ایک تیر چار شکار

جاوید چوہدری  منگل 1 اگست 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ہم آگے بڑھنے سے قبل میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی فلاسفی کی تشریح کریں گے۔

میاں نواز شریف ’’سویلین سپرمیسی‘‘ کے داعی ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں ہم اگر عوام کے ووٹ لے کر ایوان میں پہنچتے ہیں تو پھر ہمیں اقتدار کے ساتھ ساتھ اختیار بھی ملنا چاہیے‘ یہ فوج کے بارے میں بے لچک رائے رکھتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں فوج کو عوامی نمایندوں کا احترام کرنا چاہیے‘ یہ جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کی طرح فوج کے سربراہوں کو وزیراعظم کے سامنے جواب دہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

میاں نواز شریف کے اس بے لچک رویئے کو 1993ء کے زبردستی استعفے اور بارہ اکتوبر 1999ء کو جنرل محمود کی درشتگی نے مزید سخت بنا دیا‘ میاں صاحب 2000ء میں جلا وطن ہو گئے لیکن یہ جاتے جاتے ماضی کی تلخیاں بھی ساتھ لے گئے‘یہ 25 نومبر2007ء کو سات سال بعد پاکستان واپس آئے‘ عوام کو توقع تھی یہ ماضی کی تلخیاں ہیتھرو ائیر پورٹ پر چھوڑ آئیں گے لیکن یہ تلخیاں نہ صرف ان کے ساتھ واپس آئیں بلکہ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں ان کو کھاد دیتے رہے یہاں تک کہ یہ جب وزیراعظم بنے تو یہ تلخیاں باقاعدہ جنگل بن چکی تھیں اور میاں نواز شریف اس جنگل میں بھٹک رہے تھے۔

ہمیں آج یہ حقیقت ماننا ہوگی جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ یہ دونوں جمہوریت پسند بھی تھے اور یہ میاں نواز شریف کا احترام بھی کرتے تھے‘ یہ دونوں سسٹم اور جمہوریت کے سپورٹر بھی تھے لیکن میاں صاحب کے دائیں بائیں موجود لوگوں نے فوج اور حکومت کے درمیان غلط فہمیوں کے ایسے ایسے کانٹے بوئے کہ یہ دونوں اپنے رفقاء کار کی بات ماننے پر مجبور ہوگئے جس کے بعد حکومت اور فوج دونوں مختلف سمتوں میں سرپٹ بھاگنے لگے‘ یہ خلیج میاں نواز شریف کے ساتھی وسیع کرتے چلے گئے۔

یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ فوج کا ہر مخالف میاں نواز شریف کے قریب پہنچ جاتا تھا اور وہ طویل عرصے تک ان کے کانوں کے دائیں بائیں نظر آتا تھا ‘یہ لوگ میاں صاحب کو وہاں لے گئے جہاں شہادت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا‘ اس سارے عمل میں وزیراعظم کے قریب ایک بیوروکریٹ نے اہم کردار ادا کیا‘ یہ ’’اینٹی آرمی‘‘ سمجھے جاتے ہیں‘ اس بیوروکریٹ میں سیکڑوں خوبیاں ہیں‘ یہ سمجھ دار ہیں‘ قابل بھروسہ ہیں اور یہ ماہر بیورو کریٹ بھی ہیں لیکن ان میں ایک خرابی ہے۔

یہ بلاوجہ اور غیر ضروری حد تک ’’اینٹی آرمی‘‘ ہیں اور یہ چار سال میاں نواز شریف کے بہت قریب رہے چنانچہ ملک کے دونوںستونوں کے درمیان تعلقات کیسے ٹھیک رہ سکتے تھے؟ آپ کو یاد ہوگا آصف علی زرداری نے 16 جون 2015ء کو ایک خوفناک تقریر کی ‘ انھوں نے اس تقریر میں اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کیا ‘ اس تقریر نے بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کی اپنی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ یہ تقریر پارٹی کے سینئر لیڈروں کے لیے ’’سرپرائز‘‘ تھی۔

یوسف رضا گیلانی‘ فاروق ایچ نائیک اور اعتزاز احسن نے تقریر کے بعد آصف علی زرداری کے گزشتہ دو دنوں کے مہمانوں کی فہرست منگوا کر دیکھی تو پتہ چلا یہی بیوروکریٹ دو گھنٹے آصف علی زرداری کے پاس بیٹھ کر گئے تھے‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان 17 جون کو میٹنگ طے تھی‘ یہ غالباً اس میٹنگ کے ایجنڈے کے لیے زرداری صاحب سے ملے تھے۔

یہ اس چھوٹی سی ملاقات کا شاخسانہ تھا کہ آصف علی زرداری نے باہر نکل کر اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کر دیا‘ آپ اس واقعے سے اس میاں نواز شریف کی صورتحال کا اندازہ کر سکتے ہیں جن کے ساتھ یہ افسر چار سال رہے ، یہ اس نوعیت کے واحد شخص نہیں تھے‘ میاں نواز شریف کے دائیں بائیں زیادہ تر لوگ اس مکتبہ فکر کے حامل تھے ‘ یہ لوگ معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے گئے‘ باقی کسر پارٹی کے نوجوان اور ناتجربہ کار ترجمانوں نے پوری کر دی۔

میں آج بھی سمجھتا ہوں ہمارے پاس میاں نواز شریف کا متبادل موجود نہیں‘ یہ تجربہ کار بھی ہیں اور یہ پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں کہیں بہتر پرفارم بھی کر رہے ہیں‘ یہ ملک کو 2018ء تک لوڈ شیڈنگ‘ دہشت گردی اور ماضی کی نحوستوں سے بھی پاک کر دیں گے لیکن افسوس یہ اپنے تلخ ماضی سے جان نہ چھڑا سکے اور یوں یہ ایسے گڑھے میں آ گرے جس سے اب انھیں خدا کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں نکال سکتا۔

ہم اب میاں شہباز شریف کی طرف آتے ہیں‘ یہ فوج اور فوج ان کے ساتھ کمفرٹیبل ہیں‘ یہ دراصل ان تین مسٹر کلین میں شمار ہوتے ہیں جو 1990ء کی دہائی میں سامنے آئے‘ یہ مسٹر کلین سردار فاروق احمد لغاری‘ عمران خان اور میاں شہباز شریف تھے‘ بدقسمتی سے فاروق لغاری محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف استعمال ہو گئے‘ عمران خان چار برسوں میں بری طرح گھس چکے ہیں‘ پیچھے میاں شہباز شریف بچے ہیں‘یہ اب میدان میںاتر رہے ہیں‘ یہ میاں نواز شریف کے مقابلے میں مختلف انسان ہیں۔

یہ سمجھتے ہیں فوج ملک کا طاقتور ترین ادارہ ہے‘ کوئی لیڈر اس طاقتور ترین ادارے سے لڑ کر سیاستدان نہیں رہ سکتا‘ سیاستدانوں کا واحد ڈیفنس پرفارمنس ہوتی ہے‘ آپ پرفارم کریں‘ ڈیلیور کریں اور عوام ہوں یا فوج ہو یا پھر عدلیہ ہو یہ تمام آپ کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ یہ عموماً مغربی جرمنی کی مثال دیتے ہیں۔

یہ کہتے ہیں اتحادیوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا‘ مغربی جرمنی نے ترقی پر توجہ دی‘ یہ پرفارم اور ڈیلیور کرتا چلا گیا یہاں تک کہ مشرقی جرمنی چل کر مغربی جرمنی کے پاس آ گیا‘ ہم سیاستدان بھی اگر دائیں بائیں الجھنے کے بجائے صرف ڈیلیور کریں‘ پرفارم کریں تو فوج بہت جلد ہمیں تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گی‘ یہ ان تھک کام کے قائل بھی ہیں‘ یہ پنجاب اسپیڈ یا شہباز شریف اسپیڈ کا ٹائیٹل ملنے پر بھی خوش ہیں‘ یہ طیب اردگان کو اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں‘ میرا خیال ہے میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف کو آگے لا کر بہتر فیصلہ کیا‘ یہ سول ملٹری ریلیشن شپ بھی بہتر بنا دیں گے۔

یہ حکومت کے ’’آن گوئنگ‘‘ منصوبے بھی مکمل کر دیں گے‘یہ چوہدری نثار کو بھی منا لیں گے اور یہ پارٹی کوبھی متحد کر دیں گے تاہم میاں شہباز شریف کو مستقبل میں دو بڑے خطرات کا سامنا ہو گا‘ پاکستان تحریک انصاف یہ پروپیگنڈا کرے گی ’’ہم نہ کہتے تھے یہ شریف پارٹی ہے‘ یہ دعا بھی خاندان سے باہر نہیں دیتے‘ ایک شریف کے بعد دوسرا شریف اور دوسرے شریف کے بعد تیسرا شریف آئے گا‘ یہ کسی دوسرے شخص پر اعتماد نہیں کریں گے‘‘ یہ پروپیگنڈا میاں شہباز شریف کو متاثر کرے گا اور دوسرا خطرہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری سانحہ مال ٹاؤن اور حدیبیہ پیپرز مل پر انھیں گھیرنے کی کوشش کریں گے‘ یہ دونوں ایشوز تلوار بن کر ان کے سر پر لٹکتے رہیں گے اور یہ جس دن اونچی آواز میں بولیں گے یا ہاتھ ہلانے کی غلطی کریں گے یہ تلوار ان پر بھی آ گرے گی۔

ہم اب آتے ہیں فیصلے کی طرف‘سپریم کورٹ بہرحال سپریم ہے اور اس کا ہر فیصلہ سپریم ہوتا ہے‘ ہم میں سے کوئی شخص فیصلے سے سرتابی نہیں کر سکتا لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عوام جس فیصلے کو تسلیم کر رہے ہیں یہ اس سے اختلاف بھی نہیں کر سکتے‘ ذوالفقار علی بھٹو عدالتی حکم پر پھانسی چڑھ گئے لیکن عوام کو آج بھی اس فیصلے سے اختلاف ہے چنانچہ پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکن اگر میاں نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر اعتراض کر رہے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔

میاں نواز شریف اگر کرپٹ ہیں تو پھر انھیں کرپشن پر نااہل ہونا چاہیے تھا‘ سپریم کورٹ جیسی عظیم عدالت کو ’’ریسیوایبل‘‘ کو اثاثہ ڈکلیئر کر کے انھیں نااہل نہیں کرنا چاہیے تھا‘ یہ کمزور گراؤنڈ ہے اور یہ کمزور گراؤنڈ ہماری تاریخ میں دوسرا بھٹو کیس ثابت ہوگی‘ یہ فیصلہ ’’قابل وصول اثاثوں‘‘ کی نئی بحث بھی چھیڑ دے گا اور یہ مستقبل میں اس نوعیت کے ہزاروں مقدموں کی ماں بھی بن جائے گا‘ ہم مستقبل میں جب بھی اس فیصلے کو دیکھیں گے ہمیں یہ فیصلہ بین الاقوامی ایجنڈے کو سپورٹ کرتا بھی نظر آئے گا۔

دنیا میں اس وقت ترکی‘ پاکستان‘ ایران اور سعودی عرب ہٹ لسٹ پر ہیں‘ نیٹو ترکی‘ پاکستان اور ایران کی فوجی طاقت توڑنا چاہتا ہے جب کہ سعودی عرب کو تیل اور دولت دونوں سے محروم کیا جائے گا‘ نیٹو نے ایک ایسا تیر تیار کر رکھا ہے جس سے یہ چاروں ملکوں کو شکار کرے گا‘ سعودی عرب کے ذریعے عراق اور شام کی جنگ کو ایران تک پھیلایا جائے گا‘ یہ جنگ جس دن ایران پہنچ گئی اس دن امریکا بلوچستان میں آبیٹھے گا اور یوں ایک تیر سے چار شکار ڈھیر ہو جائیں گے اور اگر یہ فارمولہ کامیاب نہ ہوا تو پاکستان اور ترکی دونوں کی فوجوں کو جمہوریت کے ہاتھوں تباہ کیا جائے گا اور سعودی عرب کو ایران میں گھسا کر مار دیا جائے گا اور بات ختم۔

اللہ نہ کرے یہ ہو لیکن اگر ایسا ہوا تو مورخ ایف زیڈ ای اور اس کمپنی کے ریسیو ایبل کو مستقبل کے تمام بحرانوں کا نقطہ آغاز لکھے گا‘ یہ اس نقطہ آغاز کو نقطہ اختتام کی شروعات لکھنے پر مجبور ہو جائے گا اور یہ اسٹیبلش ہو جائے ہم نادانستگی میں خود اپنے خلاف استعمال ہو گئے‘ ہم خود اپنے قاتل بن گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔