یہ کیسی سیاست ہے؟

عابد محمود عزام  جمعـء 4 اگست 2017

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ سیاست کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے۔ دنیا بھر میں یہ بات تسلیم بھی کی جاتی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب سیاست ’’خدمت‘‘ سے نکل کر ایک ’’تماشے‘‘ کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاست کے کوچے میں نہ تو کوئی اصول و ضوابط ہیں اور نہ ہی اخلاقیات کا گزر ہے۔ جس پر جب چاہو الزامات کی بوچھاڑ کردو۔ جب چاہو کسی کی عزت کو داغدار کردو۔ اپنے کارکنوں کو دوسروں کے خلاف ہمیشہ نفرت سکھاؤ، تاکہ وہ اندھی تقلید میں دوسری پارٹی کی اچھی بات کی حمایت کرنے کا بھی نہ سوچ سکیں اور اپنی جماعت کی قابل اصلاح باتوں کی جانب بھی انگلی نہ اٹھائیں۔ سیاست میں اخلاقیات کا فقدان اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی رسم تو بہت پرانی ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہورہا ہے۔

اب تو یوں لگتا ہے کہ سیاسی اقدار میں غیر اخلاقی زبان کا استعمال، غیر حقیقی الزام تراشیاں، مخالفین پر کیچڑ اچھالنا، جھوٹ بولنا اور نفرت پھیلانا ایک آرٹ کی شکل اختیار کرچکا ہے اور سیاست دان بہترین آرٹسٹ ہیں۔ اخلاقیات اور سیاسیات کا تعلق صدیوں پرانا ہے۔ بہت سے قدیم اور جدید مفکرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بسا اوقات سیاست غیر اخلاقی ہوتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سیاست کے مثالی اصول و ضوابط طے نہیں کرسکتے۔

ہم سب مل کر سیاست میں بہت عمدہ اصول و ضوابط مرتب کرسکتے ہیں، جن میں اخلاقیات اور بحیثیت انسان مخالفین کا احترام کرنا بھی شامل ہو، لیکن ہم سب خود ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ ہمیشہ منفی پوائنٹس کو فروغ دینے کی ہی کوشش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی اور جذباتیت میں اضافہ ہوتا ہے۔کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، لیکن اب تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کی آنکھیں بھی ناکارہ اور ہاتھ مفلوج ہیں، صرف زبان چلتی ہے۔

زبان کو ہمیشہ اپنوں کی مدح سرائی اور دوسروں کی ہرزہ سرائی میں مشغول رکھا جاتا ہے۔ سیاست دان پارلیمنٹ اور ٹاک شوز میں لڑتے ہیں۔ ان کی یہ لڑائیاں چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا پر عوام کے سامنے آتی رہتی ہیں۔ سیاست دانوں کی پریس کانفرسز، تقاریر، جلسے جلوسوں میں ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار ہوتی ہے اور یہ سب کچھ بہت فخر سے کیا جاتا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے، توہین کرنے، الزامات لگانے، اپنے جھوٹ کو سچ اور دوسرے کے سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کا نام سیاست بن گیا ہے ۔ کبھی تو سیاست دان جوش خطابت میں ایسی ایسی باتیں کرجاتے ہیں کہ بعد میں تنہائی میں ان پر غور کر کے شرمندہ بھی ہوتے ہوں گے، لیکن بعض اوقات دوسروں کو بدنام کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

یہ سب کچھ کرتے ہوئے انھیں بالکل بھی خیال نہیں آتا کہ اگرچہ وہ چھپ کر دوسروں کو بدنام کرنے کی سازش تیار کر رہے ہیں، لیکن اوپر ایک ذات سب کچھ دیکھ رہی ہے، جو وقت آنے پر سارا حساب لے گی اور دنیا میں بھی اس کا بدلہ دے سکتی ہے۔جب ملک کے رہنما ہی عدم برداشت کوفروغ دیں گے، دوسروں کو ذلیل کرنا سکھائیں گے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر غیراخلاقی طریقہ اختیار کریں گے تو کارکنوں میں سدھار کس طرح سے آسکتا ہے۔ ماضی میں قومی رہنما اپنے قول و فعل میں اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ ان کے بولے ہوئے کسی لفظ اور اٹھائے ہوئے کسی قدم سے سننے اور دیکھنے والوں خصوصاً نوجوان نسل کے اخلاق و کردار پر کوئی منفی اثر نہ پڑے، لیکن آج تو شاید جان بوجھ کر کارکنوں اور نوجوانوں کو یہ سب بتایا جاتا ہے تاکہ وہ بھی لیڈروں کی طرح مخالفین کے ساتھ بدتمیزی کے ساتھ پیش آئیں۔

جوشیلے سیاسی لیڈر ٹاک شوز میں بھی نہ کہنے والی باتیں کہہ دیتے ہیں۔ کھل کر ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ مخالفین کو عجیب و غریب، گھٹیا اور اخلاق سے عاری خطابات سے نوازا جاتا ہے، جو پورے معاشرے اور خصوصاً نوجوانوں کے اخلاقیات کے لیے زہر قاتل ہے۔ قومی سیاست میں غیر شائستہ زبان کے استعمال سے جمہوری، سیاسی اور اخلاقی اقدار کی عمارت کھوکھلی ہورہی ہے۔ خود کو ملک و قوم کا خادم کہنے والے سیاستدانوں پر ضروری ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق ترتیب دیں، تاکہ اختلاف رائے اخلاقی حدود نہ پھلانگ سکے۔

عوام اپنے رہن سہن اور گفتار وکردار میں اپنے رہنماؤں کی اور بچے اپنے بڑوں کی تقلید کرتے ہیں، ان کے منفی رویوں کے اثرات پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حقیقت میں سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے اور خدمت کرنا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے، لیکن اسے عبادت کا درجہ تبھی ملے گا جب انسانی فلاح کے لیے اور ایمانداری و دیانتداری سے سیاست کی جائے۔

ہمارے سیاستدان جس سیاست کو عبادت قرار دیتے ہیں، اس سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے اخلاقیات اور انسانیت کو بھی تاراج کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ترقی و اقتدار کے لیے نہ صرف دوسروں کی کردار کشی سے گریز نہیں کرتے، بلکہ کچھ لاشیں گرانی پڑیں تو اس سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ سیاستدانوں کو اپنے اندرونی خلفشار، مفادات اور گروہی سیاست کو ختم کرنا ہوگا۔ اپنے سیاسی مخالفین پر گھناؤنے، جھوٹے الزامات لگانے سے پرہیز کرنا ہوگا۔ تمام جماعتوں کے سیاست دانوں کو مل کر ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی آیندہ نسلوں کو کس قسم کا سماج دے رہے ہیں۔

اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ جس قسم کا رویہ تمام سیاست دان مل کر معاشرے میں پروان چڑھارہے ہیں، کیا یہ رویہ معاشرے کا امن و سکون برباد کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟ کیا اس قسم کے رویے سے معاشرے میں اتنہا پسندی اور نفرتیں جنم نہیں لے رہیں؟ سب کو مل کر سوچنا ہوگا کہ سیاست میں جوش سے نہیں، بلکہ ہوش سے کام لینا چاہیے۔ ایک دوسرے کی کردار کشی اور الزامات کی سیاست جاری رہی تو سیاسی رہنماؤں کی رہی سہی عزت بھی عوام کے دل سے نکل جائے گی۔

سیاسی پارٹیوں کے واجب الاحترام رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ آپس میں مل بیٹھ کر سیاسی ضابطہ اخلاق مرتب کریں، خود بھی اس پر عمل کریں اور اپنے کارکنوں سے بھی عمل کرائیں۔کارکنوں کی تربیت کریں۔ عوام میں جائیں تو انھیں ملک و قوم کی سلامتی ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے اپنے ٹھوس پروگرام سے آگاہ کریں۔ انھیں بتائیں کہ اگر کسی سے اختلاف ہو تو بھی اس کی توہین نہیں کی جاتی، بلکہ اختلاف کرنے کے باوجود احترام کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ انھیں ایک دوسرے سے لڑنے مرنے، دوسروں کی توہین کرنے، عزت اچھالنے اور الزامات لگانے کا نہیں، بلکہ وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کا راستہ دکھائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔