مشکل؛ بہت ضروری ہے

ڈاکٹر صابر حسین  اتوار 6 اگست 2017
ہم میں سے کوئی بھی زیادہ دیر تک کِسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرپاتا۔ فوٹو : فائل

ہم میں سے کوئی بھی زیادہ دیر تک کِسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرپاتا۔ فوٹو : فائل

نادیہ نے بحرین سے واٹس ایپ پیغام بھیجا ’’آپ کا نیا آرٹیکل ’’شوق دا مول‘‘ با لکل سمجھ میں نہیں آیا۔ کتنی بار پڑھا۔ پھر بھی کچھ پلّے نہیں پڑا ۔ اب آپ اُس کو سمجھائیں۔‘‘ میرے خیال میں نادیہ کا کہنا صحیح ہے۔

چھپنے کے بعد جب میں نے بھی اُسے پڑھا تو مجھے بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ مشکل تحریر۔ مشکل الفاظ۔ مشکل موضوع۔ مشکل مضمون۔ خُشک، پھیکا، بے رونق سا۔ کوئی مثال نہیں۔ کوئی کہانی نہیں۔ کوئی جبھتی ہوئی یا انوکھی بات نہیں۔ فلسفہ ہی فلسفہ۔ دراصل کچھ تحریریں خالصتاً اپنے آپ کو مخاطب کرکے لکھی جاتی ہیں۔ ایسی تحریروں میں لوگوں کی دل چسپی کا سامان بھی کم ہوتا ہے اور اُس لحاظ سے موضوع اور الفاظ کا چناؤ بھی۔ ایسی تحریروں سے اُن کو سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے، بل کہ مذکورہ مضمون کی طرح بسا اوقات کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ پڑھ کر ذہن اُلجھتا ہے۔ بار بار پڑھ کر سُلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ تھک کر ایک طرف رکھ دیتا ہے۔

زندگی میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ جو ہورہا ہوتا ہے وہ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا۔ مشکل مضمون یا تحریر کی طرح ہماری زندگی بھی کئی بار مشکل اوقات اور دشوار راستوں اور نوکیلی رکاوٹوں سے دوچار ہوجاتی ہے۔ پھر ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہم اِس مقام سے کیسے آگے جائیں۔ اِس مسئلے سے کیسے نمٹیں۔ اِس مشکل سے کیسے پیچھا چھڑائیں۔ سامنے آئی رکاوٹ کو کیسے دور کریں۔

بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ زندگی کے سفر میں کوئی مشکل کام ہم سے گلے لگ جاتا ہے یا کوئی مشکل آدمی ہمارے سامنے آکے بیٹھ جاتا ہے۔ کوئی مشکل فیصلہ ہمیں دوراہے پر لاکھڑا کرتا ہے یا کوئی مشکل مرحلہ ہمارے پسینے چُھڑادیتا ہے۔ کِسی بھی قِسم کی مشکل ہمیں ذرا دیر کو ضرور ہلادیتی ہے۔ اور اگر مشکل کام، مشکل بات، مشکل آدمی، مشکل مضمون، مشکل فیصلہ زیادہ دیر تک ہمارے حواسوں پر سوار رہتا ہے تو ہمارے چھّکے چھوٹنے لگتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں پھولنے لگتے ہیں۔ ہم حواس باختہ ہونے لگتے ہیں اور اُلٹے قدموں فرار کے راستے ڈھونڈنے لگتے ہیں۔

ہم میں سے کوئی بھی زیادہ دیر تک کِسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرپاتا۔ مشکلات سے لڑ نہیں پاتا۔ اپنی اپنی صلاحیت اور استطاعت کے مطابق کچھ دیر تک تو کریز پر کھڑا رہتا ہے۔ اتفاق سے کوئی حل سمجھ میں آجائے یا کوئی غیبی مدد آجائے اور مشکل دور ہوجائے خود بخود تو جان میں جان آجاتی ہے۔ نہیں تو جان پہ پڑجاتی ہے اور مشکل کام، مشکل بات کو آدھا ادھورا چھوڑکر بھاگ جانے کو ہی دِل کرتا ہے۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں مشکل مقام، مشکل مرحلے سے پیچھا چھڑانے کا موقع مِل جاتا ہے، لیکن کبھی ہم لاکھ کوشش کے باوجود خود کو مشکل سے نہیں نکال پاتے اور اُلجھے رہتے ہیں۔ لٹکے رہتے ہیں۔ لاکھ چاہنے لاکھ جتن کرنے لاکھ سر پھوڑنے کے باوجود نہ تو ہم  Retreat  کر پاتے ہیں اور نہ ہی مشکل مقام کو عبور کرپاتے ہیں۔ نہ نِگل پاتے ہیں۔ نہ اُگل پاتے ہیں۔

ہمارے اندر کا ایک حصّہ ہمیں جنگ پر اکساتا ہے۔ دوسرا چاہتا ہے کہ ہم سب چھوڑ کر بھاگ نکلیں۔ مگر مشکل ایسی ہوتی ہے جو ہمیں نہ تو کُھل کر جنگ کرنے دیتی ہے اور نہ ہی فرار کا کُھلا راستہ دیتی ہے۔ ایسے موقعوں پر اچھا بھلا آدمی کنفیوز ہوجاتا ہے اور اُس سے غلطیاں سرزد ہونے لگتی ہیں۔

مشکل بات یہ ہے کہ ہم سب مشکل باتوں، مشکل کاموں، مشکل لوگوں کو Face  کرنا نہیں چاہتے۔ زندگی کے مشکل مراحل اور مشکل امتحانوں کو حتی الامکان Avoid  کرنا چا ہتے ہیں۔ زندگی کے ہر مقام پر آسانی چاہتے ہیں۔ آسان سوالوں اور آسان جوابوں کو اپنے لیے منتخب کرکے آسان اور آرام دہ راستے پر چلنا چاہتے ہیں۔ آسان طلبی اور آرام پسندی کی یہی فطری خواہش ہمیں ہر طرح کی مشکل سے کنّی کتراکے گزرنے پر اُکساتی ہے۔ عُمر کا کوئی بھی حصّہ ہو ۔ زندگی کا کوئی بھی مقام ہو۔ ہماری نفسیات کی یہ Approach  ہمیں زندگی میں کِسی بھی وقت کِسی بھی مشکل کا سامنا کرنے اور اُس سے نبردآزما ہونے اور اُس پر قابو پانے کی بجائے اُس سے پیچھا چھڑانے اور اُسے چھوڑ کر آسان راستے کا انتخاب کرنے کی عادت میں مبتلا کردیتی ہے۔

پھر ہوتا یوں ہے کی جب کبھی قدرت کو ہماری آزمائش منظور ہوتی ہے اور وہ ہمیں کِسی مشکل امتحان میں ڈال کر ہمارے مدارج میں اضافہ کرنا چاہتی ہے تو ہم اپنی آسان پسندی کی عادت کی وجہ سے عام طور پر اُس آزمائش اُس امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں اور باربار فیل ہوتے رہتے ہیں۔ فیل ہو ہو کر سارا الزام قدرت اور حالات پر ڈالتے رہتے ہیں کہ ہم خود تو اپنی مرضی سے اِس مشکل میں نہیں پڑے، جب کہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ہمارے Nurons  یعنی دماغ کے خلیات کو کِسی مشکل مسئلے، مشکل بات، مشکل سوال، مشکل کام کو حل کرنے اور اُس کا حل دریافت کرنے کی پریکٹس ہی نہیں ہوتی جِس کی وجہ سے ہم کِسی بھی مشکل مرحلے کے پہلے قدم پر ہی لڑکھڑا جاتے ہیں۔

دنیا کے کام یاب لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے جو ایک بات سب میں مشترک نظر آتی ہے۔ وہ اُن سب کا مشکل پسندانہ رجحان، مزاج اور شخصیت ونفسیات کے Complicated  یا پیچیدہ زاویے یا Angles  ہوتے ہیں۔ بچپن سے اِس طرح کے افراد ایک مختلف طرزِفکر اور اندازِ زندگی کے حامل ہوتے ہیں۔ اپنی عُمر کے عام لوگوں سے کچھ ہٹ کر، کچھ الگ، کچھ منفرد، کچھ مختلف اور کچھ مشکل باتوں، کاموں اور نظریوں میں ملوث و مصروف۔ باربار کِسی بھی کام میں ناکام ہو ہو کر بھی وہ اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے، جب تک اُنہیں یا تو اُس کام میں کام یابی نہیں مِل جاتی اور یا پھر اُس کام کو کرتے کرتے کوئی اور اچھا نیا بہتر راستہ نہیں دِکھائی دے جاتا۔

کام یاب لوگ آسانی سے شکست تسلیم نہیں کرتے۔ راستے کی رکاوٹوں سے نہ گھبراتے ہیں، نہ کتراتے ہیں اور نہ ہی اُن سے منہہ موڑتے ہیں، بل کہ اُنہیں عبور کرنے کو شش کرتے ہیں یا اُن کو اپنے حق میں Mould  کرنے کے طریقے سوچتے ہیں۔ جو مسئلہ جو بات جو چیز اُن کو سمجھ نہیں آتی، اُس پر گھنٹوں، ہفتوں، مہینوں غور کرتے ہیں۔ سوچتے ہیں۔ مسئلے کے تمام حلوں کو ہر حوالے سے کھنگالتے ہیں۔ اپنے دوستوں، مشیروں، ماتحتوں، ساتھیوں سے مشورہ کرتے ہیں۔ Discussion  کرتے ہیں۔ مطالعہ کرتے ہیں۔ مراقبہ کرتے ہیں اور پھر ایک دِن اچانک، خودبخود اُن کے ذہن میں مشکل مسئلے کا حل، اور مشکل رکاوٹ کا متبادل راستہ آجاتا ہے۔

چوںکہ اِن کی Approach  شروع سے مشکلات کو  Face  کرنے اور اُن پر قابو پانے کی ہوتی ہے، اِس لیے اُن کے نیورونز کو مشکل مراحل کو  Challenge  کے طور پر لینے اور اُن پر قابو پانے کی عادت ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر وہ اپنے کاموں، اپنے مسئلوں میں درپیش ہر مشکل کو بہ آسانی حل کرنے کا آرٹ سیکھ لیتے ہیں اور اپنی زندگی میں ایک کے بعد ایک Hurdle  کو دور کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

ہم بھی اگر کام یاب لوگوں کی طرح آگے بڑھنا چاہتے ہیں، اپنے اپنے Goals  اپنے اپنے کاموں میں کام یابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں بھی مشکل سوال پہلے حل کرنے کی عادت اپناتی ہوگی۔ اپنے دماغ کے خلیات کو Tune in  کرنا ہوگا تاکہ وہ کِسی بھی مشکل کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی بجائے اُس کے حل کے ممکنہ پہلوؤں پر غور کرسکیں۔ سوچ وبچار کرسکیں اور ہر مشکل سوال کے جواب اور ہر مشکل مسئلے کے حل کے ایک دو تین چار ممکنہ Solutions  اور  Parallel Plans کو ہمارے ذہن کے اسکرین پر روشن کرسکیں۔

یہ مشکل کام اُس وقت ممکن ہے جب ہم اپنی ڈکشنری سے چند مخصوص جُملے delete  کردیں۔ مثلاََ ’’مجھ سے نہیں ہوتا‘‘، ’’مجھ سے نہیں ہوپائے گا‘‘، ’’یہ تو بہت مشکل ہے‘‘، ’’یہ کام تو پہلے کبھی نہیں کیا‘‘، ’’اِس کام کا میرے کام سے کیا تعلق‘‘،’’مجھے نہیں آتا‘‘ ’’مجھے نہیں پتا‘‘،’’میں نے تو یہ کام سیکھا نہیں‘‘، ’’اِس کام کا کیا فائدہ‘‘،’’یہ بھی کوئی کرنے کا کام ہے‘‘، ’’مجھے نہیں کرنا‘‘،’’میں کیوں کروں‘‘ یہ اور اِسی طرح کے معنوں سے بھرے ہزاروں الفاظ اور جملے جو ہمارے ذہن کو Self Defeat  کی طرف لے جاتے ہیں اور ہمیں کچھ نہ کرنے، کچھ نہ سیکھنے اور ہر مشکل بات سے دامن چھڑانے کی ترغیب دیتے ہیں۔

ہم سب یہی چاہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے، نہ دو قدم چلنے پڑیں۔ نہ ہاتھ ہلانے پڑیں اور نہ دماغ لڑانا پڑے۔ ہمیں بیٹھے بیٹھے سب کچھ حاصل ہوجائے۔ دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے جب کچھ بھی نہ کرنے کے باوجود اِنسان کو سب کچھ مِل جاتا ہے، مگر ایسے انسان کروڑوں میں چند ایک ہی ہوتے ہیں، جِن پر قِسمت مہربان ہوتی ہے، لیکن سب کچھ مِل جانے کے بعد بھی جب انسانوں کو کچھ نہیں کرنا پڑتا تو وہ اور مشکل میں پڑجاتے ہیں، کیوںکہ کچھ نہ کرنا دنیا کا سب سے زیادہ مشکل کام ہوتا ہے اور بڑے بڑے لوگ اپنے کچھ نہ کرنے کے  Spells  میں اپنا توازن کھو بیٹھتے ہیں۔

باؤلرز جب نپی تُلی گیندیں کرارہے ہوں اور فیلڈنگ اور Field Placement  جارحانہ ہو۔ وکٹ کیپر کے ساتھ چار Slips  اور  Gully  میں فیلڈر کھڑے ہوں۔ سِلّی مڈ آف اور سِلّی مڈآن پر بھی دو جوان ہیلمٹ پہن کر کیچ لینے کی پوزیشن میں ہوں اور ون ڈے میچ ہو اور دس بارہ اوورز میں محض دس بارہ رنز ہی بن پائے ہوں اور گیند نے باؤنڈری کی شکل تک نہ دیکھی ہو، تو اچھے سے اچھے تجربہ کار اسٹائلش  Batsman کے لیے بڑی مشکل پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ بار بار  Beat  بھی ہورہا ہوتا ہے۔  Duck  بھی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ رن بھی نہیں بنا پارہا ہوتا۔ اُسے خود کو Out ہونے سے بھی بچانا ہوتا ہے اور اُسے ہر بال اور ہر میڈان اوور بھی کھَل رہا ہوتا ہے۔

ہماری زندگی میں بھی بہت بار ایسا وقت آتا ہے جب ہمیں اِس طرح کی صورت حال، اِس طرح کے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے موقعوں ، ایسے وقتوں پر اگر ہمارے نیورونز مشکل معاملات پر  Head Down  کرکے کریز پر کھڑے رہنے اور کریز پر کھڑے رہنے کے ساتھ باؤلرز کا حوصلہ پست کرنے کے راستے ڈھونڈنے کے عادی نہیں ہوں گے تو ہم Out  ہوکرPavillion  میں واپس پلٹ جائیں گے اور کام یابی کے رنز بنانے سے محروم ہوجائیں گے۔

ہر مشکل مرحلہ ہمیں یا تو کوئی سبق سِکھانے آتا ہے اور یا ہمیں ایک درجہ آگے لے جانے آتا ہے۔ ہم میں سے وہ لوگ جو  Lucky  ہوتے ہیں جو عقل مند ہوتے ہیں جو سمجھ دار ہوتے ہے، وہ Opportunities  کی مشکل گیندوں کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر ہمیشہ تیا ر رہتے ہیں۔ چوکس و چوکنا رہتے ہیں۔ اور جوں ہی کوئی مشکل اُن کے دروازے پر کِسی آزمائش، کِسی امتحان، کِسی سوال، کِسی شخص، کِسی فریاد، کِسی کام کی شکل میں دستک دیتی ہے، وہ اُسے واپس پلٹا نے کی بجائے جھٹ سے گلے لگالیتے ہیں اور جپھّیاں دے کر اُسے اپنالیتے ہیں۔ اُسے  Detoxity  کردیتے ہیں اور اُس پر قابو پاکر خود کو ذرا آگے لے آتے ہیں۔ جو ایسا کرنے کے عادی نہیں ہوتے، وہ آہستہ آہستہ اور پیچھے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پیچھے رہ جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔