لیاری کے نوجوانوں کے نام

شبیر احمد ارمان  منگل 1 اگست 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

لیاری شہر کراچی کا ایک حصہ ہوتے ہوئے منفرد مقام رکھتا ہے جہاں 15لاکھ انسان بستے ہیںجن میں ہر قومیت کے لوگ عرصہ دراز سے آباد ہیں۔ اس لحاظ سے لیاری منی پاکستان بھی ہے ۔ یہاں کے لوگ محنت کش ، ملازمت پیشہ اور صنعت و حرفت سے وابستہ ہیں ۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ لیاری خداداد صلاحیتوں سے مالا مال علاقہ ہے ۔ لیاری کا اپنا ایک سیاسی مزاج ہے ، یہاں سماجی شعور بتدریج پایا جاتا ہے ، کھیل کے حوالے سے لیاری میں فٹبال اور باکسنگ زیادہ کھیلا جاتا ہے ۔ لیاری کے لوگ سادہ لوح ، ملنسار و مہمان نواز ، یاروں کے یاراور وفا کے پیکر ہیں۔

کراچی ایک عرصے سے امن وامان کی نہ بجھنے والی آگ کے لپٹ میں تھی ایسے میں لیاری واحد علاقہ تھا جہاں امن کا راج تھا لیکن نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ لیاری کا سکون لٹ گیا ، کراچی کی آگ کی چنگاریوں کی لپٹ میں لیاری بھی آگیا جس نے لیاری کی اصل شناخت بگاڑ دی اور منفی نام سے نوازا گیا ، اس تکلیف دہ صورت حال نے بہت سارے مسائل کو جنم دیا۔ خاص طور پر لیاری کے نوجوانوں کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ، حالات میں سدھار آگیا ، لیاری کے نوجوان لیاری کی کھوئی ہوئی پہچان کی بحالی میں جت گئے لیکن میڈیا میں لیاری کے ساتھ منفی نام ( گینگ وار ) جڑا رہا جو آج تک اسی نام کا ورد کرتے رہتے ہیں جب کہ گزشتہ چار سالوں سے لیاری میں امن و امان بحال ہے ۔

لیاری کے نوجوان میڈیا سے شاکی ہیں کہ میڈیا لیاری کے حوالے سے مثبت رول کے بجائے منفی کردار ادا کررہا ہے ، میڈیا لیاری کے نوجوانوں کا مثبت رخ نہیں دکھارہا ہے اگر دکھاتا بھی ہے تو شروعات( لیاری گینگ ) کے نام سے کرتا ہے جو زیادتی ہے ، لیاری کے نوجوان شکوہ کرتے ہیں کہ میڈیا لیاری کی سماجی اور اسپورٹس سرگرمیوں کی کوریج نہیں کرتا ، لیاری کے نوجوان جو اچھے کام کررہے ہیں میڈیا انھیں بھی ہائی لائٹ کرے لیکن میڈیا تواتر کے ساتھ یہ تاثر دیتا رہتا ہے کہ لیاری منفی لوگوں کی جگہ ہے جب کہ لیاری 99فیصد لوگ امن کے پیامبر ہیں لیاری کے نوجوان اپنی اصل شناخت کی بقا ٗ کی جنگ لڑ رہے ہیں ، لیاری کے نوجوانوں کو گلہ ہے کہ شہر والے انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیاری کے نوجوانوں کو باور کریا جاتا ہے کہ لیاری کے کوکھ سے جنم لینے والا کراچی لیاری سے الگ علاقہ ہے ، لیاری کے نوجوان محسوس کرتے ہیں کہ انھیں عجیب دنیا کا مخلوق سمجھا جاتا ہے لیاری کے نوجوانوں میں احساس محرومی اور احساس کمتری کا سامنا ہے۔

لیاری کے نوجوان اپنے علاقے کے بارے میں پائے جانے والے منفی تاثر کو ختم کرنے کی نہ صرف خواہش رکھتے ہیں بلکہ وہ عملی طور پر مثبت سرگرمیوں میں مصروف بھی ہیں ۔وہ لیاری کے تابناک ماضی کو پھر سے اجاگر کرنے میں مصروف ہیں ، لیاری کی پرانی تہذیب و تمدن ، اس میں رہنے والی مختلف طبقوں کی ثقافت، ان کے رہن سہن او ر روشن پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ لیاری کے نوجوانوں کی خداداد صلاحیتوں کو بھی لوگوں کے سامنے لارہے ہیں جس سے لیاری کا کراچی اور ملک کے باقی حصوں سے تعلق پیدا کرنے میں مدد ملے گی ۔ لیاری کے نوجوان لیاری کی ایک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں ۔ لیاری پر کتابیں لکھیں گئیں ہیں جن میں (لیاری صدیوں سے)اور ( لیاری کی ادھوری کہانی) شایع ہوئیں ہیں جب کہ ( مائی کلاچی سے کراچی تک) زیر طبع ہے۔

( ہمارا لیاری ڈاٹ کام ) کے نام سے ویب سائٹ بنائی گئی ہے ، لیاری کی تاریخ پر مبنی ڈاکومنٹری ( لیاری ایک نظر میں ) بنائی گئی ہے ، سماجی تنظیمی سطح پر صحافت کی تربیت حاصل کر رہے ہیں ، لیاری کی تاریخ میں پہلی بار گرلز اسکاؤٹ گروپ ،گرلز فٹبال ٹیم ، گرلز باکسنگ ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو اپنے اپنے شعبوں میں بہترین کارکردگی دکھارہی ہیں ، فٹبال ، باکسنگ ، کرکٹ اور سائیکل ریسلنگ کے کھیل کھیلے جارہے ہیں ، پیس آف لیاری کے نام سے سیمینار منعقد کیے جارہے ہیں ، اردو اور بلوچی زبانوں میں شارٹ فلمیں بنائی جارہی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر کامیاب ہورہے ہیں ، لیاری کے طلبا و طالبات کے مابین تقریری ، مصوری ، گلوکاری ، فوٹو گرافی و نعت گوئی کے مقابلے کراتے رہتے ہیں ، تعلیمی میدان میں اچھے ڈویژن میں پاس ہورہے ہیں ، میڈلز لے رہے ہیں ،سماجی سطح پر بیرون ممالک کا دورہ کر رہے ہیں ، وہاں سے تعلیمی و سماجی تربیت حاصل کرکے لوٹ رہے ہیں اور یہ سب کچھ لیاری کے نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے ہیں یعنی انھیں حکومت وقت کی کوئی سرپرستی حاصل نہیں ہے ۔

ان سطور کے ذریعے لیاری کے نوجوانوں سے مخاطب ہوں کہ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح لیاری میں بھی بے روزگاری کی انتہا ہے جو نوجوان صرف سرکاری نوکری کے متلاشی ہیں یہ بات ذہن نشین کریں کہ وقت اور حالات بدل چکے ہیں ، سرکاری ملازمت کا دور ختم ہوچکا ہے ، کیوں کہ سرکاری ادارے نج کاری کے مراحل سے گزر چکے ہیں اور جو باقی بچے ہیں وہ بھی نج کاری کے منتظر ہیں لہذا بدلتے ہوئے ان حالات میں سرکاری ملازمت کے متلاشی بے روزگاروں کو بھی اپنا ذہن بدلنا ہوگا ۔ پرائیویٹ سیکٹر میں وہی لوگ کھپ سکتے ہیں جھنیں کوئی ہنر آتا ہو جو تعلیم یافتہ ہو اور اس عہدے کے لیے اہلیت رکھتا ہو،جب ہم لیاری بے روزگاروں پر نظر کرتے ہیں تو ملی جلی صورت حال سامنے آتی ہے ۔

بے روزگاروں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بھی ہے لیکن مخصوص وجوہات کی بنا ٗ پر وہ اپنی تعلیمی ڈگری اور ہنر کا ڈپلومہ لیے دفتر در دفتر خاک چھان رہے ہیں ، صبح و شام اخبارات میں شایع شدہ ( ضرورت ہے ) کا اشتہار تراشتے ہیں ، خوشی خوشی درخواستیں ٹائپ کراتے ہیں پھر ان کی فوٹو کاپیاں کرتے ہیں ، تمام قواعد و ضوابط کو پورا کر لینے کے بعد درخواست وقت مقررہ پر پوسٹ کردیتے ہیں ، اس امید کے ساتھ کہ اس کے بھی اچھے دن آنے والے ہیں ۔ اول تو انٹرویو کال لیٹر مشکل سے آتا ہے اگر آبھی جائے تو اس میں درج انٹرویو کی تاریخ گزر چکی ہوتی ہے اور اگر خوش قسمتی سے کوئی نوجوان انٹرویو دینے کے لیے پہنچ پاتا ہے تو وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باجود ملازمت کے لیے منتخب ہو نہیں پاتا اسے طفل تسلی دے کر نام نہاد خوشگوار خوابوں کے حوالے کردیا جاتا ہے یا پھر اس کے شناختی کارڈ پر لیاری کا پتہ دیکھ کرتذلیل آمیز لہجے سے صاف انکار کردیتے ہیں کہ ہماری کمپنی میں لیاری والوں کو نہیں رکھا جاتا ہے ۔

اس قسم کے نوجوانوں میں سے کچھ نوجوان حالات کامقابلہ کرتے ہوئے اور اپنی جد و جہد جاری رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنی منزل کی راہیں متعین کرتے ہیں جب کہ کچھ نوجوان حالات سے گھبراکر مایوسی کو تقدیر سمجھ لیتے ہیں اس طرح ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور وہ دوسروں کو کوستے ہوئے اندھیری راہوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ لہذا لیاری کے نوجوان کسی قسم کی احساس محرومی کاشکار نہ ہوں ، پتھر ہمیشہ پھل دار درختوں پر مارے جاتے ہیں ، کبھی ہمت مت ہارنا ، یہ دنیا ہے جس کا کام تنقید کرنا ہوتا ہے ، حوصلہ دینا نہیں ،یہاں جرم کی سزا تو دی جاسکتی ہے انعام دینا نہیں۔

راستے میں رکاوٹیں آتے ہی ہیں جواں مردی یہی ہے کہ تمام رکاوٹوں کو عبورکرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے ،کبھی کسی سے توقعات مت رکھنا، اللہ کی ذات پر بھروسہ کرکے محنت سے آگے بڑھنا ، اپنی توجہ تعلیم پر مرکوزکی جائے ، مثبت مشغلے ذہن کو توانائی بخشتے ہیں ، اپنے روشن مسقبل کا تعین ابھی سے کریں، اپنے ارد گرد نظریں دوڑائے اور غوروفکر کریں اپنی خداداد صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے انھیں بروئے کارلائیں ،کوئی کسی کو کامیابی جھولی میں نہیں ڈالتا اپنے زور بازو سے آگے بڑھتے رہو ، ایک دن آئے گا کہ تم اپنی منزل پا لوگے اور زمانہ تمہاری کامیابیوں پر عش عش کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔