جاگتے رہو

پاکیزہ منیر  بدھ 2 اگست 2017

ہمارا ملک ایک بار پھر امتحان اور بحران سے گزر رہا ہے۔ احتساب کا غلغلہ ہر طرف ہے، مگر احتساب کے نام پر یہ ہو کیا رہا ہے؟ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ بڑے بڑے حکمرانوں نے ٹی وی چینلز پر ایک تماشا مچا رکھا ہے، ایسی ایسی نا زیبا باتیں، ایسے شرمناک الفاظ استعمال ہو رہے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی کی وجہ بن رہے ہیں۔ ہر سیاستدان ایک دوسرے کو برا ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ ان لوگوں کو پاکستان کی بالکل فکر نہیں کہ ان کی وجہ سے پاکستان اور عوام کو کتنا نقصان ہو رہا ہے۔

سپریم کورٹ پاکستان کے حکم پر تشکیل دی جانے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ دس جولائی کو سپریم کورٹ میں پیش کی اور دوسرے روز پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں دو ہزار ایک سو سے زائد پوائنٹس کی تاریخی مندی واقع ہوگئی، سرمایہ کاروں کے چار کھرب ڈوب گئے۔

یہ وہی اسٹاک ایکسچینج ہے، جسے عالمی ماہرین معاشیات ایشیا کی بہترین اسٹاک مارکیٹ قرار دے رہے تھے اور جس کی کارکردگی دنیا میں مثالی قرار دی جا رہی تھی۔ ہمارے سیاستدانوں کو زیادہ وقت ٹی وی چینلز پر ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے ملک کی ترقی پر دھیان دینا چاہیے، نہ جانے یہ لوگ کب تک یہ تماشا کرتے رہیںگے۔ ہمارے ملک کی آزاد عدالتیں اس وقت بہت زبردست کام سرانجام دے رہی ہیں، ان کو ان کا کام کرنے دیا جائے۔

سب کے سب سیاستدان ٹی وی چینلز پر تماشا کرنے میں مصروف ہیں اور اس کا فائدہ دوسری طاقتیں اٹھا رہی ہیں، کہیں پولیس کے نوجوانوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے تو کہیں ٹریفک اہلکاروں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر ہونے والا واقعہ میری اپنی آنکھوں دیکھا ہے، وہ غریب آدمی، پانچ وقت کی نماز پڑھنے والا، ایمانداری سے ڈیوٹی دینے والا آدمی اس کا کیا قصور تھا؟ اس کا جواب نہ تو ہمارے ملک کے حکمرانوں کے پاس ہوگا اور نہ ہی کسی ذمے دار ادارے کے پاس۔

یہ حکمران اگر ملک کو ترقی کی طرف گامزن اور نہ ہی عوام کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات کر سکتے ہیں تو ہر روز یہ ٹی وی چینلز پر بڑے بڑے دعوے کیوں کرتے نظر آتے ہیں، وہاں ہم عوام بھی بے حسی کا نمونہ بنتے جارہے ہیں۔ ٹریفک اہلکار کو شہید کردیا گیا، دشمن تو اپنی چال چل گیا مگر ہم عوام جو اس وقت وہاں موجود تھے ہم نے کیا کیا؟ ہم نے اس اہلکار کو وہیں سڑک پر پڑا رہنے دیا، کوئی گاڑی والا نہیں اترا گاڑی سے، کوئی اس کی مدد کو آگے نہیں آیا، ایک رکشے والا اپنے رکشے میں ڈال کر اس کو لے کر گیا۔ آہ! کیا بے حسی کا منظر تھا۔

کس کس کو روئیں؟ حکمرانوں کو یا پھر اب ہم لوگوں کی ایسی بے حسی کو؟ دنیا کی ہر چیز فانی ہے، کامیابی ہو یا ناکامی، دولت رتبہ سب ایک دن ختم ہوجائے گا۔ انسان یہ تمام باتیں بہت اچھی طرح جانتا ہے، پھر بھی چند روز کی زندگی کے پیچھے اپنی دنیا اور آخرت سب برباد کر دیتا ہے۔ ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے جس سے محبت کرنا ہم سب کا فرض ہے۔

ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان کی مدد کرنا ہوگی، ہمیں ایک دوسرے کا خیال کرنا ہو گا، یہ روز ٹی وی چینل پر ہمیں سیاست دان جو سکھا رہے ہیں کہ ایک دوسرے کا گریبان پکڑو، ایک دوسرے کے لیے پاکستان کی زمین تنگ کر دو، ہمیں یہ نہیں دیکھنا، ہمیں یہ نہیں سیکھنا ہے، کیونکہ ہماری اسلامی تعلیمات ہمیں ہی سب نہیں سکھاتی ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں انسانیت کی خدمت اور ایک دوسرے کا احترام کا سبق دیا ہے۔ ہمیں اپنی اسلامی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے آگے کی طرف بڑھنا ہے، ورنہ ہمیں بیرونی اور اندرونی طاقتیں بہت نقصان پہنچا سکتی ہیں، جس طرح ابھی پہنچارہی ہیں۔ ہمیں ایک ہوکر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

پاکستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں بیرونی قوتوں کو ہمیشہ اندرونی عناصر کا تعاون حاصل رہا ہے۔ آپ تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے جس ملک کو ختم کرنا ہو پہلے وہاں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے۔

ہمیں یعنی عوام کو ایک ہوکر اپنے اندر سے بے حسی نکال کر اپنے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا، ہم یہ ذمے داری اداروں پر ڈال کر خود کو آزاد تو کرلیتے ہیں مگر ہم کو ان اداروں کی مدد کرنی ہوگی، اداروں کو ناکام کہہ دینے سے مسائل ختم نہیں ہوں گے۔ ہمیں بھی اپنے لوگوں کی مدد کرنی ہوگی تو ہی پاکستان کے دشمن کو منہ توڑ جواب دے سکیںگے۔ دہشتگرد ملکی ہوں یا پھر غیر ملکی، ہمارے حساس اداروں کا کام ہے کہ جو ان کی لوگوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں ان کو ختم کریں اور ہم عوام بھی ان اداروں کی مدد کریں۔

ملک کو نقصان پہنچانے کی سازش تو بہت عرصے سے چل رہی ہے، مگر عقل حیران ہوتی ہے جب میں اپنے ملک کے ذمے دار لوگوں پر نظر ڈالتی ہوں کہ وہ اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ ملک دشمن عناصر تو ہم پر ظلم کررہے ہیں مگر افسوس صد افسوس ہمارے اپنے لوگ ہمارے حکمران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ہی مصروف ہیں۔ نہ جانے یہ کب جاگیںگے، کب ہوش میں آئیں گے۔

پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی عالمی سازش تو نہیں ہورہی، یہ دیکھنا ہوگا۔ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو چاہتی ہیں پاکستان مستحکم نہ ہو، تبھی روز اب سرکاری اہلکاروں کو ٹارگٹ بنایا جارہا ہے۔ یہ ادارے جو عوام کو تحفظ دینے کے لیے ہر وقت کوشاں ہیں۔ رینجرز، آرمی، پولیس اور حساس ادارے سب نے مل کر کراچی میں بہت امن کی فضا بنائی ہے، ان لوگوں کی محنت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس امن کی فضا کو عرصے سے خراب کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ہم پاکستانی عوام کو اب مل کر کام کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔