مقدور ہو تو ساتھ رکھوں…

زاہدہ حنا  اتوار 30 جولائی 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ملتان زمانۂ قدیم سے گرد، گدا اور گورستان کے حوالے سے مشہور ہے۔ چند دن پہلے وہاں کی بستی راجا پور سے جس پنچایتی انصاف، کی خبر آئی ہے، اسی کے بعد مختاراں مائی نے کیا غلط کہا کہ مجھے بے حرمت کرنے کا فیصلہ جس جرگے نے دیا تھا، اس کے شریک کار لوگوں کو اگر سزا مل گئی ہوتی تو اس کے بعد ایسے شرم ناک واقعات یقیناً بہت کم ہوتے۔ عاصمہ جہانگیر قانونی نکتہ بیان کرتی رہیں کہ پاکستان کے قانون میں پنچایت کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ اس بات سے آگاہ تھیں کہ پاکستان کے آئین اور قانون میں تو اور بھی بہت سی چیزوں کی گنجائش نہیں لیکن یہاں قانونی کام ذرا کم اور غیر قانونی کام بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

یہ ایک ایسے علاقے کا قصہ ہے جہاں کے مکینوں کو غربت دروازے بھی نہیں لگانے دیتی۔ ان گھروں کے داخلی دروازوں پر ٹاٹ کے پردے لٹکتے رہتے ہیں، جنھیں ہوا اڑاتی رہتی ہے اور بعض گھر ایسے بھی ہیں جن کے گرد کوئی چار دیواری نہیں تو پھر دروازے یا پردے کا کیا سوال اٹھتا ہے۔ ملتان کے علاقے تھانہ مظفر آباد کی بستی راجاپور میں چند دنوں پہلے جو سانحہ ہوا اس کے بارے میں شاید زیادہ کہرام ہوتا لیکن اس وقت ملکی سیاست کی بساط پر انصاف کا نام لے کر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی بناء پر یہ شرم ناک جرم پس منظر میں چلاگیا تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

ان جرائم میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام عدل روز بہ روز کمزور ہوتا گیا۔ پولیس کی حیثیت نظام عدل میں ریڑھ کی ہڈی جیسی ہوتی ہے، اس میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا طاعون اس طرح پھیلا کہ شاید ہی کوئی افسر اور نچلے درجے کا اہلکار اس بیماری سے بچا ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے حکمران طبقات کو ملکی مسائل کو سدھارنے اور غریبوں کی دست گیری جیسے معاملات کی طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں رہی۔

بستی راجا پور میں زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اس کا والد خدا بخش محنت مزدوری کرتا تھا جو چند سال قبل وفات پا چکا ہے۔ وہ تین بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ دونوں بھائی مقامی مل میں ملازمت کرتے ہیں۔ علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ متاثرہ لڑکی اچھے کردار کی مالک ہے اور غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے، جب کہ ملزم حق نواز جانوروں کی خرید فروخت کا کاروبار کرتا ہے، اس کی مالی حالت بہتر ہے۔ حق نواز کی ہٹ دھرمی اور بدلہ لینے کے اصرار کی وجہ سے یہ واقعہ ہوا۔ علاقے کے لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ حق نواز کا کردار ٹھیک نہیں، چند سال قبل اس نے بھی ایک خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا تھا مگر ملزم کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔

جنوبی پنجاب میں جاگیردارانہ سماج اور غربت کے سائے اتنے گہرے ہیں کہ لوگ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر یا تو خاموشی اختیار کرلیتے ہیں یا پھر اپنے مقدمات اپنے ہی علاقے اور برادری کے لوگوں کے درمیان حل کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پولیس، عدالتیں اور انصاف کی فراہمی کے دیگر ادارے ہونے کے باوجود لوگ آج بھی اپنے مقدمات مقامی پنچایتوں میں لے جاتے ہیں جہاں ناخواندہ اور برادری کے نظام میں جکڑے لوگ غیر قانونی اور غیر اخلاقی احکام دے کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ راجا پور میں جو شرمناک واقعہ ہوا، وہ ’’پنچایتی انصاف‘‘ کی تازہ ترین مثال ہے۔ جنوبی پنچاب میں اس سے پہلے بھی پنچایت اور جرگے کے حوالے سے مختاراں مائی کیس عالمی شہرت حاصل کرچکا ہے۔

دیکھا جائے تو یہ دونوں واقعات اور اس نوع کے دیگر تمام واقعات مردانہ سماج کی نفسیات اور ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہاں مردوں کے جرائم کی سزا ان کے خاندان کی خواتین کو دی جاتی ہے۔ مختاراں مائی کے ساتھ ہونے والے سانحے کے 15 برس بعد 2017ء میں راجا پور کی دو جواں سال لڑکیاں پنچایتوں کے ظالمانہ انصاف کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت مختاراں مائی کیس کے بعد ظالمانہ پنچایتی نظام پر پابندی لگاتی اور خواتین سے زیادتی کے ملزموں کو کڑی سے کڑی سزا دے کر عبرت کی مثال بنایا جاتا لیکن آج تک حکومت کی طرف سے کچھ نہیں کیا گیا۔

اگر ہم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی 2016ء کی سالانہ رپورٹ کا جائزہ لیں تو وہ 308 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہاں میں صرف اس کے ان صفحات پر ایک سرسری نگاہ ڈالتی ہوں جو عورتوں کے خلاف ہونے والی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مشتمل ہیں۔ ان کے مطابق 20 برس پہلے حکومت نے CEDAW کے تحت عورتوں کے خلاف تشدد کی تمام اقسام کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا اس کے باوجود عورتوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ نہ ہوسکا۔ 2016ء میں حکومت عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے اور انھیں ایسا ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہی جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرسکیں۔

اس رپورٹ میں جو اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں، ان کے مطابق عورتوں کی تعلیم میں مناسب بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ مارچ 2016ء میں پنجاب حکومت نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق عورتوں کے خلاف تشدد میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ تشدد کے یہ واقعات ان اضلاع میں زیادہ ہوئے جہاں مردوں میں تعلیم کی شرح دوسرے اضلاع کی نسبت کم ہے۔ ان میں رحیم یار خان، سرگودھا، ملتان اور وہاڑی شامل ہیں۔

اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مجموعی طور پر عورتوں کے خلاف ہونے والے تشدد پر دی جانے والی سزاؤں کی تعداد میں کمی ہوئی۔ 2015ء میں تشدد کے 81 واقعات کا ارتکاب کرنے والوں کو عدالت سے سزا ملی جب کہ 2012ء میں 378 مجرموں کو سزائیں دی گئی تھیں۔ 2016ء میں سیکڑوں لڑکیاں اور عورتیں غیرت کے نام پر قتل کرد ی گئیں۔ ان کے قاتل خاندان کے مرد تھے، انھوں نے یہ قتل عزت کے تحفظ کے نام پر کیے جس کی نہ انھیں سزا ملی اور نہ کسی نے انھیں لعن طعن کی۔

کمیشن کی رپورٹ میں 28 اپریل 2016ء کے اس اندوہ ناک واقعے کو بھی بیان کیا گیا ہے جو ایبٹ آباد میں پیش آیا۔ یہاں بھی ملتان کی طرح پندرہ افراد پر مشتمل ایک جرگے نے 16 برس کی ایک لڑکی کو جلا کر ہلاک کرنے کی سزا دی۔ اس لڑکی کو اس خطا کی سزا دی گئی کہ اس نے اپنی سہیلی اور اس کے دوست کو گھر سے فرار ہونے کا موقع فراہم کیا تھا۔ ان دونوں نے اپنے علاقے سے نکل کر شادی کرلی تھی۔ اس لڑکی کو اس کے گھر سے اغوا کیا گیا۔ پھر ایک غیر آباد گھر میں لے جا کر نشے کا انجکشن لگایا گیا جس کے بعد اسے قتل کردیا گیا۔ قتل کے بعد اس کی لاش ایک وین میں رکھی گئی اور وین کو آگ لگا دی گئی۔

اس طرح 19 سال کی ایک اسکول ٹیچر تشدد کے بعد اس لیے قتل کر دی گئی کہ اس نے اپنے اسکول پرنسپل کے بیٹے سے شادی کا رشتہ قبول نہیں کیا تھا۔ وہ عمر میں اس سے دگنا بڑا تھا۔ اسے بھی جلا کر قتل کیا گیا۔ وہ جب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی، اس نے بستر مرگ پر پولیس کو اپنے اسکول پرنسپل اور اس کے چار ساتھیوں کے نام بتادیے تھے جو اس کے قتل کے ذمے دار تھے۔

2016ء میں سب سے زیادہ شہرت قندیل بلوچ کے قتل کو ملی۔ وہ سوشل میڈیا پر بہت سرگرم تھی اور اس نے 2014ء میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ نام نہاد غیرت کے قتل، ریاست کے خلاف جرم کے طور پر درج کیے جائیں۔ وہ 2016ء میں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہوئی جن کا کہنا تھا کہ وہ ان کی غیرت کے نام پر دھبہ تھی۔ یہ وہ بھائی تھے جو اس کی آمدنی سے فیض اٹھاتے رہے تھے۔ قندیل کا قتل پہلی مرتبہ ریاست کی طرف سے درج ہوا تو ریاست نے قصاص اور دیت کے قانون کو ایک طرف رکھتے ہوئے قندیل کے افراد خانہ کو اس کا خون معاف کردینے کے حق سے محروم کردیا۔

کمیشن نے یہ بات بھی رپورٹ کی ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے پسند کی شادی کرنے والوں کے خلاف فتوے دینے اور لڑکیوں یا عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو گنہگار اور غیر اسلامی فعل کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔ اکتوبر 2016ء میں قومی اسمبلی نے عورتوں کے تحفظ کے لیے غیرت کے نام پر عورتوں کو قتل کرنے والوں کو مقتولہ کے خاندان کی طرف سے معاف کر دینے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان دو اقدامات سے عورتوں کو نسبتاً تحفظ ملے گا۔

ملک بھر میں پھیلی ہوئی چھوٹی بستیاں اور بڑے شہر، عورتوں کے لیے مذبح خانے بن گئے ہیں۔ انھیں سماج، مذہب اور ریاست کی طرف سے تحفظ نہیں ملتا۔ ایسے میں وہ فریاد لے کر کہاں جائیں؟ کون سی عدالت انھیں انصاف فراہم کرے گی؟ ایسے میں غالب کا یہ شعر کیوں یاد نہ آئے کہ:

حیراں ہوں دل کو رؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔