مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

رئیس فاطمہ  اتوار 30 جولائی 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

یہ ہے پاکستان کا اصلی چہرہ، جرم مرد کریں اور اس جرم کی سزا عورت بھگتے، کمسن، نابالغ اور کنواری بہنیں اور بیٹیاں بھگتیں۔ کچھ کیس جو میڈیا کی وجہ سے سامنے آجاتے ہیں، ان پر تو عدالت اور سول سوسائٹی آواز اٹھا لیتی ہے لیکن چند دن شور مچتا ہے، پھر خبر اندرونی صفحات کے کونوں کھدروں میں دب جاتی ہے اور لوگ بھول جاتے ہیں۔

نہ جانے کتنی عورتوں اور بچیوں کی عزتیں گاؤں کی پنچایت کے ایما پر سرعام لوٹی گئی ہونگی لیکن بیکس اور مجبور اپنے ہی باپ بھائیوں کے آگے روند ڈالی جاتی ہیں اور ان کا کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ کیونکہ ’’باعزت مرد‘‘ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو خود ’’ونی‘‘ کردیتے ہیں۔ 70 سالہ بوڑھے کو 13 سالہ بچی ونی کردی جاتی ہے۔ مردوں کے سماج میں عورت پر ظلم ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔

واضح رہے کہ میری مراد گاؤں اور قصبوں کی عورتوں سے ہے۔ شہروں میں رہنے والی خواتین اس جبر سے محفوظ ہیں بلکہ بعض تو اپنی بدفطرت اور غلط تربیت کی بنا پر مردوں کی زندگی اجیرن کردیتی ہیں۔ دراصل سارا قصور جہالت کا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حصے میں جو علاقے آئے وہ قبائلی اور سرداری نظام کے تحت زندہ ہیں۔

ریاست میں پنچایتی نظام ہے جو چاروں صوبوں میں رائج ہے۔ صرف چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر، ونی، سوارہ اور نجانے کون کون سی تباہ کن رسمیں ان پنچایتی لوگوں کی آشیرواد سے خوب خوب پھل پھول رہی ہیں، اگر مختاراں مائی والا کیس اپنے انجام کو پہنچتا اور مجرموں کو پھانسی دے دی جاتی تو آج پنچایت کے حکم پر درندگی کا وہ واقعہ پیش نہ آتا جو ملتان کی بستی راجہ پور میں پیش آیا ہے جہاں پنچایت کے حکم پر ایک لڑکی کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ بدلے کی آگ نے دو لڑکیوں کی زندگی برباد کی۔

کبھی کوئی مرد کوئی نوجوان غیرت کے نام پر قتل کیوں نہیں ہوتا۔ خاندانی دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے کبھی پنچایت نے کسی نوجوان کو وہ سزا نہیں دی جو عورتوں کا مقدر ہے۔ بدنصیب، غریب، لاچار عورتوں کا مقدر۔ حکومت کی موجودگی میں پنچایت کے فیصلے سراسر ریاست سے بغاوت ہے۔ لیکن یہاں ریاستی امور چلانے کے لیے کوئی نہیں، ساری حکومتیں کرپٹ، جو آتا ہے کرپشن کا نیا ریکارڈ قائم کرتا ہے۔ ملک کی اس کے اندر ہونے والی زیادتیوں کی بھلا کس کو فکر۔

آپ مجرموں کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ بدلے میں پنچایت جب دو شادی شدہ بہنیں پیش کی گئیں تو انھوں نے کہا ’’کنواری لڑکی لاؤ۔‘‘ پنچوں کا حکم سر آنکھوں پر۔ بات مانی گئی۔ زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی نے خود بتایا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر حق نواز کے حوالے کیا۔ اس نے لڑکی کو اپنے بیٹے اشفاق کے حوالے کیا اور کمرے میں لے جاکر زیادتی کرنے کا حکم دیا۔ تیرہ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ سارا تماشا بدلے کی آگ کا تھا، لوگوں کے مطابق چند دن پیشتر حق نواز کی بیٹی کھیت میں گھاس کاٹنے گئی تھی، اسے ملزم نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔

حق نواز نے بیٹی کے ساتھ زیادتی کا علم ہونے پر بجائے پولیس میں رپورٹ درج کرانے کے اپنے گھر میں پنچایت بلالی۔ پنچایت نے فیصلہ دیا کہ ’’زیادتی کا بدلہ زیادتی سے لیا جائے گا۔‘‘ افسوسناک بات یہ ہے کہ پہلے پنچایت میں بڑی بہنیں پیش کی گئیں جو شادی شدہ تھیں معافی تلافی کی کوشش کی گئی جو ناکام ثابت ہوئی جس طرح خون کا بدلہ خون ہوتا ہے اسی طرح پنچایتی نظام میں زیادتی کا بدلہ زیادتی ٹھہرا اور یوں دو حوا کی بدنصیب بیٹیاں بدلے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بے آبرو کردی گئیں، جس وقت لڑکی کو کمرے میں بے عزت کیا جا رہا تھا اس وقت کمرے کے باہر پنچایت کے بیسیوں مرد موجود تھے جو سب کے سب ’’غیرت مند‘‘ تھے اسی لیے بے آبرو ہونے کا وحشیانہ کھیل کمرے میں جاری رہا اور لوگ باہر خاموش بیٹھے رہے۔ حوّا کی بیٹی چیختی چلاتی رہی لیکن کوئی مدد کو نہ آیا۔ کیونکہ معاملہ غیرت کا تھا۔

ملتان شہر جو صوفیاؤں کا مسکن ہے وہاں کے جواں مردوں کے لیے بہن یا بیٹی کو رسوا سربازار کرنا ہی شاید غیرت ہے۔ادھر لیہ میں بھائی کے جرم پر کمسن بہن ونی کردی۔ جرم بھائی نے کیا، اس کا بھگتان ننھی سی بہن نے بھگتا۔ یہ فیصلہ بھی پنچایت ہی کا تھا۔ بااثر زمیندار کے ڈیرے پر پنچایت بلائی گئی جس میں تقریباً 100 افراد شریک تھے۔ زمیندار نے عثمان نامی شخص کی دس سالہ بہن رقیہ کا نکاح محمد افضل کے بیٹے سے کردیا۔ یہ فیصلہ بھی پنچایت کا تھا۔

اطلاع ملنے پر پولیس نے چھاپے مارے لیکن اصل مجرم پکڑے نہ جا سکے۔ یہ تو اس ملک کی پرانی تاریخ ہے کہ اصل مجرم کبھی نہیں پکڑے جاتے۔ خواہ سرے محل والے ہوں، پانامہ والے ہوں یا عورتوں کا کاروبار کرنیوالے، یہ سب اپنے فیصلے خود کرتے ہیں ساتھ دینے کے لیے ’’چور کے بھائی گرہ کٹ‘‘ ہر ادارے میں موجود، کر لو جو کرنا ہے۔ پنچایتوں کے نظام کے فروغ پانے میں پولیس کے محکمے کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

اول تو یہ محکمہ بدنام بہت ہے پھر پولیس کی روایتی بے حسی، ایف آئی آر کا نہ کاٹنا، مجرموں کی پشت پناہی سمیت یہ بھی حقیقت ہے کہ جو زمیندار، چوہدری، سردار اور وڈیرا ان پولیس افسران کا تقرر کرواتا ہے وہ اس کے احسانوں تلے تو دبے ہوئے ہوتے ہی ہیں لیکن ان میں اتنی جرأت ہی نہیں ہوتی کہ کسی طاقتور پر فرد جرم عائد کرسکیں۔ وہ تو ان کے آگے نظریں جھکا کر سر نیچا کرکے سرکاری کیپ سر سے اتار کر صرف آرڈر لیتے ہیں اور ’’یس سر‘‘ اور ’’جی سائیں‘‘ کہہ کر ان کی نخوت اور غرور میں اضافہ کرتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کا اعتبار پولیس پر سے ختم ہوگیا ہے اسی لیے لوگ اپنے فیصلے پنچایت میں کراتے ہیں تاکہ فوری انصاف مل جائے۔ جی ہاں فوری انصاف جیساکہ ملتان کی دونوں لڑکیوں کو ملا۔ ایک کی عزت تار تار کی گئی، بدلے میں دوسرے فریق نے پہلے ملزم کی بہن کی آبرو شان سے لوٹی۔

پنجاب کے مختلف علاقوں سے آئے دن کمسن ملازم بچوں پر تشدد کی خبریں آتی رہتی ہیں وہ بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے لیکن چند دنوں بعد وہ خبرکہیں دب جاتی ہے یا دباؤ پر دبا دی جاتی ہے۔ لفافہ جرنلزم کے بہت سے کمالات میں سے ایک کمال یہ بھی ہے کہ چند دن بعد سب واقعہ بھول جاتے ہیں آج تک پتہ نہیں چلا کہ طیبہ کیس میں ملزمہ کو سزا ہوئی یا نہیں۔ آٹھ سالہ بچے کو گدھے کی ٹانگوں سے باندھ کر کھیت میں دوڑانے والے زمیندار کو کوئی سزا ملی۔

طیبہ کے علاوہ بھی کئی نابالغ بچیوں کے جسمانی تشدد کے کیس پنجاب میں سامنے آئے ہیں لیکن آج تک کسی کیس کے حوالے سے ملزمان پر فرد جرم عاید نہیں کی گئی۔ ہوسکتا ہے کی گئی ہو اور میرے علم میں نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو ازراہ کرم میری معلومات میں ضرور اضافہ کیجیے۔

مدد چاہتی ہے یہ حوّا کی بیٹی

پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی

یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی

کہاں ہیں‘ کہاں ہیں محافظ خودی کے

یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ

ثنا خوان تقدیس مشرق کو لاؤ

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔