استعفیٰ سے نااہلی تک

عمران شاہد بھنڈر  بدھ 2 اگست 2017
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

مشترکہ تحقیقی ٹیم کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان کی تقریبا سبھی بڑی سیاسی جماعتیں وزیرِاعظم نواز شریف،جوکہ اپنے خاندان اور ساتھیوں سمیت نامزد ملزم تھے، سے مطالبہ کر رہی تھیں کہ وہ مستعفی ہوجائیں اور خود پر لگے ہوئے الزامات کو عدالت میں غلط ثابت کردیں۔

منتخب وزیرِاعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنا کوئی ایسا عمل نہیں تھا جو پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہی مطالبہ میاں محمد نواز شریف پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے ’’منتخب‘‘ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی سے یہ کہہ کر چکے تھے کہ پہلے استعفیٰ دیں اور عدالت میں پیش ہو کر خود پر لگے الزامات کا سامنا کریں، اگر وہ الزامات غلط ثابت ہوگئے تو دوبارہ وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھال لیں۔ لہذا میاں نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ ان کے اپنے ہی فعل کی ایسی بازگشت ہے جسے وہ خود سننے اور تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔

اس کے برعکس نواز لیگ کے وزرا اور مشیروں کی جانب سے کچھ ایسا جارحانہ رویہ مسلسل سامنے آتا رہا ہے کہ جس کے بارے میں بظاہر تو یہی کہا جارہا ہے کہ یہ جمہوریت کے خلاف ’’سازش‘‘ کا ردِ عمل ہے، لیکن ملک کے ایک اعلیٰ ادارے کی قائم کردہ تحقیقی ٹیم کے خلاف انتہائی غیرمہذب زبان کا استعمال کیا گیا اور اس پر مستزاد یہ کہ اسے ’’جمہوریت‘‘ کا دفاع قرار دینا بذاتِ خود جمہوری اقدار سے نابلد ہونے کا نتیجہ ہے۔

دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ نواز شریف سے کسی عسکری ادارے نے مستعفی ہونے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا تھا بلکہ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جماعتِ اسلامی، پاک سر زمین پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں تھیں جو وزیرِ اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔

یہاں پر دو قسم کی متضاد آرا کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف ، جماعتِ اسلامی اورایم کیو ایم سمیت دیگرکئی جماعتیں جو کہ مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی تھیں، کیا ان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ سب ’’جمہوری سیاسی جماعتیں‘‘ ایک اور ’’جمہوری سیاسی جماعت‘‘ نواز لیگ سے غیر سیاسی وغیر جمہوری عمل کا مطالبہ کر کے کسی ’’سازش‘‘ کی مرتکب ہو رہی تھیں؟حقیقت یہ ہے کہ استعفیٰ کا مطالبہ اپنی سرشت میں ایک جمہوری عمل ہے اور وہ سیاسی جماعتیں جو یہ مطالبہ کر رہی ہیں وہ اس مطالبے کی اہمیت کو سمجھتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ استعفیٰ پیش کرنا بھی ایک ’جمہوری‘ عمل ہے۔ البتہ استعفیٰ کا پیش نہ کرنا ایک غیر جمہوری عمل کہلاتا ہے۔

’’ترقی یافتہ جمہوری‘‘ ممالک میں استعفیٰ پیش کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ ان ممالک میں’’بدعنوانی‘‘ پر استعفیٰ پیش کرنا تو بہت بعد کا معاملہ ہے، ان ممالک میں تو اگرکوئی سیاسی رہنما کسی بھی سیاسی قضیے کے بارے میں ایک موقف رکھتا ہے اور اگر عوامی رائے سے اس موقف کی تصدیق نہیں ہوتی تو وہ خود مستعفی ہوجاتا ہے۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے اندر ٹونی بلیئر کے بعد گورڈن براؤن اور ایڈ ملی بینڈ آئے اورپالیسی سیاست پر مستعفی ہوگئے۔دیگر دو بڑی جماعتوں جیسا کہ کنزرویٹو اور لبرل ڈیموکریٹ میں بھی ایسی ہی صورتحال رہی ہے۔

ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں اصل اہمیت ایک نظریاتی سیاسی جماعت اور اس کی اختیار کی گئی سماجی، سیاسی اور معاشی پالیسیوں کی ہوتی ہے۔ ’’ترقی یافتہ‘‘ سرمایہ دارانہ ممالک میں سیاسی جماعت کسی شخصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ جمہوری اقدارکے احترام سے مستحکم ہوتی ہیں۔جن مغربی ممالک کی پاکستان کے سیاستدان مثالیں دیتے ہوئے نہیں تھکتے وہاں ایک سیاسی جماعت کا سربراہ رخصت ہوجائے تو کچھ عرصے کے بعد اس کا نام بھی لوگوں کے اذہان سے حذف ہو جاتا ہے، مگر سیاسی جماعت اپنے وجود کو برقرار رکھتی ہے اور برسرِ اقتدار آنے کے لیے اپنی پالیسیوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش میں مگن رہتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے اندر اپنی خاندانی آمریت کو برقرار رکھنا اور بعد ازاں یہ دلیل پیش کرنی کہ یہاں ابھی جمہوریت بالغ نہیں ہوئی ہے، بذات خود ایک آمرانہ روش ہے۔’جمہوریت‘ کو ’بالغ‘ ہونے کے لیے محض وقت ہی نہیں درکار ہوتا، بلکہ سیاسی جماعتوں کا اس جمہوریت کی جانب رویہ ہی جمہوریت کی بلوغت کا باعث بنتا ہے۔ یہ رویہ اپنے عمل اور پھر اس عمل پر مسلسل غور کرنے سے تشکیل پاتا ہے۔ وہ سیاسی جماعتیں جو حقیقی معنوں میں جمہوری پالیسیوں میں دلچسپی رکھتی ہوں اور شخصیات کو صرف اتنی ہی اہمیت دیں جتنا ان کی فکر جمہوری پالیسیوں سے مطابقت رکھتی ہو تو سیاسی عمل میں ایسی ہی شخصیات کی فکری جہت کو صحیح معنوں میں سیاسی بلوغت کی حامل فکر کہا جاسکتا ہے۔

اپنے سیاسی، معاشی اور نظریاتی اقتدار کو طول دینے کی خاطر سارے ’’جمہوری عمل‘‘ کو خطرے سے دوچار کردینا اور اس سارے سیاسی عمل کو اپنی شخصیت اور خاندان کی ترجیحات کا تابع سمجھنا ایک غیر جمہوری عمل ہی نہیں بلکہ ایک آمرانہ طرزِ فکرہے، جس کا نقصان ’’جمہوری عمل‘‘ کو پہنچتا ہے۔جماعتی سیاست کا تقاضا ہے کہ شخصیت کو سیاسی جماعت کے حوالے سے ثانوی حیثیت دی جائے اور ’بحرانوں‘ میں کسی سیاسی جماعت پر اپنی آمریت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے کی بجائے اپنی سیاسی جماعت اور بحیثیت مجموعی اس طریقہ کار کو بچایا جائے جس کو ’مقدس‘ گردان کر اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پختہ جمہوریت بحرانوں میں ’مستحکم‘ فیصلے کرنے کا نام ہے، بحرانوں میں ’’مضبوط‘‘ رویہ دکھانا ہی مستحکم جمہوری اقدار کی علامت ہے۔ جہاں کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنما کی یہ خواہش ہوکہ سیاسی جماعت کا ہر کارکن اس کی سیاسی جماعت پر تاحیات آمریت کو برقرار رکھنے کا وسیلہ ہو، جہاں جمہوری اقدارکو قربان کر کے سیاسی جماعتیں ایک فرد اور اس کے خاندان کے دفاع میں لگ جائیں تو ایسی ہی ترجیحات کو غیر جمہوری کہا جاتا ہے، اگر نواز شریف یا ان کی جماعت کے دیگر کارکن یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کی اجارہ داری ختم ہونے کے بعد ان کی ’جماعت‘ بھی آخری سانسیں لے رہی ہوگی تو اس کا واحد مطلب یہی نکلتا ہے کہ نواز لیگ ابھی ایک سیاسی جماعت نہیں بن سکی، بلکہ ایک شخصیت کے گرد جمہوریت کے نام پر چند لوگ جمع ہوکر اپنے سیاسی، معاشی اور نظریاتی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔

نظریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شخصیات کی پرستش کرنا جدید جمہوری نظریات کی نفی ہے، اس رویے کا گہرا تعلق جاگیردارانہ نظام کے ساتھ ہے۔ حقیقی سیاسی جماعتیں شخصیات سے نہیں نظریات سے نمو پاتی ہیں اور پروان چڑھتی ہیں، جب کہ عظیم شخصیات بھی وہی ہوتی ہیں جن کے نظریات بلند ہوتے ہیں۔ یہاں نظریہ شخصیات کا تعارف ہوتا ہے، اور شخصیت نظریے کی علامت بن جاتی ہے۔دونوں کے درمیان ایک جدلیاتی تعلق استوار ہوتا ہے، جو دونوں ہی کو مستحکم کرتا ہے۔

جہاں نظریے کا فقدان ہو اورشخصیت یکطرفہ طور پر مضبوط ہوتو اسے جمہوریت کی مضبوطی نہیں کہا جاسکتا۔ جدید ’’جمہوریت‘‘ بذات خود ایک سرمایہ دارانہ نظریہ ہے، جس کی گہرائی میں اتر کر، اسے سمجھ کر ہی مستحکم بنیادوں پر استوار کیا جاسکتا ہے۔ بصورتِ دیگر ’’جمہوری سیاسی جماعت‘‘ کا الم بلند کرتے ہوئے اسے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے استعمال کرنا ایک جاگیردارانہ فکر سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

موجودہ حالات میں اگر پارٹی کے اندر یہ سوچ موجود ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد بطورِ ایک سیاسی جماعت نواز لیگ اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ پائے گی یا پارٹی کی بقا کے لیے یہ ضروری ہے اس کی سربراہی کی منتقلی اسی خاندان کے اندر ہو ، جیسا کہ پارٹی کے اراکین کے رویوں سے دکھائی بھی دے رہا ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ جماعت کبھی ایک حقیقی اور جمہوری سیاسی جماعت بن ہی نہیں پائی تھی۔

حیرت تو اس بات پر ہے کہ پارٹی کے اراکین بھی شخصیت پرستی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ بجائے اس کے کہ پارٹی کے اندر جمہوریت لانے کی سعی کریں وہ نواز شریف کی پارٹی پر تاحیات آمریت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس طرزِ فکر کی بنیاد پر یہ کہنا کہ جمہوریت ’’مستحکم‘‘ ہو رہی ہے، جمہوریت کے ساتھ ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔