بِلو مہاراج کی یاد میں

سہیل احمد صدیقی  اتوار 6 اگست 2017
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

ّآج راقم بہت عرصے کی ٹال مٹول کے بعد، دیگر موضوعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے وقت کی ایک نہایت منفرد اور عظیم ہستی کے بارے میں لکھ رہا ہے، جس پر لکھنا قرض تھا اور اس خاکسار کے حلقے کی فرمائش بھی۔ جب پانچ جنوری سن دو ہزار تیرہ کو یہ ہستی اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئی تو میرے گھر کی ہر آنکھ اشک بار تھی اور اسے منوں مٹی تلے دفن کرتے ہوئے اُس کے چاہنے والے کا کیا حال ہوا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا محال ہے۔

بِلّو مہاراج واقعی ایسی ہی ’شخصیت‘ کے حامل تھے، بس اُنھیں اللہ نے عقل کی دولت سے نہ نوازا، ورنہ تو پتا نہیں کیا سے کیا ہوجاتا۔ ویسے اُن میں جتنی سوجھ بوجھ تھی بہت سے عقل مند بھی اُس سے محروم نظر آتے ہیں، جتنے فرماں بردار تھے، بہت کم لوگ ہوتے ہیں، جتنے خوددار تھے، بہت کم انسان ہوتے ہیں۔ بس وہ انسان نہ تھے، بِلّے تھے۔ ہنسیں نہیں! اتنا ’’پڑھا لکھا‘‘، ذہین، بل کہ کسی حد تک فطین، پالتو جانور کبھی دیکھا نہ سنا۔ آپ نے دیکھا ہوتو پورا مضمون پڑھنے کے بعد، مجھے اطلاع ضرور دیجے گا۔ بِلّو مہاراج سے ہمارا تعارف بالکل اتفاقیہ تھا۔ اُن کی ناسمجھ ماں انھیں ہمارے گھر کے دروازے پر اُس وقت تنہا چھوڑگئی تھی، جب وہ فقط چند روز کے تھے۔ رمضان شریف کے دن تھے ۔

جونہی ہمارے بہن بھائیوں کی نظر اُن پر پڑی، انھیں پیار کرکے دودھ پینے کی دعوت دی گئی، مگر بِلّو مہاراج کی خودداری نے گوارا نہ کیا کہ جھٹ سے دودھ نوش کرکے اس گھر کا احسان قبول کرلیں، سو انھوں نے کافی دیر تنگ کیا، نخرے کیے، پنجے مارے، بہرحال وہ چند روز میں مانوس ہوگئے تو پھر یہ ہونے لگا کہ ’مہمان خانے‘ [Drawing room]کی کھڑکی میں صبح سویرے آکر بیٹھ جاتے اور ناشتے کی فرمائش کرتے۔ زیادہ عرصہ نہ گزراتھا کہ وہ ہماری سب سے چھوٹی ہمشیرہ کے تعاون سے، گھر کے اندر مستقل قیام کے لیے تشریف لے آئے۔ ویسے تو اُن کا اپنی مرضی سے باہر آنا جانا لگا رہتا تھا ، مگر گھر میں بھی اُن کا ایک مخصوص گھر بنادیا گیا تھا، جس میں وہ اپنی مرضی سے ہی آرام فرماتے تھے اور اس امر کے لیے کوئی انھیں مجبور نہیں کرسکتا تھا۔

بِلّو مہاراج کے متعلق گمان غالب ہے کہ وہ ایرانی نژاد تھے یعنی ایرانی نسل کی بلیوں [Persian cats]سے اُن کا شجرہ نسب جاملتا تھا۔ بہرحال یہ راقم اس ضمن میں حتمی رائے قایم کرنے سے قاصر ہے۔ بِلّو مہاراج کا ابتدائی مسئلہ یہ تھا کہ اُنھیں دیوار پر چڑھنا، پھاندنا جیسے بنیادی کام ہی نہیں آتے تھے، آتے بھی کیسے جب اُن کی ماں نے سکھائے بغیر ہی اُنھیں یوں بے آسرا چھوڑ کر اپنی راہ لی۔ اب یہ الزام تو نہیں لگایا جاسکتا کہ ایسا کسی بِلّے کی وجہ سے ہوا یا اُسے کوئی اور دشواری پیش آگئی تھی کہ اتنے پیارے بچے کو چھوڑ دیا۔ اچھا تو مَیں کہہ رہاتھا کہ بِلّو مہاراج کو دیوار پر چڑھنا اور پھاندنا نہیں آتا تھا، بڑی مشکل کا سامنا تھا۔ ایسے میں اُن کے کام آئی، ہمارے گھر کی پہلی پالتو بلی ’مانو‘ جو بِلّو کو بالکل پسند نہیں کرتی تھی، کیوں کہ اُس کا مقام اِس کی آمد سے متأثر ہوا تھا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ یہ مانو کون تھی تو چلیے پہلے ’مانو‘ کا تھوڑا سا تعارف بھی ہوجائے

۔ جب ہم پہلے پہل اس مکان میں منتقل ہوئے، کوئی انیس سال قبل تو شاید کسی پڑوسی /پڑوسن سے بھی پہلے اپنی شکل دکھانے والی ہستی مانو تھی۔ مانو ذرا روایتی قسم کی، گھریلو مزاج کی حامل بلی تھی جو ’محبت کروگے تو محبت پاؤگے‘ والی مثل پر عمل پیرا تھی۔ صورت شکل کی بھی ٹھیک ٹھا ک تھی۔ مانو کی تواضع حسب توفیق کی جاتی تھی اور وہ کبھی گھر میں زیادہ دیر تک ٹِکتی نہیں تھی۔ اُس نے نامعلوم کتنی شادیاں کی تھیں، ریکارڈ نہیں رکھا گیا، بہرحال ویسے وہ بہت کم آمیز تھی (جیسا کہ بعد میں بِلّو مہاراج بھی ثابت ہوئے)، وہ ہر طرح کے بلِّوں میں گھلتی ملتی نہیں تھی۔

مانو کے ساتھ ایک ایسا سانحہ پیش آیا کہ ہر دل روپڑا، مگر پھر مجبوراً اُسے گھر سے باہر بھی نکا لنا پڑا۔ ہوا یوں کہ اُن دنوں اُس کے تین بچے پیدا ہوئے، ایک کو کوئی بچہ اٹھا کے لے گیا، ایک کو اُس کے سامنے ہی کسی گاڑی نے کچل دیا….جو زندہ باقی بچا، بہت خوب صورت تھا، نیلی نیلی آنکھوں والا، برف یا روئی کا گالا۔ مانو بڑے مان سے اُسے ملوانے کے لیے ہمارے گھر لائی۔ اُس کے چہرے کے تأثرات اور حرکات وسکنات سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ بہت خوش تھی کہ اُس کے حسین بچے کا استقبال ہورہا ہے۔ چھوٹی بہن نے اپنے نئے موبائل فون کیمرے سے اُس کی فوٹو کھینچی۔ سب نے بلونگڑا دیکھ کر اور اُس کی فوٹو دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا۔ ہائے افسوس! اُس کلی کا کھِلنا بھی تھوڑی دیر کے لیے تھا۔ کچھ گھنٹے کے بعد شور ہوا۔ معلوم ہوا کہ برابر والے لڑکے نے اپنے گھر سے نکل کر اپنی کار چلائی تو یہ دیکھے بغیر کہ اُس کے نیچے کوئی ہے، آگے بڑھادی۔ وہ معصوم بلونگڑا کچل کر ہلاک ہوگیا۔ صدمے سے مانو پاگل ہوگئی۔

اُس کے آنسو بے اختیار بہہ رہے تھے اور اُسے دیکھ کر اپنے آنسو ضبط کرنا محال تھا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ مانو دن رات میں کئی کئی بار گھر کا اونچا دروازہ پھاند کر آتی اور کھانا مانگتی، اُس کی اضطراری حالت دیکھتے ہوئے کبھی کھانا دیا جاتا، کبھی ٹال دیا جاتا، وہ کچھ کھاتی، باقی رال سمیت گرادیتی اور پھر مانگتی۔ اُسے زبردستی اٹھا اٹھا کر باہر چھوڑا جاتا، وہ پھر لوٹ آتی۔ وہ واقعی پاگل ہوچکی تھی۔ آخرکار کچھ عرصے کے بعد، مجبوراً مانو کو گھر سے بے دخل کرکے، قریبی بازار میں گوشت کی دکانوں کے پاس چھوڑ دیا گیا کہ وہیں کھا پی کر زندگی کے باقی دن پورے کرلے۔ افسوس کہ اس کے بعد اُس کی کوئی خبر نہیں ملی۔ کیا خبر صدمے سے بے حال ماں جلد مرگئی ہو۔

تو بات ہورہی تھی کہ بِلّو کو دیوار پر چڑھنا، چلنا اور دیوار پھاندنا، مانو نے سکھایا، حالاںکہ دونوں کی کبھی نہیں بنی، مانو نے گھر میں قیام کے وقت ہی اُسے ایک سے زیادہ مرتبہ، طمانچے مارے تھے۔ واپس آتے ہیں اپنے ممدوح یعنی بلّو کی طرف۔ جب وہ نیا نیا آیا تھا تو پورے علاقے میں اُس کی موہنی صورت اور عادات کی دھوم مچی تھی۔ آپ شاید یقین نہ کریں، محلے کی ایک چھچھوری لڑکی نے اُسے زبردستی اپنے گھر لے جانے کی بڑی کوشش کی، برابر والوں نے اُسے دو بار ’اغوا‘ کرلیا، کئی دن بعد چھوڑا، کسی اور ظالم نے بھی اُسے کافی عرصے بعد، اغوا کرکے کسی جگہ قید کیا اور بھوکا پیاسا رکھا…..حد یہ کہ محلے کے ایک بدنام گھرانے کی دبئی سے لائی ہوئی، سفید بلّی نے (جو خود بھی اپنے حسن کے علاوہ لڑائی جھگڑے کے لیے بدنام تھی) بِلّو کو اپنی طرف مائل کرنے کی بہت کوشش کی۔ وہ بلّی ہم لوگوں کو بھی اخلاقاً دوستانہ انداز [Friendly gesture]دکھا کر کوشش کرتی کہ اُسے بھی بِلّو کی طرح پوچھا جائے، مگر ظاہر ہے کہ ہم تو ایک ’’خاندانی بِلّے‘‘ بِلّومہاراج کے مداح تھے اور ہیں۔

بِلّو میں سیکھنے کی بڑی عمدہ صلاحیت تھی۔ میں اُسے پنگ پانگ یا اسکواش کی گیند (یا کبھی کوئی اور دوسری بڑی گیند) یا پلاسٹک کی ڈوری سے کھلاتا تو بڑے شوق سے چھلانگیں لگاکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تھا اور شاباش، Bravoکے نعرے سن کر اور جوش دکھاتا تھا۔ مہمانوں سے دیر میں گھلتا ملتا تھا، مگر کہنے پر مصافحہ کرلیا کرتا تھا۔ حیدرآباد سے پھوپھی آئیں تو موصوف بہت پریشان کہ یہ کون اجنبی خاتون ہیں، مگر پھر جب کئی دن قیام ہوگیا تو نمازفجر میں آکر ادب سے بیٹھ جاتے کہ وہ نماز، دعا سے فارغ ہوکر انھیں پیار ضرور کریں۔ انھی باتوں کی وجہ سے ان پر ’جنّ‘ ہونے کا شبہ تھا۔ منجھلی بہن جب مذاقاً پوچھتی، ’بلو! تم جن ہو کیا‘ تو موصوف ایسے ایک نظر اچٹتی ڈال کر دوسری جانب دیکھتے کہ ’ ہُنھ! یہ کیا بات کی؟‘۔ ویسے دو روحانی عاملوں نے اس اَمر کی تردید کی کہ وہ جنّ تھے۔

اب ذرا یہ بھی جان لیجے کہ اُس کی کون سی باتیں اُسے دیگر سے ممتاز کرتی تھیں۔ اُسے جو بات ایک دفعہ کہہ دی جائے، وہ اس پر سختی سے عمل کرتا تھا۔ ہاں کبھی غصے یا بیماری میں ضد پر اُتر آتا تو اور بات تھی۔ ایک دن وہ برابر کے گھر کی چھت پر گیا اور وہاں سے ایک چڑیا کا بچہ منھ میں دبائے فاتحانہ انداز میں گویا مسکراتا ہوا واپس آیا، جیسے بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ چھوٹی بہن نے اُسے فوراً ڈانٹ کر ایک دو چپت رسید کرتے ہوئے کہا کہ چھوڑو اِسے، بری بات، آیندہ مت کرنا ایسا۔ بِلّو نے مجبوراً شکار چھوڑ دیا اور وہ زندہ بچ گیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اُس نے واقعی دوبارہ ایسی حرکت نہیں کی۔ اسی طرح وہ چھت پر رکھے ہوئے آسٹریلوی رنگ بِرنگے توتوں کے پنجرے کے پاس جاکر انھیں گھورتا رہتا اور کبھی پنجے مارتا تھا۔ (یہ میرے چھوٹے بھائی جنید کا شوق تھا جو ایک عرصے کے بعد، بہ وجوہ کم ہوگیا)۔ چھوٹی بہن نے اُسے دیکھ کر ڈانٹا اور سمجھایا کہ یہ تمھارے دوست ہیں، انھیں مت تنگ کرنا۔ بس جناب! اس کے بعد بِلّو وہاں جاتا ضرور تھا، بیٹھ کر حسرت سے تکتا بھی رہتا تھا، مگر کبھی پنجرے پر ہاتھ نہیں مارا۔ ایک رات (بل کہ صبح کے) ساڑھے تین بجے ہنگامہ ہوا۔

سارے گھر والے بھاگ کر چھت پر پہنچے۔ جنید نے دیکھا کہ بِلّو کمرے کے اوپر بنی ہوئی چھت کی بالائی کگر پر بیٹھا ہوا ہے، اُس نے غصے سے اُسے سنانا شروع کردیا، اتنے میں باقی بہن بھائی بھی پہنچے، بلب جلایا تو دیکھا کہ بِلّو زخموں سے لہولہان ہے اور دوسری طرف پنجرے کے قریب سے ایک کالا بڑا سا بِلّا بھاگ رہا تھا۔ اب سمجھ میں آیا کہ وہ دشمن پنجرے پر حملہ آور ہوا تھا اور ہمارے بِلّونے اپنی عمر اور جسامت سے قطع نظر ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اُسے میدان چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ فقط اس لیے کہ اُسے کہہ دیا گیا تھا کہ یہ توتے تمھارے دوست ہیں۔ اس واقعے سے تمام اہل خانہ کے دل میں اُس کا احترام بڑھ گیا کہ دیکھو کیسا سمجھ دار اور باوفا ہے۔

مزاج میں خودداری کا یہ عالَم تھا کہ ایک مرتبہ جنید نے اُسے، چھوٹی بہن کے ہاتھوں کھانا کھاتے دیکھ کر مصنوعی غصے سے کہا، جب دیکھو آجاتے ہیں اپنا گھر سمجھ کر کھانے کے لیے، بڑے نواب صاحب ہیں۔ بِلّو نے کھانا ادھورا چھوڑکر چھلانگ لگائی اور یہ جا وہ جا۔ اگلے کوئی تین دن تک اُس کی شکل نہ دکھائی دی۔ جب آیا تو کافی خوشامد کے بعد راضی ہوا۔ اسی طرح جب اُسے یہ سمجھایا گیا کہ گندے پانی سے دور رہنا ہے اور جب بھی پیاس لگے تو صاف پانی پینا ہے یا گھر آکر پینا ہے تو اُس نے بڑی حد تک اُس پر عمل کیا، مگر ایک عرصے کے بعد، جب علاقے کے بلّے بلیوں میں گھلا ملا تو گندے پانی سے وہ اجتناب برقرار نہ رہ سکا۔ وہ ایک دو مرتبہ میری موٹرسائیکل کی لپیٹ میں آیا اور اُسے چوٹ لگی، وجہ یہ تھی کہ خاکسار موٹرسائیکل گھر کے اندر لانے کے لیے چڑھائی تک لایا، وہ سامنے سے ہٹنے کو تیار نہ ہوا اور بس اس خیال میں گاڑی آگے بڑھائی کہ خود ہی ہٹ جائے گا، مگر وہ بالکل آخری لمحے، پہیے کی لپیٹ میں آکر بچاؤ کے لیے بھاگا۔ (مانو کے ساتھ بھی ایسا ہوچکا تھا)۔ اب یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ خواہ کوئی گاڑی ہو، جب سڑک پر آتی دکھائی دے یا گھر کے آس پاس ہو تو بہت احتیاط سے راستہ عبور کرنا ہے۔

بِلّو اپنی مرضی سے گھر میں آتا جاتا اور جب جی چاہتا اپنے ’ذاتی‘ گھر میں قیام کرتا، ویسے گھومتا پھرتا رہتا، مگر رات کو یہیں آکر سوتا تھا۔ موصوف کو فوم کے گدّے والے بستر پر بیٹھنا اور نرم ملائم کمبل، لحاف اور رضائی جیسی چیزوں میں ہمارے ساتھ گھُسنا اور آرام فرمانا بہت مرغوب تھا۔ انھیں سوتے ہوئے بستر سے اٹھایا جائے یا لحاف سے نکالا جائے تو بہت خفا ہوتے تھے۔ ویسے اُن کے مخصوص ’ذاتی‘ گھر میں بھی اس طرح کی چیز فراہم کی گئی تھی، مگر اُن کا معیار بہرحال بلند تھا۔ اسی طرح بالائی منز ل کے کمروں کے باہر دہلیز پر ایک خاص قسم کی رب کی تہہ چڑھائی گئی تھی کہ بارش کی صورت میں پانی کمروں کے اندر داخل نہ ہونے پائے۔ بِلّو کو عادت تھی کہ اُس پر اپنے پنجے تیز کرکے اُس کا ستیاناس کیا جائے تاکہ بوقت ضرورت کام آئیں اپنے ہتھیار۔ بہت سمجھایا، مگر بگڑ جاتے تھے، حتٰی کہ اُس ربر کا ادھڑادھڑ کر، کام تمام ہوگیا۔

بِلّونماز اور نمازی کا بہت پاس کرتا تھا۔ اُسے سمجھا دیا گیا تھا، لہٰذا جب کبھی چھت سے پھلانگ کر داخل ہوتا تو دیوار سے آواز دے لیا کرتا، اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہو، کہ اب نیچے کیسے اُتروں، نمازی کے سامنے سے نہیں گزرسکتا۔ چار مرتبہ بیمار پڑا، اُسے ٹیکا لگانا ایک کارمحال تھا۔ ایک مرتبہ کسی ظالم نے اُسے چھَرّا ماردیا جو بڑی دقت سے نکالا گیا۔

بِلّو کا سب سے حیران کُن کارنامہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ یقین کرنا نہ کرنا آپ کی مرضی پر منحصر ہے، مگر یہ حرف بہ حرف سچ ہے اور اس کے گواہ میرے تمام اہل خانہ ہیں۔ بِلّو کو مہاراج کا لقب بھی میں نے ایسے ہی نہیں دیا، وہ واقعی اس کے لائق تھا۔ رمضان شریف میں اُس کی عادت تھی کہ روزے کے اوقات میں شاذونادر ہی کچھ کھاتا پیتا، وہ بھی تھوڑی مقدار میں۔ افطار کے قریب آتا اور اپنی خوراک لے کر چلا جاتا، پھر اُسے جو وقت بتایا جاتا، اس پر رات کا کھانا کھالیتا اور پھر دوبارہ آتا تھا، سحری میں۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ وقت کا اتنا پابند تھا کہ بہت سارے انسان بھی نہیں ہوتے۔ اگر بہن نے کہہ دیا، بِلّوجاؤ ابھی کچھ نہیں ہے، رات کو ساڑھے آٹھ ، نو بجے آنا یا ساڑھے دس، گیارہ کے درمیان آنا تو معلوم ہے وہ کب آتا تھا: پونے نو بجے، آٹھ بج کر چالیس منٹ، پونے گیارہ بجے۔ ہوا یوں کہ ایک مرتبہ انتیسویں شب کو چاند کا اعلان ہونے میں بہت تاخیر ہوئی۔ رات دس بج کر تینتالیس منٹ پر میں نے ٹیلی وژن کھولا تو دیکھا کہ مفتی منیب الرحمن صاحب جلوہ گر ہیں اور بس انھیں دیکھتے ہی بندہ سمجھ گیا کہ عید کا چاند ہوگیا (پھر اس کی تصدیق بھی ہوگئی)۔

ادھر قریب ہی بِلّومہاراج چھوٹی بہن سے کچھ لے کر کھا رہے تھے۔ میں نے ازراہ مذاق بہ آواز بلند کہا، اوبھائی! کل عید ہے، کہیں سحری میں نہ آجانا ۔ صبح آنا نو، ساڑھے نو بجے۔ اب ہوا یہ کہ ہم سب بھائی اور والد صاحب عیدالفطر کی نماز پڑھ کر لوٹے تو صبح نو بج کر تئیس منٹ پر بِلّو داخل ہوا۔ بِلّو کی باتیں اس کالم میں سمانا مشکل لگ رہا ہے۔ اُس میں تفریح یا مذاق کا عنصر بھی موجود تھا، میرے ساتھ تماشا کرچکا تھا۔ ایک مرتبہ میں، محلے میں اپنی بیگم کے ساتھ ٹہل رہا تھا۔ بِلّومہاراج کونے کے مکان کی منڈیر پر بیٹھے (حسب عادت) گھور کر دیکھ رہے تھے کہ یہ کون اجنبی ہے، اس کے ساتھ (چادرمیں لپٹے ہونے کے سبب)، انھوں نے نظروں ہی نظروں میں گھر تک پیچھا کیا کہ کہیں میری ضرورت تو نہیں، پہرے کے لیے۔ (بہنوں کو بھی چادر میں لپٹا ہوا دیکھ کر گھبرا جاتا تھا)۔

بلو کی موت بہت دردناک تھی۔ تفصیل پھر کبھی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔