آزمائش کی گھڑی

شکیل فاروقی  منگل 1 اگست 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

’’پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔‘‘ یہ فقرہ سنتے سنتے ہمارے اور آپ کے کان پک چکے ہیں۔ لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ وطن عزیز کے حالات عرصۂ دراز سے خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں۔ بقول منیر نیازی:

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

گزشتہ ستر برس کے دوران سیاسی عدم استحکام نے ملک و قوم کو غیر منظم اور منزل مراد سے دور کردیا اور اکثر اوقات سیاسی رہنماؤں کی مفاد پرستی اور ابن الوقتی نے سیاسی مطلع کو زیادہ تر ابر آلود ہی رکھا۔

وطن عزیز اس وقت جن مشکل حالات اور اعصاب شکن بحرانوں سے دوچار ہے وہ ہر خاص و عام پر ظاہر ہیں۔ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کو لاحق خطرات میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ خطے میں پاکستان مخالف ہواؤں میں دن بہ دن شدت اور تیزی آ رہی ہے اور امریکا کی شے پر بھارت بھی اپنی اکڑفوں دکھا رہا ہے۔

کنٹرول لائن پر آئے دن بھارتی فوج کی اشتعال انگیزی اور در اندازی جاری ہے جس کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔ دوسری جانب امریکا کے سایۂ عاطف میں پروان چڑھنے والی افغان نیشنل آرمی کے ناپاک قدم ہماری جانب اٹھ رہے ہیں اور بھارت اور افغانستان کی دیکھا دیکھی اب ایران نے بھی جیش العدل کی آڑ میں پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جیش العدل خالصتاً ایران کی مقامی تنظیم ہے جس کا پاکستان سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ یا تعلق نہیں۔ قصہ یہ ہے کہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت افغانستان کے بعد ہمارے دوسرے پڑوسی ایران کو بھی اپنی سفلی سفارت کاری کے ذریعے اپنے زیر اثر لانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا۔

اب اس سہ فریقی گٹھ جوڑ کی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد، سرحدوں پر افغان فوج کی دراندازی اور ایران کے فوجی سربراہ کی دھمکیاں وہ غیر معمولی واقعات ہیں جنھیں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی فوری اور بھرپور توجہ درکار ہے۔ حالانکہ پاکستان اپنے ان پڑوسی برادر ملکوں پر ہمیشہ سے یہ زور دیتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ واضح رہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے پاکستان کو ان ممالک کی طرف سے عدم استحکام سے دوچار کرنے کے ایک ’’گریٹر پلان‘‘ کی سازش کا انکشاف بھی کیا جاچکا ہے۔ اندیشہ ہے کہ اگر اس جانب مطلوبہ توجہ دی گئی تو وطن عزیز کو مزید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

بھارت میں جب سے نریندر مودی افغانستان میں اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور ایران میں حسن روحانی برسر اقتدار میں آئے ہیں ان ممالک میں پاکستان مخالف خیالات و نظریات کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب ہماری افواج مغربی سرحدوں کی جانب سے بے فکر اور مطمئن تھیں جب کہ اب صورتحال یہ ہے کہ ہمیں آئے دن افغان فورسز کی دراندازی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بھارت نے پاکستان کے خلاف افغانستان میں جو نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے اس کی تمام تفصیلات اب کھل کر سامنے آچکی ہیں۔ بھارت اور افغانستان کے خفیہ اداروں کا گٹھ جوڑ بھی اب طشت ازبام ہوچکا ہے۔ یہ حقیقت بھی عیاں ہوچکی ہے کہ بھارت افغانستان میں دہشت گردوں کو باقاعدہ تربیت دے دے کر پاکستانی علاقے میں کارروائیاں کرنے کے لیے بھیجتا رہتا ہے۔

پاکستان نے جب بھی احتجاج کے طور پر پاک افغان سرحد بند کی تو کابل انتظامیہ سیخ پا ہوگئی اور اس نے واویلا شروع کردیا۔ پھر جب یہ سرحد کھول دی جاتی ہے تو کابل کی کٹھ پتلی حکومت پاکستان کی شکر گزاری کے بجائے بھارتی آقاؤں کے ایما پر پاکستان مخالف سازشوں میں سرگرم ہوجاتی ہے۔ پاکستان بارہا اس مسئلے کو افغان حکمرانوں کے سامنے رکھ چکا ہے لیکن ان کے خبث باطن پر اب تک اس کا کوئی اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔

یہی حال ایران کا بھی ہے کہ وہ جیش العدل کے معاملے میں پاکستان پر خواہ مخواہ ناجائز اور بے جا دباؤ ڈال رہا ہے، حالانکہ اس نے تاحال جیش العدل کے جتنے بھی ارکان گرفتار کیے ہیں ان میں سے کسی کا بھی پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق یا واسطہ نہیں تھا۔ نہ ہی ان میں سے کسی بھی پکڑے جانے والے رکن نے کبھی پاکستان کے حمایت یافتہ ہونے کا اعتراف کیا۔ افغانستان اور ایران کی سول اور عسکری قیادت کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ ان دونوں ممالک کے ساتھ برادرانہ اور ثقافتی رشتے ہیں اور بھارت ان کے ساتھ کبھی بھی مخلص نہیں ہوسکتا۔ وہ صرف ان کو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر پاکستان کے خلاف اپنی بندوں کے لیے ان کے کندھے استعمال کر رہا ہے۔

پاکستان کا ٹریک ریکارڈ ہے کہ اس نے افغانستان اور ایران کے درمیان کبھی کوئی رخنہ نہیں ڈالا۔ اس نے نہ صرف ان دونوں برادر ممالک کی سالمیت اور خودمختاری کا ہمیشہ احترام کیا بلکہ اس کی یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ برادر پڑوسی اسلامی ممالک کے مابین تعاون اور اشتراک کو فروغ حاصل ہو اور یہ ممالک اپنے اپنے وسائل کو باہمی مخالفت کی بھینٹ چڑھانے کے بجائے اپنی اپنی ترقی اور اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور خوش حالی کے لیے بروئے کار لائیں۔

نہایت افسوس کا مقام ہے کہ یہ دونوں ہمسایہ ممالک پاکستان کے اس جذبۂ خیرسگالی کا مثبت جواب دینے اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پاکستان کے دشمنوں کا آلہ کار بن رہے ہیں۔ غالباً یہ وطن عزیز کی اخوت کو اس کی کمزوری سے تعبیر کر رہے ہیں جس کے جواب میں پاکستان کو اپنی پالیسی اور حکمت عملی پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے لیے یہ صورتحال ایک بڑا اور سنگین چیلنج ہے جس سے کامیابی اور خوش اسلوبی سے نمٹنے کے لیے ان کا ایک ہی پیج پر ہونا انتہائی ضروری ہے۔ آزمائش کی اس گھڑی میں قوم انشا اللہ ہمیشہ کی طرح ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔