وزیراعظم کی نااہلی، چند باتیں

مبین مرزا  اتوار 6 اگست 2017
ناانصافی کے ساتھ نہیں، دراصل انسانی سماج میں عدل و انصاف کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرتا ہے۔ فوٹو : فائل

ناانصافی کے ساتھ نہیں، دراصل انسانی سماج میں عدل و انصاف کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرتا ہے۔ فوٹو : فائل

پاناما لیکس کی بنیاد پر پاکستان تحریکِ انصاف کے عمران خان، عوامی لیگ کے شیخ رشید اور جماعتِ اسلامی کے سراج الحق کی طرف سے دائر کیے گئے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالتِ عالیہ نے عوامی مینڈیٹ رکھنے اور تیسری بار وزارتِ عظمی کے منصب پر فائز ہونے والے مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں محمد نوازشریف کو نااہل قرار دے دیا ہے۔

بعدازاں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی میاں نوازشریف کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا نوٹس جاری کردیا ہے۔ جملہ تفصیلات سے قطعِ نظر، اصولی طور پر یہ فیصلہ بڑا اور بہت اہم ہے۔ اس لیے نہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا ہمارے یہاں پہلا فیصلہ ہے، اور اِس لیے بھی نہیں کہ یہ فیصلہ ہمارے سیاسی نظام کو اندر باہر سے مکمل طور پر بدل کر رکھ دے گا، اور ایک نئے سیاسی کلچر کی بنیاد ثابت ہوگا۔ گذشتہ دورِ حکومت میں جب پیپلزپارٹی حکمران تھی، وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے احکامات اسی طرح جاری ہوئے تھے۔ سو، پوچھا جاسکتا ہے کہ اب اگر یہ احکامات میاں نواز شریف کے لیے جاری ہوئے ہیں تو اس میں خاص یا اہمیت کی ایسی کیا بات ہے؟

پہلی خاص بات یہ ہے کہ ان دونوں مقدمات کی نوعیت الگ الگ ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں یوسف رضا گیلانی وزیراعظم ضرور تھے، لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ اُس وقت طاقت اور اقتدار کا مرکز دراصل پریزیڈینٹ ہاؤس تھا، جہاں پارٹی کے شریک (اور عملاً مکمل) چیئرمین آصف علی زرداری بیٹھے ہوئے تھے۔ آج میاں نوازشریف نہ صرف اپنی پارٹی کے مطلق العنان سربراہ ہیں، بل کہ اقتدار کی ساری قوتوں کا منبع بھی آج وزیرِاعظم ہاؤس ہے۔ اس لیے یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف کی معزولی میں بہت فرق ہے۔

پھر یہ بھی کہ یوسف رضا گیلانی کا سیاسی کیریر بے شک طویل ہے اور اپنے سنگ ہائے میل بھی رکھتا ہے، لیکن نوازشریف کے سیاسی قد کاٹھ سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ان کی سیاسی حیثیت کچھ اور ہے، اور یہ بھی کہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کا یہ تیسرا دور ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ بینظیر کے بعد ملک میں پیپلزپارٹی کی سیاسی حیثیت بدل چکی ہے۔ یہ اب وہ پارٹی نہیں ہے، جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ اس کے برعکس سعودی عرب میں جبری یا اختیاری جلاوطنی گزارنے کے بعد جب شریف خاندان کی پاکستان واپسی ہوئی تو ان کی پارٹی کا عوامی اثر و رسوخ نہ صرف بحال ہوا، بل کہ اس میں اضافہ بھی ہوا۔ ان سب باتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ عدلیہ کا یہ فیصلہ اس بار ایک بڑی جماعت کی گہرا سیاسی رسوخ رکھنے والی شخصیت کے خلاف ہے، اس لیے الگ نوعیت رکھتا ہے۔ تاہم اس فیصلے کی اصل اہمیت کا اظہار فی الفور نہیں، بل کہ بعد میں ہوگا۔ اس لیے کہ اس کا انحصار کچھ اور باتوں پر ہے۔

اس طرح کے معاملات میں جیسا ہر بار ہوتا ہے، اس بار بھی ہوا۔ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا نے عدلیہ کے فیصلے پر عوامی ردِعمل کا ایک نقشہ تو یہ دکھایا کہ لوگ جوش و خروش سے خوشی منارہے ہیں، مٹھائیاں کھائی اور کھلائی جارہی ہیں، اور بتایا جارہا ہے کہ خود لاہور میں مٹھائی کی دکانیں خالی ہوگئیں۔ ہوسکتا ہے، ویسے اگر فیصلہ اس کے برعکس آتا تو بھی مٹھائی کی دکانوں کا حال یہی ہونا تھا۔ ایسے ہر موقعے پر دیکھا گیا ہے کہ عوام جذبات میں ہیں، دھت تیرے کی والا رونق میلہ ہی نظر آتا ہے۔

دوسری طرف ہمیں ایس ایم ظفر، عابد حسن منٹو، عاصمہ جہانگیر اور زاہد جمیل جیسے وکلا اور قانونی ماہرین کی رائے سننے کو ملتی ہے جو عدالتِ عالیہ کے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ فیصلے کے مطابق، 2013ء کے انتخابات کے لیے اپنی مالی حیثیت کا جو گوشوارہ نوازشریف نے جمع کروایا، اس میں دبئی میں ایف زیڈ ای سے دس ہزار درہم کی تنخواہ کا ذکر نہیں کیا، نہ اُسے اپنے اثاثے میں ظاہر کیا، چناںچہ آئین کی شق 62 اور 63 کی رُو سے وہ صادق اور امین نہیں رہے، سو نااہل قرار پاتے ہیں۔ قانونی ماہرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر ایک شخص کسی ادارے سے وابستگی کے زمانے میں کوئی معاوضہ نہیں لیتا تو اِس رقم کو اُس کے اثاثوں میں کیوںکر شمار کیا جاسکتا ہے اور نااہلی کی بنیاد کیسے بنایا جاسکتا ہے۔

ان ماہرین نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ یہ دونوں شقیں جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں آئین میں داخل کی گئی تھیں اور ان کا واضح مقصد یہ تھا کہ صدرِ مملکت ان کے ذریعے کسی بھی سیاسی منصب دار کے خلاف اپنے اختیار کو قانونی جواز کے ساتھ بوقتِ ضرورت استعمال کرسکے۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ یہ شقیں صادق اور امین کی جن شرائط پر سیاسی راہ نماؤں سے پورا اترنے کا مطالبہ کرتی ہیں، کیا جنرل ضیاء الحق خود ان پر پورا اترتے تھے؟ اس رائے کا اظہار بعض دوسرے قانونی ماہرین نے بھی کیا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے، اس میں کئی نکات نہ صرف یہ کہ تشریح طلب ہیں، بلکہ فیصلے کی بنیاد بھی کم زور نکات پر ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں صرف سیاست دانوں ہی کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں ہے کہ ہماری تاریخ کے مختلف ادوار میں ان کے اعمال، افکار اور کردار کے آگے سوالیہ نشان لگتا رہا ہے، بلکہ ہماری اشرافیہ کے اقدامات اور عدلیہ کے فیصلوں کے ضمن میں بھی بعض مواقع پر تشویش اور تکلیف کے حالات پیدا ہوئے ہیں۔ نظریۂ ضرورت جیسے معاملات ہی نہیں، بھٹو کیس میں مولوی مشتاق احمد کے سزائے موت جیسے فیصلے بھی عدلیہ نے پیش کیے ہیں۔ آج اگر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے، نظریۂ ضرورت کیا خود عدلیہ کے وقار کے منافی نہیں؟ علاوہ ازیں یہ بات تو سیاست اور قانون کے ادنیٰ طالبِ عالم بھی پورے تیقن کے ساتھ آج کہتے ہیں کہ جس کیس میں اور جن شہادتوں اور اصولوں کی بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو کے لیے سزائے موت کا پروانہ جاری کیا گیا، وہ حقیقتاً حق و انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔

تاہم اپنی عدلیہ کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے یہ بات بھلا دی جاتی ہے کہ اُس میں وہ لوگ بھی شامل رہے ہیں، جنھوں نے دنیا کی ہر چیز پر انصاف کو مقدم جانا اور اس کی عمل داری کے لیے مجاہدانہ کردار ادا کیا۔ انھوں نے جابر حکمرانوں اور انتظامیہ کی منہ زور قوتوں کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ اس کے لیے انھیں صبر و ابتلا کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا، لیکن انھوں نے اس کی مطلق پروا نہیں کی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ کہنا کہ کفر کے ساتھ معاشرے زندہ رہ سکتے ہیں، لیکن ناانصافی کے ساتھ نہیں، دراصل انسانی سماج میں عدل و انصاف کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرتا ہے۔ کسی سماجی ٹیکسچر میں اگر عدل کا خون شامل ہوجائے تو وہاں جو چیز سب سے پہلے ختم ہوتی ہے، وہ انسانیت ہے۔ انسانیت ہر چیز سے بے نیاز ہوسکتی ہے، لیکن عدل سے نہیں۔ یہ اُس کی بقا کا لازمی تقاضا ہے۔

نوازشریف کے خلاف عدلیہ کے اس فیصلے پر طرفین کا ردِعمل تو خیر فطری بات ہے، لیکن عوامی سطح پر جو تأثر پھیلا ہوا ہے، یہ ہے کہ ہم اس وقت ایک قومی بحران سے دوچار ہیں۔ اس تأثر کو بڑھانے اور گہرا کرنے میں الیکٹرونک اور سوشل میڈیا دونوں ہی کا غیرمعمولی حصہ ہے۔ سوشل میڈیا کی تو سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس پر آنے والی ہر شے بلا سوچے سمجھے آگے بڑھا دی جاتی ہے۔ نوجوانوں ہی پر موقوف نہیں، ہر عمر کے لوگوں کا یہ عام رویہ ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس کے ذریعے غلط فہمی، خوف اور وحشت کا پھیلاؤ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

اس حالیہ واقعے ہی کو سامنے رکھ لیجیے۔ فیصلے کے بعد اس میڈیا پر سیاست، حکومت، عدلیہ اور ملک کے بارے میں جو گفتگو ہوتی رہی ہے، وہ انتشار، پراگندہ خیالی، وہم اور ڈپریشن کے پھیلاؤ کے سوا اور کس مصرف کی تھی۔ سیاسی لوگوں کے تو خیر اپنے مفادات ہوتے ہیں جو اس طرح کی صورتِ حال میں پھیلنے والے کنفیوژن سے بھی حاصل کیے جاتے ہیں، لیکن عام آدمی کو تو سوچنا چاہیے کہ وہ ناسمجھی میں کن لوگوں کا آلۂ کار اور کن مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے، جب ہر آدمی خود کو ذمے دار حیثیت کا مالک سمجھتا ہو اور اپنے سماجی کردار سے باخبر ہو۔

عوام تو رہے ایک طرف، ہمارے یہاں اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ نوازشریف، مریم نواز، عمران خان اور بلاول زرداری جیسے لوگ بھی سوشل میڈیا کے استعمال میں ذمے داری کے احساس سے عاری نظر آتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے یہ محض جذباتی کیفیت میں ایسی باتیں کرجاتے ہیں کہ جو عوام کو الجھن سے دوچار کرتی ہیں۔ ویسے ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے کہ اگر ایسا ہی ہے تو یہ اور زیادہ افسوس کی بات ہے کہ اس سطح کی شخصیات کے شعور کی سطح یہ ہے کہ انھیں اپنے عوامی اثر و رسوخ کا اندازہ ہے اور نہ ہی اپنے اقدامات کے نتائج سے یہ واقف ہیں۔

ان سیاسی افراد کے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے خیالات ہی نہیں، خود اُن کی تقریروں اور میڈیا کو دیے گئے بیانات کو دیکھا جائے تو اُن سے بھی یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ یہ صرف اور صرف عوام کے جذبات سے کھیلنے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے یہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا، ضمنی، چھوٹی اور معمولی چیزوں کو بنیادی مسئلہ بنانا اور اصل اہمیت کے مسائل سے توجہ ہٹانا، خود کو تمام خطاؤں سے پاک اور مخالف کو شیطان ثابت کرنا، اپنے قول و فعل کے تضاد سے بے پروا ہوکر ہر بار عوام کی سادہ دلی کو عیاری سے اپنے حق میں استعمال کرنا ہمارے سیاسی افراد کی اکثریت کا روز مرہ معمول ہے۔ عوام کی شرم اور خدا کا خوف، کچھ بھی ان کی راہ میں حائل نہیں۔

عدلیہ کے فیصلے کے بعد جو گفتگو نوازشریف نے کی ہے وہ اعلیٰ عدالت کے وقار کے خلاف تو ہے ہی، خود قومی سطح پر اس رتبے کے سیاسی راہ نما کے لیے بھی نہایت افسوس ناک، ذلت آمیز اور لائقِ تعزیر گردانی جاسکتی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، فیصلے کے دو روز بعد پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں یومِ تشکر کا لمبا چوڑا جلسہ کیا۔ اس جلسے میں شیخ رشید اور عمران خان کی گفتگو میں بھی جس طرح کے نکتے تراشے گئے، وہ کسی بردبار قومی رہنما کو ہرگز زیب نہیں دیتے۔ شیخ رشید کو تو خیر چھوڑیے، اس وقت نہیں وہ تو ہمیشہ سے پھلجھڑیاں چھوڑنے اور مداری بن کر دکھانے میں عار نہیں سمجھتے۔

نوازشریف کی قیادت میں سیاسی زندگی کو قابلِ فخر سمجھنے کے بعد وہ پرویزمشرف کی سیادت میں وزیرِداخلہ ہوکر سیاست کے چوتھے آسمان سے نیچے آنا پسند نہیں کرتے تھے، اور اب عمران خان کے نام کا کلمہ پڑھتے اور اپنا سیاسی ایمان تازہ کرتے ہیں۔ اس لیے ان کا تو ذکر ہی کیا۔

ہاں عمران خان میں اب تبدیلی آنی چاہیے۔ نوازشریف کو ایوانِ اقتدار سے نکلواکر وہ عوام کے بڑے حلقے میں سرخ رُو ہوگئے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ نوازشریف کی پامالی میں کچھ اور فیکٹرز بھی کام کرتے رہے ہیں، کچھ اور قوتیں بھی متصرف رہی ہیں، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عدلیہ کے اس فیصلے نے عمران خان کو ایک بار تو پوری طرح عوام کی نظروں میں ہیرو بنا دیا ہے۔ اُن کے سیاسی قد و قامت میں یک لخت بہت نمایاں قسم کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر ایک آدھ ماہ میں کسی وجہ سے الیکشن کا شیڈول آجائے تو اس واقعے کا سب سے بڑا فائدہ عمران خان کی پارٹی کو پہنچے گا۔ عوامی جذبات اس طرح کے ماحول میں جو رنگ دکھاتے ہیں، وہ خاک کو لاکھ بنا دیتا ہے۔

کیا اس صورتِ حال میں عمران خان کا اندازِنظر، طرزِکلام اور سیاسی مزاج نہیں بدلنا چاہیے۔ یقیناً بدلنا چاہیے۔ ان کے اندر سے ایک بردبار، متحمل مزاج اور شائستہ گفتار سیاسی راہ نما کو برآمد ہونا چاہیے۔ انھیں اب یہ بات سمجھنا چاہیے کہ بڑا سیاسی راہ نما ایک سیاسی جماعت نہیں سنبھالتا، صرف اپنے نظریاتی اور سیاسی مخالفوں کو ہی نیچا نہیں دکھاتا، بلکہ وہ قومی شعور کو بڑھانے اور عوام کی تربیت میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ انھیں قائداعظم، شاہ فیصل، ماؤزے تنگ، نیلسن منڈیلا، اور مہاتیر محمد کی زندگی، کردار اور مزاج کو سامنے رکھنا چاہیے اور قیادت کا سبق سیکھنا چاہیے۔

یہ عجیب بات ہے کہ جب وہ کھلاڑی تھے تو ان کا انداز مدبرانہ تھا اور سیاست میں آکر وہ بڑھکیں مارنے والے فلمی ہیرو نظر آتے ہیں۔ اب جب کہ وہ ایک بڑا سیاسی ہدف حاصل کرچکے ہیں، انھیں لازماً اپنے انداز اور اطوار پر نظرِثانی کرکے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ سیاسی راہ نما اگر اپنا مزاج نہ بدلے تو یونی پولر دنیا کی واحد سپرپاور کا صدر بننے کے بعد بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح مسخرے پن کی حرکتوں سے باز نہیں آپاتا۔

اب رہی بات نوازشریف کے خلاف آنے والے فیصلے کی تو عدالتِ عالیہ نے جس بنیاد پر انھیں نااہل قرار دیا ہے، چاہے وہ کتنی ہی کم زور کیوں نہ ہو، اس کی اتنی قانونی حیثیت ضرور ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے پانچ کے پانچ ججوں نے اسے لائق اعتنا گردانا ہے۔ قانونی ماہرین یہ بھی صاف لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ خواہ کسی بھی وجہ سے عدلیہ نے فیصلہ نااہلی تک محدود رکھا ہو، لیکن اگر اُن کے کیس کو اس سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے تو اس میں وہ امکانات بھی ہیں جو اُن کی باقی ماندہ عمر کو سلاخوں کے پیچھے گزارنے کا جواز بن سکتے ہیں۔

عدل و انصاف کے فیصلوں میں اصولوں، حوالوں اور نظیروں کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اُن کی بنیاد پر بہت بڑے بڑے فیصلے آسانی سے کردیے جاتے ہیں۔نواز شریف کی نااہلی کے لیے کیا یہ جواز کافی نہیں ہے کہ ان کے سرمائے میں اضافے کا تناسب ان کی آمدنی سے ہم آہنگ نہیں ہے، کیا یہ جواز کافی نہیں ہے کہ وہ سیاست میں آنے کے بعد اپنے اثاثوں میں اضافے کی شرح کا کوئی بھی کاروباری ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں؟

نظیر کے طور پر کیا انھیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ واقعہ یاد نہیں ہے کہ جب ایک بدو نے انھیں خطبہ دیتے ہوئے ٹوک دیا تھا اور کہا تھا، ہم تمھارا خطبہ بعد میں سنیں گے، پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے جو کرتا پہنا ہوا ہے، وہ مالِ غنیمت سے ملنے والی چادر سے بنایا ہے، لیکن جس پیمائش کی چادریں تقسیم کی گئی تھیں، اس میں تمھارا کرتا نہیں بن سکتا، اس لیے کہ تم بلند قامت آدمی ہو، پھر تم نے یہ کرتا کیسے بنوالیا؟ گویا خلیفۃ المسلمین سے پوچھا گیا تھا کیا تم نے مالِ غنیمت سے اپنے حصے کی ایک چادر کے بجائے دو چادریں حاصل کی تھیں؟

اس پر خلیفۂ وقت نے پلٹ کر بدو پر کوئی الزام لگایا، نہ اُسے یاد دلایا کہ وہ کس کم تر حیثیت کا حامل ہے اور نہ ہی اس نظام عدل و معاشرت کے لیے کلماتِ اشتباہ و استرداد ادا کیے کہ جس میں ایک عام شہری کو خلیفۂ وقت سے ایسا استفسار کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ انھوں نے یہ سب کرنے کے بجائے تحمل سے اُس بے مایہ اور بے حیثیت شخص کی بات سنی اور اپنے بیٹے کی طرف دیکھا کہ وہ اس سوال کا جواب دے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خلیفۃ المسلمین کے بیٹے نے بھی سسٹم کی دہائی دی اور نہ ہی اپنی حیثیت کو جتایا، بل کہ اطمینان سے جواب دیا کہ اُس نے اپنے حصے کی چادر باپ کو ہبہ کردی، تاکہ ان کا کرتا بن سکے۔ اس لیے کہ اُن کے کپڑے بہت خستہ ہوچکے تھے اور انھیں کپڑوں کی ضرورت تھی۔

ہم سب جانتے ہیں، پاکستان میں اسلام کا نام ضرور لیا جاتا ہے، لیکن اس کی اقدار، نظامِ معاشرت و معیشت اور طرزِ حکم رانی کا اسلام سے ایسا کوئی خاص علاقہ نہیں ہے۔ تاہم عدلیہ، مقننہ، افواج اور اشرافیہ میں سے اگر کوئی بھی ادارہ ان اقدار کی طرف مائل ہو اور انھیں اختیار کرنا چاہے تو آئین اُسے روکتا نہیں، بلکہ اُس کے لیے معاون ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ واقعہ اسلامی ریاست میں عام فرد سے لے کر اعلیٰ حکام کے بلند ترین منصب تک کے ٹرائل کے لیے واضح اور مستحکم نظیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیرِاعظم میاں محمدنوازشریف اس سے مستثنیٰ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔