تعلیم یافتہ نئے لوگوں کے آنے سے فلم انڈسٹری کا ماحول تبدیل ہو گیا، ارمینا خان

قیصر افتخار  بدھ 2 اگست 2017
ٹی وی ڈرامہ پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے،پاکستانی فیشن انڈسٹری کی ترقی حیران کن ہے مجھے بھی ماڈل ہونے پر فخر ہے، ارمینا۔ فوٹو: فائل

ٹی وی ڈرامہ پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے،پاکستانی فیشن انڈسٹری کی ترقی حیران کن ہے مجھے بھی ماڈل ہونے پر فخر ہے، ارمینا۔ فوٹو: فائل

 لاہور:  اداکارہ وماڈل ارمینا رانا خان نے کہا ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان فلم ڈائریکٹرز ،ایکٹرز اور نئے فلمسازوں نے انڈسٹری کا ماحول تبدیل کردیا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔

’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو میں ارمینا رانا خان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں فلم انڈسٹری کا بحران ختم ہونے کی امید پیدا ہوگئی ہے کیونکہ اب مسلسل فلمیں بننا شروع ہوگئیں ہیں جو مثبت تبدیلی کی علامت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیم یافتہ نوجوان فلم ڈائریکٹرز، ایکٹرز اور نئے فلمسازوں نے انڈسٹری کا ماحول تبدیل کردیا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ پاکستانی ڈرامہ ہر حوالے سے پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی فیشن انڈسٹری کی ترقی حیران کن ہے مجھے بھی ماڈل ہونے پر فخر ہے۔

اداکارہ نے کہا کہ لاہور کو فن و ثقافت کا گہوارا کہا جاتا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے فن اور ثقافت میں واقعی ہی لاہور اپنی مثال آپ ہے۔ ہماری بات توالگ ہے ، ہمارے پڑوسی ممالک سے آنے والے لوگ اور خاص طورپرمعروف فنکار بھی جب تاریخی عمارات کو دیکھتے ہیں توان کا دل خوش ہو جاتا ہے۔ لاہور کی تاریخی اہمیت اورکلچر واقعی ہی بہت الگ اورسب کو متاثر کرنے والا ہے۔ لوگوں کو رہن سہن، بول چال اورمہمان نوازی کی جھلک کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ اگر ایسے کلچر کوفلموں کا حصہ بنایا جائے تودنیا بھر کو اپنی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔

ارمینا رانا خان نے کہا کہ دیکھا جائے تودنیا بھرمیں بننے والی فلموں میں اکثراپنی ثقافت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ اگرہم بات کریں ہالی وڈ کی تووہاں پربننے والی فلمیں اپنے کلچر کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہاں پرپہنے جانے والے ملبوسات، اسلحہ اور اسی طرح کی جو منفی سرگرمیاں دکھائی جاتی ہیں، وہ ان کے ملکوں کی عکاس ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہم بھارت کی بات کریں تو وہاں پرجدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنے ملک کے کلچر کو بڑی محنت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے جہاں اچھی چیزیں دکھائی جاتی ہیں، وہیں غریب طبقے پر ہونے والے مظالم بھی فلموں کا حصہ بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے گیتوں میں مختلف تہواروں کو جس طرح سے زندہ رکھا جاتا ہے، اگر یہی سلسلہ پاکستانی فلموں میں بھی شروع ہوجائے تواس سے پاکستان کا سافٹ امیج پوری دنیا تک پہنچ سکتا ہے۔

اداکارہ نے کہا کہ پاکستان میں تاریخی عمارتوں کا ایسا خزانہ موجود ہے، جن کو اگرفلموں کا حصہ بنا کرکثیرسرمائے سے مسلم حکمرانوں پر فلمیں بنائی جائیں تو نوجوان نسل کوبرصغیر کے حوالے سے بہترین معلومات بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔ مگراس کے لیے بہت محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹاسک مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔