پاکستان میں گھریلو صنعتیں

سید بابر علی / اشرف میمن  اتوار 6 اگست 2017
یہ شعبہ کس حال میں ہے،  کیا ہیں اس کے امکانات؟ ۔  فوٹو : فائل

یہ شعبہ کس حال میں ہے،  کیا ہیں اس کے امکانات؟ ۔ فوٹو : فائل

بنیادی طور پر پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اسی وجہ سے زراعت کا شعبہ ٹیکس سے مبرا ہے، لیکن اگر مالی اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ صنعتوں کو حاصل ہے۔ اگر اس شعبے کو بھی زراعت کی طرح ٹیکس میں چھوٹ دی جائے تو یقیناً پاکستان بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کا لوہا منوا سکتا ہے۔

دنیا بھر میں صنعتوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے کی صنعتیں، درمیانی صنعتیں اور چھوٹی یا گھریلو صنعتیں جن میں دست کاریاں بھی شامل ہیں۔ کسی زمانے میں جاپان کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری نے پوری دنیا کی منڈیوں پر قبضہ کر رکھا تھا، لیکن چین کے مارکیٹ میں آنے سے مسابقت میں اضافہ ہوا اور پاکستان سمیت دنیا کے بیش تر ممالک کو بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی ملی۔ چین نے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو فروغ دیا۔ دنیا کی مینیوفیکچرنگ انڈسٹری میں ممتاز مقام حاصل کیا۔

اس کام کے لیے چینی حکومت نے چھوٹے سرمایہ کاروں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے، بجلی، گیس کے نرخوں اور ٹیکس کی مد میں رعایت دی۔ چینی حکومت نے دست کاروں کو گھریلو صنعتیں لگانے کے لیے قرضے فراہم کیے اور پانچ سال کے لیے انہیں ٹیکس کی ادائیگی سے بری الذمہ قراردیا۔ حکومت نے گھریلو صنعتوں میں بننے والی مصنوعات کو بین الاقوامی منڈی تک پہنچانے کا فریضہ بھی خود ہی سر انجام دیا۔ ان حکومتی اقدامات کی وجہ سے آج بین الاقوامی منڈیوں پر چین کا قبضہ ہے۔ چین نے خریدار کی قوت خرید کے مطابق مصنوعات تیار کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جس کی بدولت آج مارکیٹ میں چینی ساختہ مصنوعات کی ایک وسیع رینج موجود ہے، جو ہر خریدار کی دسترس میں ہے۔

پاکستان میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد گھریلو صنعتوں سے روزگار کما رہی ہے۔ ملک کے طول وعرض میں دیہات و شہروں میں قایم قالین بافی، ٹیکسٹائل، ایمرائیڈری، زیورات، ہینڈی کرافٹ، کھیلوں کے سامان کی صنعتیں ملک میں کثیر زرمبادلہ لانے میں پیش پیش ہیں۔ اگر گھریلو صنعتوں کی بات کی جائے تو پاکستان کے دیہی علاقے اس کے فروغ میں نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ سندھ اپنی ثقافتی اشیاء، دست کاری کے کام کے لیے مشہور ہے تو بلوچستان میں ہونے والے سلائی کڑھائی کے کام کی دنیا بھر میں بہت زیادہ طلب ہے۔ پنجاب جراحی کے آلات، کھیلوں کا سامان، مٹی کے برتن جب کہ خیبر پختون خوادیدہ زیب اور نفیس شالوں اور عمدہ پشاوری چپلوں کے حوالے سے مشہور ہے۔

پاکستان کے معاشی حب کراچی میں بھی لیڈیز چپل، چمڑے کے پرس، موم بتی، کھیس، چُنری، کڑھائی، جیولری، بیڈ شیٹس، کھلونے، چنگیر، ہاتھ کے پنکھے اور دیگر بہت سی اشیاء بڑے پیمانے پر تیار کی جاتی ہیں۔ صنعتی طور پر پس ماندہ ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں کم سرمایہ ر کھنے والے لاکھوں افراد گھریلو صنعتوں سے وابستہ ہیں۔ گھریلو صنعتوں میں عام طور پر مشینری کے استعمال کے بجائے دست کاری اور مہارت کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ گھر میں کارخانہ قائم کرنے کے لیے نہ تو زیادہ سرمائے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ زیادہ وسیع جگہ کی۔ اگر حکومت گھریلو صنعتوں کو فروغ دے تو پھر ملک سے بے روزگاری کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ ان صنعتوں کا فروغ بڑی صنعتوں کے قیام کی راہ ہم وار کرتا ہے۔

پاکستان میں گھریلو صنعتوں کا مستقبل روشن ہے۔ اسمال انڈسٹریز کا ملک کی گراس ڈومیسٹک پراڈکٹس (جی ڈی پی) میں حصہ صرف پانچ فی صد ہے، جس کا اہم سبب توانائی کا بحران، امن و امان کی مخدوش صورت حال اور حکومتی سرپرستی کا نہ ہو نا ہے۔ اگر حکومت پڑوسی ملک چین کی طرح چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے، بجلی، گیس اور ٹیکس کی چھوٹ دے تو کوئی بعید نہیں کہ ہماری اسمال انڈسٹریز میں بننے والی مصنوعات بھی چین کی طرح عالمی منڈیوں میں اپنا تسلط قایم کر سکیں۔

پاکستان میں گھریلو صنعتیں
پاکستان میں قایم چند اہم گھریلو صنعتیں درج ذیل ہیں:
دستی کھڈیوں کی صنعت
گھریلو صنعتوں میں دستی کھڈیوں کو صنعت و نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں ایک خاص پیشے کے لوگ گھروں میں کھڈیاں لگا کر کپڑا تیار کرتے ہیں۔ کھڈی پر بننے والے اعلیٰ معیار کی سوسی، کھیس، چنری، بوسکی، کراندی، شال اور اجرک کی طلب دنیا بھر میں بہت زیادہ ہے۔ سندھ اور کراچی میں بننے والے کپڑے سوسی اور اجرک کو پورے پاکستان میں بہت شوق سے پہنا جاتا ہے۔ فیصل آباد میں یہ کام پاور لومز سے بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔

مٹی اور چینی کے برتنوں کی صنعت
ظروف سازی کی صنعت بھی ہمارے ملک میں قدیم زمانے سے قائم ہے۔ چکنی مٹی سے بننے والے دیدہ زیب و خوب صورت برتنوں کو پاکستان سے دنیا بھر میں برآمد کیا جاتا ہے۔ گھروں میں قایم ان کارخانوں میں تیار ہونے والے کھانے کے برتن اور آرائشی ظروف دیکھنے والے کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتے ہیں۔ چکنی مٹی اور چینی کے برتن بنانے کے اہم مرا کز گجرات اور سیالکوٹ ہیں، جب کہ اس میں استعمال ہونے والا خام مال پاکستان میں ہر جگہ بہ آسانی دست یاب ہے۔

اسٹین لیس اسٹیل کی صنعت
کراچی میں لیاقت آباد کا علاقہ اس کام کا مرکز سمجھا جاتا ہے جہاں، اسٹین لیس اسٹیل کے برتن، چولہے، فاسٹ فوڈ میں استعمال ہونے والی مشینری تیار کی جاتی ہے، جب کہ پاکستان کا شہر وزیرآباد برتن سازی کا گڑھ سمجھا جاتاہے۔ گذشتہ چند برسوں میں اس صنعت نے تیزی سے فروغ پایا ہے اور اب یہ تقریباً ستر کروڑ روپے سالانہ کی صنعت بن چکی ہے ۔ اس صنعت میں لوہا، تانبا پیتل اور ایلمونیم جیسی دھاتوں سے چھوٹے پیمانے پر مختلف مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ وزیرآباد میں چاقو، چھریاں، سیال کوٹ اور گوجرانوالہ میں اسٹین لیس سٹیل کے برتن ودیگر سامان آرائش بڑے پیمانے پر تیار ہوتا ہے۔

ہوزری کی صنعت
ہوزری کی صنعت بھی پاکستان میں ترقی پذیر ہے۔ ملک کے ہر شہر اور دیہات میں اس صنعت کے مرا کز قائم ہیں جہاں بنیانیں، جرابیں، رومال اور سویٹر وغیرہ تیار ہوتے ہیں۔ چھوٹے پیمانہ پر تیار شدہ ہوزری کی مصنوعات کھلی مارکیٹ میں نسبتاً ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں۔ تاہم کراچی میں ہوزری کا کام کم پیمانے پر کیا جارہا ہے، جب کہ تیزی سے تباہ ہوتی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے منفی اثرات بھی اس صنعت پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔

خواتین کے جوتے
کراچی کے مختلف علاقوں میں گھروں میں قایم چھوٹے کارخانوں میں خواتین کی سینڈلز اور جوتوں کو بڑے پیمانے پر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ کارخانے اورنگی، کورنگی، نیو کراچی اور لانڈھی کے مختلف علاقوں میں واقع یہ کارخانے خواتین اور مردوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع پیدا کر رہے ہیں۔ یہ صنعت ملکی ضرورت کا کافی حصہ پورا کر رہی ہے، جب کہ یہاں بننے والی سینڈلز کو پورے ملک میں سپلائی بھی کیا جاتا ہے۔

گتے کی صنعت
اورنگی ٹاؤن، بھنگوریہ گوٹھ، لیاقت آباد اور نیو کراچی کا علاقے گودھرا کو گتے کے کام کے حوالے سے بہت اہمیت حاصل ہیں۔ ان علاقوں میں گھروں اور دکانوں میں قایم چھوٹے کارخانے پیکیجنگ میں استعمال ہونے والے گتے کے بڑے کارٹنز سے لے کر جوتے کے ڈبے بنانے میں بھی کافی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کارخانوں میں کام کرنے والے افراد کی اکثریت مردوں اور بچوں کی ہے تاہم کچھ کارخانے مال بنانے کے لیے گھروں میں بھی خام مال فراہم کردیتے ہیں اور خواتین گھر بیٹھے انہیں بنا کر باعزت طریقے سے روزگار کما رہی ہیں۔

دردوزی اور کاج چوبی کی صنعت
خواتین کے نت نئے ڈیزائن اور عروسی ملبوسات کی شان و شوکت دردوزی اور کاج چوبی کی صنعت سے مشروط ہے۔ یہ کام نہایت احتیاط کا متقاضی ہے، کیوں کہ کاری گر کی ایک معمولی غلطی ہزاروں روپے مالیت کے کپڑے کو خراب کرسکتی ہے۔ کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کو اس کام کا گڑھ کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں کہ تقریباً ہر تیسرے گھر میں یہ کام بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔ یہاں بننے والے خواتین کے گلے، بنارسی ساڑھیاں اور دوپٹوں کو نہ صرف پاکستان بل کہ دنیا بھر میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، لیکن دوسری گھریلو صنعتوں کی طرح یہ صنعت بھی حکومت کی توجہ کی طلب گار ہے۔ اگر اس صنعت کو فروغ دیا جائے تو ہم بین الاقوامی منڈی میں انڈیا، بنگلادیش اور دوسرے ممالک کی مارکیٹ کا خاطر خواہ حصہ لے سکتے ہیں، جس سے ملک کو خطیر زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔

کھیلوں کے سامان کی صنعت
پاکستان میں اس صنعت کا اہم مرکز سیالکوٹ ہے، جہاں ہر قسم کے کھیلوں کا سامان تیار ہوتا ہے۔ سیالکوٹ میں قایم کھیل کے سامان کی صنعت پاکستان میں کثیر زرمبادلہ بھی لاتی ہے۔ کھیل کا سامان کی ایکسپورٹ پاکستان کی کُل برآمدات کا تقریباً چار فی صد ہے۔ لکڑی اور چمڑا اس صنؑعت کا بنیادی خام مال ہے۔ سیالکوٹ اور اس کے گردونواح میں قایم سیکڑوں کارخانوں میں ہزاروں ہنرمند افراد فٹ بال، ہاکی، کرکٹ کے بلے اور ریکٹ بنانے میں دن رات مصروف رہتے ہیں۔ سالانہ بیس ارب روپے کی اس صنعت کا ملک کی معیشت اہم کردار ہے، جس میں اوسطاً ہر سال تقریباً 23 فی صد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔ سیالکوٹ میں بننے والے کھیلوں کے سامان کے خریداروں میں جرمنی، فرانس، برطانیہ ، اٹلی، اسپین، ہالینڈ، ہانک کانگ، ڈنمارک، کینیڈا، بیلجیم اور دبئی شامل ہیں۔ تاہم انڈیا، جاپان، تائیوان اور جنوبی کوریا کی جانب سے کم ہوتی قیمتوں کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات کو سخت مسابقت کا سامنا ہے۔

قالین بافی کی صنعت
چھوٹی صنعتوں میں قالین بافی کو اہم درجہ حاصل ہے۔ نہ صرف کراچی بل کہ پورے ملک میں قالین سازی کے کارخانے جا بہ جا قایم ہیں۔ ملک کی مجموعی برآمدات میں ان چھوٹے کارخانوں میں بننے والے قالینوں کا حصہ قابل قدر ہے۔ اس صنعت کے لیے سب سے اہم خام مال کپاس ہے۔ قالین بافی کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت خواتین او ر بچوں پر مشتمل ہے۔ دوسری صنعتوں کی طرح مزدوروں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کا رجحان یہاں بھی کافی زیادہ پایا جاتا ہے۔

چمڑے کی مصنوعات
پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور دیہات کی طرح کراچی میں بھی چمڑے کی مصنوعات بنانے کے مرا کز قائم ہیں۔ جہاں بننے والے خوب صورت جوتے، پرس، بیلٹ، بچوں کی جیکٹس ملکی ضروریات کو کافی حد تک پورا کرتے ہیں، جب کہ محدود پیمانے پر کچھ کارخانے اٹیچی کیس وغیرہ بھی تیار کرتے ہیں۔ چمڑے سازی کی صنعت سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔

گھریلو صنعتوں سے مرتب ہونے والے اثرات
گھریلو میں قایم صنعتیں نہ صر ف ملک سے بر روزگاری کا خاتمہ کرتی ہیں بل کہ یہ ملک میں کثیر زر مبادلہ بھی لاتی ہیں۔ کاٹیج انڈسٹریز ایسی خواتین کے لیے بھی روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہیں جو کسی وجہ سے گھر سے باہر جا کر نوکری نہیں کر پاتیں۔ قالین سازی، موم بتی سازی، اور ہینڈی کرافٹ کی صنعت ایسی خواتین کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرتی ہے۔

گھریلو صنعتوں کے فروغ سے پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اس سے غربت میں بڑی حد تک کمی آئے گی اور ملک کی معیشت کو وسعت حاصل ہوگی، چناں چہ حکومت اور متعلقہ اداروں کو پاکستان میں گھریلو صنعتوں کے قیام، ان کی ترقی اور فروغ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے چاہییں۔

سندھ اسمال انڈسٹریز کارپوریشن کا اجتناب
کراچی میں قایم چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کے حوالے سے موجود سرکاری اعداد و شمار جاننے کے لیے سندھ اسمال انڈسٹریز کارپوریشن، کراچی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ثروت سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی۔ کبھی ان کے پی اے کی جانب سے ’میڈم میٹنگ میں مصروف ہیں‘ کا جواب ملا تو کبھی کال بیک کروانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے ہمارا نمبر نوٹ کیا گیا، لیکن دو ہفتے تک متعدد کوششوں کے باوجود نہ ہی میڈم ثروت کی میٹنگز ختم ہوئیں اور نہ ہی انہوں نے رابطہ کرنے کی زحمت کی۔ نمائندہ ایکسپریس نے ان کے موبائل نمبر پر اپنا تعارف اور فیچر کے لیے درکار معلومات کے لیے ملاقات کا ایس ایم ایس بھی کیا لیکن جواب ندارد، لہذا یہ فیچر سندھ اسمال انڈسٹریز کارپوریشنز کے اعدا د و شمار اور حکام کی گفت گو کے بنا شایع کیا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔