میاں صاحب صاف فیصلے کریں

عبدالقادر حسن  ہفتہ 5 اگست 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میاں نواز شریف کی عدالتی فیصلے سے نااہلی کے بعد جمہوری عمل مکمل کرتے ہوئے پارلیمان نے نیا وزیر اعظم منتخب کر لیا۔ شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم منتخب ہوتے ہی حلف اٹھا کر کرسی سنبھال لی۔ نئے وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں بطور وزیر اعظم کم اور بطور مسلم لیگ نواز کے کارکن کے اپنی تقریر کی جس میں انھوں نے سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کو ہی اصل وزیر اعظم قرار دیا۔ انھوں نے بین السطور عدلیہ کے فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو فیصلہ قبول کر لیا ہے لیکن پاکستان کے عوام کے حقیقی وزیر اعظم اب بھی نواز شریف ہیں اور ایک عدالت اور بھی لگے گی۔

انھوں نے اپنی پارٹی اور پارٹی کے قائد سے وفاداری کا دم بھرا۔ انھوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ حکومتی امور چلانے کے لیے سابق وزیر اعظم سے ہی رجوع کریں گے جس کا اظہار انھوں نے حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز کر دیا جب وہ نواز شریف سے مشاورت کے لیے مری روانہ ہو گئے اور اس کے بعد بھی کابینہ کی تشکیل کی مشاورت کے لیے مری میں ہی موجود رہے ہیں جہاں پر نواز شریف اقتدار سے علیحدگی کے بعد قیام کر رہے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی پہاڑی علاقہ کے رہنے والے ہیں چونکہ میں خود بھی ایک پہاڑی علاقے کا رہنے والا ہوں اور ہم پہاڑی علاقوں کے رہنے والے بڑے سخت جان اور جفا کش ہوتے ہیں یہ ایک قدر مجھ میں اور ہمارے موجودہ وزیر اعظم میں مشترک ہے اسی نسبت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے آبائی علاقے کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی سوچ اور سمجھ بوجھ سے ملک کے اس اعلیٰ ترین منصب کی ذمے داریاں نبھائیں گے لیکن انھوں نے تو اپنے پہلے ہی اظہار خیال میں میرے اندازوں کی نفی کر دی جو کہ میں ان کے بارے میں لگائے بیٹھا تھا۔

وزیر اعظم کا منصب اس ملک کا اعلیٰ ترین منصب ہے اور اس کے اپنے تقاضے اور ضابطے ہیں اور اس منصب کی ذمے داریاں ہیں جو کہ اس پر بیٹھنے والے کے ذمے ہیں لیکن ایک منتخب وزیر اعظم یہ کہہ رہا ہے کہ اصل میں وزیر اعظم کوئی اور ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بطور ایک پارٹی کارکن شاہد خاقان عباسی صاحب کو یہ بھاری ذمے داری سونپی گئی ہے اور ان کی پارٹی نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے لیکن وہ خود ابھی تک اپنے آپ کو وزیر اعظم نہیں سمجھ رہے۔

تقریر کے دوران وہ اپوزیشن ارکان پر جملے بھی کستے رہے‘ ہاں البتہ انھوں نے ایک خوشخبری قوم کو سنائی ہے کہ نومبر تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ اس سے پہلے ان کے پیشرو بھی اسی طرح کی خوشخبریوں کی نوید دے چکے ہیں لیکن ابھی تک معاملات جوں کے توں ہی ہیں۔ بہرحال امید پر دنیا قائم ہے اور عوام اس امید میں ہیں کہ ان کے نئے وزیر اعظم کی بات سچ ثابت ہو گی اور ان کو اس مسلسل عذاب سے نجات مل جائے گی۔

نواز شریف کی تصویروں والے پوسٹر نواز لیگ کے ممبران رائے شماری کے بعد اپنے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے جس طرح اسمبلی میں لائے یہ اس بات کی طرف واضح اشارہ تھا کہ وہ اب بھی نواز شریف کو ہی وزیر اعظم سمجھتے ہیں اور ان کو نااہل کیا جانا غلط ہے۔

یہ شرارت جان بوجھ کر کی گئی تا کہ اس تاثر کو تقویت دی جا سکے کہ عدلیہ کے فیصلے کو قبول نہیں کیا گیا‘ یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔اس وقت نواز لیگ کی پارلیمانی پارٹی بھی اپنی جگہ موجود ہے اور جو قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کی پارٹی میں دراڑیں پڑنا شروع ہو جائیں گی ایسا معاملہ ابھی تک نظر نہیں آ رہا اور ان کے تمام اراکین اسمبلی یکجان ہو کر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اگرچہ چوہدری نثار نے بھی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی ان کی جانب سے بھی خاموشی ہے۔

شاید شہباز شریف نے ان کو راضی کر لیا ہے ان کی شکایات کا ازالہ کرنے کا یقین دلایا ہے اور یہ تو سب کو معلوم ہی ہے کی سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ یہی وہ طاقت ہے جس کے بل بوتے پر نواز لیگ ٹکڑاؤ کی جانب جا رہی ہے حالانکہ ان کو سیاسی انداز میں اپنے لیے موجودہ حالات میں سے ہی گنجائش نکالنی چاہیے اور یہ صورت باآسانی نکل سکتی ہے بات صرف صبر اور انتظار کی ہے۔

ہمارے حکمران بے صبرے اور جذباتی ہیں اور دن نکلنے سے پہلے ہی وہ سب کچھ دوبارہ حاصل کر لینا چاہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ ان کو ابھی احتساب عدالت کا سامنا بھی کرنا ہے جس کی نگرانی سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کر رہے ہیں، ایک طویل قانونی جنگ ان کی منتظر ہے وہ اس قانونی جنگ کو پس پشت ڈال کر اداروں کو ملعون کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کو حاصل وصول کچھ نہیں ہونا بلکہ معاملات مزید خرابی کی طرف ہی جائیں گے جس کے نتیجہ میں وہ اپنا اگلا انتخاب بھی مشکوک کر بیٹھیں گے۔

وزیر اعظم کے منصب کے اصل مالک نواز شریف ہی رہیں گے شاہد خاقان تو ان کی جگہ کام کرنے کو آئے ہیں یہ اظہار خیال گورنر سندھ محمد زبیر نے کیا ہے جو کہ سندھ میں وفاق کی نمایندگی کر رہے ہیں یعنی کہ ہر لیگی رکن اس بات پر تُل گیا ہے کہ وہ عدلیہ کے فیصلے کو نہیں مانیں گے۔ اس طرح کے بیانات سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوتا ہے اور نواز لیگ ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ مزید سیاسی نقصان برداشت کر سکیں۔ اس کا پہلا امتحان لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقے کا انتخاب ہے نواز لیگ کو اس کی بھر پور تیاری کرنی چاہیے اور ان کے اپنے بقول جواب سیاسی میدان میں دینا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔