ہم خود وہاں سے چند برس پہلے آئے تھے، ہمارا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے، ہمارے باپ دادا بہت بڑے جاگیردار تھے، ہم نے اپنے بچوں کو یہی بتایا ہے کہ ان میں سادگی تھی اور شرافت- اتنا پیسہ ہونے کے باوجود ان میں جھوٹی شان و شوکت اور دکھاوے کا شوق نہ تھا، اپنے سے کمتر اور غریبوں کی مدد کرنا ان کا شیوہ تھا- ہم نے ہمیشہ گھروںمیں اپنے بچوں کے ساتھ اردو بولی کہ انھیں اپنے ملک کی زبان نہ بھولے اور جب وہ اپنے ملک میں جائیں تو کسی کو ان سے بات کہنے اور سمجھانے میں مسئلہ نہ ہو ‘‘ ’’ یہ تو بہت اچھی بات ہے!! ‘‘ میں نے ان کی کوشش کو سراہا-’’ مگر بد قسمتی سے جب ہمارے بچے ڈرامہ دیکھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا پاکستان میں لوگوں کو اردو نہیں بولنا آتی؟ کیا آپ کے ابا اور دادا بھی طوائفوں کے پاس جاتے تھے اور لوگوں کو اپنے سامنے قتل کروا دیتے تھے، شراب پیتے تھے اور غریبوں کے ساتھ زیادتی کرتے تھے؟ جب ہم انھیں کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہر ڈرامے اور ہر فلم میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم اپنے باپ دادا کا پردہ رکھنے اور ان کا اچھا تاثر ان کے دلوں میں قائم کرنے کے لیے ان کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں!!‘‘ ’’ وہ ایسا کہنے میں حق بجانب ہیں!!‘‘

’’ اب حالیہ صورت حال کو دیکھ لیں… میرے بچوں نے میرے ساتھ شرط لگا رکھی ہے کہ قانون ہار جائے گا، عوام ہار جائیں گے اور پاکستان کے حکمران، جے آئی ٹی کی دیانتدارانہ کاوشوں کے باوجود اس طرح بچ کر نکل جائیں گے جس طرح چھلنی میں سے پانی!‘‘ وہ کہہ رہے تھے، ’’ مگر میرا دل کہتا ہے کہ میرے ملک کی قسمت بدلنے والی ہے، اس ملک میں لوگوں کی دعائیں رنگ لانے والی ہیں، ہمارے بڑے کہتے تھے کہ چند برسوں میں کوڑے کے ڈھیر کی قسمت بھی بدل جاتی ہے، تو کیا میرے ملک کے مظلوم عوام کوڑے کے ڈھیروں سے بھی بدتر ہیں؟

میں دعا کرتا ہوں کہ میرے بچے یہ شرط ہار جائیں… میرے ملک میں بھی انصاف ہو، قانون کی جیت ہو اور لوگوں کا اعتماد عدلیہ پر بحال ہو!!! ‘‘ اللہ نے ان کی سن لی، ان جیسے کروڑوں کی سن لی اور ان کے بچے وہ شرط ہار گئے، وہ شرط جو اس ملک کا ہر شہری اپنے دل سے خاموشی اور راز سے لگائے ہوئے تھا، اس کے دل کی گہرائیوں سے دعائیں اٹھ رہی تھیں کہ اس ملک کو لوٹنے والوں کو بے نقاب ہونا چاہیے- شکر ہے کہ ہم بھی فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں شعور بیدار ہو رہا ہے- ہاں مگر اب آپ لوگوں کو تاکید ہے کہ جو بھی صورت حال ہو، آئندہ جب بھی انتخابات ہوں، اپنے ووٹ کا استعمال شعور کے ساتھ کریں نہ کہ کسی لالچ کے عوض- کاش اس ملک میں کوئی ایسا نظام آ جائے کہ جب کوئی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تو اس وقت اس کے اثاثے اور دولت کے حصول کے ذرائع چیک کیے جائیں نہ کہ انھیں اپنی بدعنوانیوں کے باوصف کئی سال تک ملک پر حکمرانی کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اس ملک کو مزید نوچ کھسوٹ کر رخصت ہوں… اور ہاں اس ملک کی لوٹی ہوئی دولت کا کیا ہوگا؟ جو لوگ اس ملک کو کھا کر باہر بیٹھے عیاشی کر رہے ہیں ان کا احتساب کب ہو گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔