گھانا میں رقاص جنازہ برداروں کی خدمات حاصل کرنے کا انوکھا رجحان

عبدالریحان  جمعرات 3 اگست 2017
مُردوں کو آخری آرام گاہ کی جانب ناچتے ہوئے لے جایا جاتا ہے
 ۔  فوٹو : فائل

مُردوں کو آخری آرام گاہ کی جانب ناچتے ہوئے لے جایا جاتا ہے ۔ فوٹو : فائل

خونی رشتوں کا بچھڑ جانا ہر ایک کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے۔ دنیا سے منھ موڑ جانے والے رشتوں کی آخری رسومات، ہر مذہب کے ماننے والے غم و الم کی کیفیت سے گزتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔

اپنے پیاروں کو سفر آخرت پر روانہ کرتے ہوئے ہر کسی کا دل دکھ درد سے بوجھل ہوتا ہے۔ اسی کیفیت سے گزرتے ہوئے وہ اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔ مگر گھانا میں آنجہانی کے لواحقین اور عزیزواقارب کے دلوں پر طاری بوجھل پن کو ہلکا کرنے کے لیے ایک عجیب و غریب رسم شروع ہوگئی ہے۔ یہ رسم ملک کے طول و عرض میں تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔

گھانا کی اکثریتی آبادی عیسائی ہے۔ عیسائی اپنے مُردوں کو تابوت میں بند کرکے قبر میں دفناتے ہیں۔ عام طور پر آخری رسومات کے لیے تجہیزوتکفین کے کام سے وابستہ کمپنی یا پیشہ ور افراد کی باقاعدہ خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ لوگ تدفین کے لیے لاش تیار کرنے کے بعد اسے تابوت میں بند کرتے ہیں اور پھر گاڑی میں رکھ کر قبرستان میں پہنچاتے ہیں۔ وہاں پہنچنے کے بعد تابوت گاڑی سے نکال کر کاندھوں پر اٹھاکر قبر کے قریب لے جاتے ہیں اور آخری رسومات و مناجات کے بعد قبر میں اتار دیتے ہیں۔

تابوت کو اٹھانے والے بڑے احترام اور احتیاط کے ساتھ اسے لے کر چلتے ہیں۔ مگر نئی رسم کے تحت تابوت اٹھانے کے لیے ان جنازہ برداروں کی خدمات حاصل کی جانے لگی ہیں جو تابوت کو آخری آرام گاہ کی طرف لے جاتے ہوئے رقص کرتے ہیں اور اسی طرح ناچتے ہوئے مُردے کو قبر میں اتارتے ہیں۔

بنجمن ایڈو نے رقاص جنازہ برداروں کی خدمات فراہم کرنے کا کاروبار گذشتہ برس شروع کیا تھا۔ ان دنوں اس کے پاس ایک سو مرد اور عورتیں ملازم ہیں، جن کا کام رقص کے انداز میں تابوت کو لے کر چلنا ہے۔ بنجمن کے مطابق جنازہ برداروں کو کئی اقسام کے رقص کی تربیت دی گئی ہے۔ جنازہ بردار تابوت کو کاندھوں اور پیٹھ پر لے کر چلتے ہیں۔ اس دوران رقص کے انداز میں گھوم بھی جاتے ہیں۔ کبھی یکدم ایسا جھٹکا کھاتے ہیں کہ تابوت گرنے ہی والا ہوتا ہے۔ اس لمحے مُردے کے لواحقین کی چیخیں نکل جاتی ہیں مگر اگلی ہی ساعت میں وہ بڑے ماہرانہ انداز میں تابوت سنبھال لیتے ہیں۔

بنجمن کے منفرد کاروبار اور اپنے پیاروں کو دل چسپ انداز میں الوداع کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک دستاویزی فلم بنائی تھی۔ فلم میں بات چیت کرتے ہوئے بنجمن نے کہا کہ رقص کی اقسام کے لحاظ سے معاوضہ بھی الگ الگ ہے۔ اگر لواحقین زیادہ ’ دھوم دھڑکے‘ سے مُردے کی رخصتی کے خواہش مند ہوں تو اس کا معاوضہ زیادہ ہوگا۔ بنجمن کا کہنا ہے کہ رقاص جنازہ برداروں  کا فن بعض اوقات  مُردوں کے لواحقین کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ لے آتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔