بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

تعلیمات ِقرآنی
مرتبہ: شاہد بخاری ایڈووکیٹ
صفحات: 256،قیمت: 120 روپے
ناشر: شاہد بخاری ایڈووکیٹ،651- D فیصل ٹاون ، لاہور

قرآن مجید فرقانِ حمید خدائے بزرگ وبرتر کی وہ الہامی کتاب ہے جو نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی اور تا قیام قیامت لوگوں کی رہنمائی اور ہدایت کاکام کرتی رہے گی ۔یہ وہ نسخہء کیمیا اور منبع ء رشد و ہدایت ہے جس کی رہنمائی میں ہم اپنی دنیوی اور اخروی زندگی کو سنوار سکتے ہیں۔ شاہد بخاری درد ِدل رکھنے والے صحافی اور اہل قلم ہیں۔

انہوں نے یہ کتاب قرآنی احکام کی تبلیغ اور تفہیم کی غرض سے مرتب کی ہے جس کا مقصد ِ وحید یہ ہے کہ قارئین اسے پڑھ کر عمل صالحہ کی جانب راغب ہوں اوران تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کریں ۔کتاب میں قرآن حکیم کی تمام سورتوں کا احاطہ کیاگیا ہے اوران میں مستور پیغام ِ خداوندی کو بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ انتہائی سادہ ،سلیس اور عام فہم انداز میں بیان کیاگیا ہے ۔کہیں کہیں اشعار کی مدد سے بھی مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔دعا ہے کہ ان کی یہ سعی مشکور اﷲ کے حضور شرف ِ قبولیت حاصل کرے اور عوام الناس کے لیے بالعموم اور نسل ِنو کے لیے بھرپور افادہ کا باعث بنے۔

پاؤں تلے جنت کتاب
شاعر: محمد رفیق مغل
صفحات: 230،قیمت:300/ روپے
ناشر: فیض الاسلام پرنٹنگ پریس ، راولپنڈی

ماں انسانی رشتوں میں ایسا مقدس اور محترم رشتہ ہے کہ جس کا پوری کائنات میں کوئی نعم البدل نہیں، یہ وہ ہستی ہے کہ جس کی عظمت دنیا کے تمام مذاہب اور عالمی ادب میں ملتی ہے۔سب سے مقدس کتابِ ہدایت قرآن مجید میں بھی ماں کے مقام و مرتبہ کے بارے میں واضح آیات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ احادیث میں بھی ماں کی اہمیت اور حیثیت بیان کی گئی ہے۔ ان تمام کتب اور عالمی ادب ماں اور مامتا کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اس عظیم ہستی کے مقام کو سمجھنے کے لیے کافی ہے ۔

عام آدمی سے لے کر انبیاء کرامؑ تک سب نے ہی ماں کی عظمت کے گن گائے ہیں اور اسی سرچشمہء فیض سے روشنی حاصل کی ہے۔زیر تبصرہ کتاب ’’ پاوں تلے جنت ‘‘ کے عنوان سے ہی واضح ہوتا ہے کہ اس کا موضوع ’’ ماں ‘‘ ہے۔محمد رفیق مغل نے یہ شعری مجموعہ ماں کے حوالے سے ترتیب دیا ہے کتاب کے ایک ایک شعر ہی نہیں ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف سے ماں کے احترام اور اس عظیم ہستی کے حضور ہدیہ سپاس کا اظہار ہوتا ہے ۔شاعر نے اسلامی تاریخ کی تمام اہم شخصیات کے حضور منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیاہے جو لائق تحسین ہے اور باعث ِ سعادت بھی ہے ۔

غیب وشہود
مصنف: سر آرتھر اسٹینلے اڈنگٹن
صفحات: 84، قیمت: 100/ روپے ، ناشر: مجلس ترقی ادب ، لاہور

یہ کتاب درحقیقت سر آرتھر اسٹینلے اڈنگٹن کے ’’سائنس اور عالم غیب‘‘ کے موضوع پر اس گرانقدر خطبہ کا اردو ترجمہ ہے، جو انہوں نے سوارتھ مور لیکچر شپ کے سلسلے میں آج سے قریباً 88سال قبل 1929 ء میں پیش کیا تھا۔ لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اس خطبے کی علمی حیثیت برقرار ہے ۔

اس خطبہ کو سید نذیر نیازی نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اور سچ یہ ہے کہ حق ادا کردیا ہے۔ یہ لیکچر چونکہ ایک مسیحی دانش ور خصوصاً ایک سائنسدان کا نتیجہ ء فکر ہے اس لیے اس میں فطری طور پر مسیحی سوچ کارفرما دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے بعض مقامات پر الجھاو ء یا ذہنی ٹکراو کی صورت پیدا ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کتاب کے آغاز میں اس کی صراحت کردی گئی ہے تاکہ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کو کسی قسم کا کوئی ابہام یا غلط فہمی پیدا نہ ہو ۔یوں اس تصریح نے اس لیکچر کی افادیت بڑھا دی ہے۔

علاوہ ازیںفاضل مترجم کی طرف سے ’’ مقدمہ ‘‘ اپنی جگہ ایک ’’خاصے کی چیز ‘‘ کاد رجہ رکھتا ہے جس میں موضوع کے پس منظر میں مذہب، اعتقادات، حیات بعد الموت، روح اور عالم مشہود اور عالم غیب وغیرہ کے بارے میں اڈنگٹن کے نظریہ کوبھی اس خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیاہے کہ مضمون کی تفہیم میں کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی۔ یہ کتاب ایسی ہے کہ جس کا مطالعہ ’’سائنس اور عالم غیب ‘‘کے حوالے سے ایک مسیحی سائنس دان کی سوچ اور انداز ِ نظر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔

مضامین ِ ڈار
مصنف: پروفیسر محمد ابراہیم ڈار
ترتیب و تدوین: افضل حق قرشی
صفحات: 504، قیمت: 500 روپے ،ناشر: مجلس ترقی ادب ، لاہور

پروفیسر محمد ابراہیم ڈار ان محققین اور نقادوں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی وسعت ِ نظری ، عمیق مطالعہ ، غیر جانبدارانہ اور جرات مندانہ موقف اور جاندار طرز استدلال کی بدولت نام کمایا اور ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ پروفیسر ابراہیم ڈار اردو اور عربی کے فاضلین میں سے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انگریز ی زبان پر بھی وہ یکساں عبور رکھتے تھے۔ زبان و بیان پر قدرت ، ٹھوس اوربے پایاں علم اور دل نشیں انداز تحریر ان کی بہترین متاع تصور کیے جاتے ہیں۔

وہ حافظ محمود اختر شیرانی کے سرچشمہ ء علم سے سیراب ہونے والوں میں سے تھے اور انہی کے تتبع میں انہوں نے تحقیق و تنقید کے کام کو آگے بڑھایا۔ڈاکٹر سید عبداﷲ اس ضمن میں یوں رقم طراز ہیں ’’ اس مجموعے میں پروفیسر ابراہیم کے جتنے بھی مضامین ہیں ان سے وو باتیں صاف صاف نمایاں ہیں ایک ان کی وسعت ِ نظر اور دوسری ان کی تنقیدی گرفت۔ یہ دونوں خوبیاں ان کے اورمیرے مشترک استاد پروفیسر شیرانی کی ممتاز خصوصیات تھیں ‘‘۔کتاب کی ترتیب وتدوین افضل حق قرشی کی کاوشوں کاثمر ہے ۔جب کہ حرفِ چند ڈاکٹر تحسین فراقی ، تقدیم افضل حق قرشی اور پیش لفظ ڈاکٹر سید عبد اﷲکے معجزنما قلم کا نتیجہ ہے ۔ ۔زیر تبصرہ کتاب مجموعی طورپر ان کے اکیس مضامین پر مشتمل ہے جن میں سولہ اردو زبان میں اور پانچ انگریزی زبان میں ہیں ۔

ان مضامین کی اہمیت کا اندازہ ان کے عنوانات سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ چند مضامین کے عنوانات اس طرح ہیں۔ محمد بن یزید المعروف بالمبرد ، تیسری صدی ہجری کا مشہور نحوی اور ادیب ، جاحظ کے سوانح حیات اور اس کی تصانیف اور فارسی دانی ، مغلوں سے پہلے ہندوستان میں فارسی ادب پر ایک نظر، ہندوستان میں مغلوں سے قبل فارسی ادب ، شمس العلماء عبدالغنی کا تازہ علمی کارنامہ، ریاض الانشاء مرتبہ پروفیسر شیخ چاند حسین ، اقبال اور عربی شعراء ، اقبال کی وطن دوستی ، عورت اور اسلامی تعلیم وغیرہ اردو میں اور۔ Al Ghazali On The Problem Of Education,Gujrat”s Contribution To Gujrati & Urdu.Mir’at-i-Sikandari- Its Date Of Composition انگریزی میں شامل ہیں ۔حقیقیت یہ ہے کہ جس عرق ریزی اور محنت وریاضت سے یہ مضامین قلمبند کیے گئے ہیں وہ یقینا ً لائق صد ستائش اور سراہے جانے کے قابل ہے ۔

ان مضامین کا مطالعہ بلا شبہ تحقیق و تنقید کے میدان میں بہت سے در وا کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔مجلس ترقی ادب کے منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ’’ گمشدہ خزانے ‘‘ کو بازیاب کیا اور اردو ادب کے قارئین کو اس سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا۔

افکار ِ ذوالفقار
مرتب: محمود شام
صفحات: 332، قیمت:1200 روپے ،ناشر: بھٹو لیگیسی فاونڈیشن

زیر تبصرہ کتاب ’’ افکار ِ ذوالفقار ‘‘ پاکستان کے عہدساز سیاستداں، ملک کی تاریخ کے مقبول ترین لیڈر اور منفرد خصوصیات کے حامل وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تحریروں اور تقاریر کے انتخاب پر مشتل ہے، جنہیں معروف صحافی ، ادیب ، تجزیہ کار اور دانش ور محمود شام نے مرتب کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی یہ چنیدہ تحریریں اور تقریریں 1948ء سے 1978 ء تک کے عرصہ پر محیط ہیں۔ اور کتاب کے مرتب کے الفاظ میں ’’ ان تحریروں اور تقریروں میں نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کی قائدانہ انتظامی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں بل کہ ملک وقوم کیلئے ان کا درد ایک ایک سطر جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان ایک کامیاب ملک کیسے بن سکتا ہے اس کی تدابیر بھی نظر آتی ہیں۔

پاکستان ایک مستحکم معیشت کیسے حاصل کرسکتا ہے اس کی تجاویز بھی دکھائی دیتی ہیں ، پاکستان ایک مہذب معاشرہ کیسے تعمیر کر سکتا ہے، اس کے نکات بھی سامنے آتے ہیں ‘‘۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کا ہی یہ اچھوتا اور ہردل عزیز انداز تھا کہ ان کے بعد میں آنے والے سیاستدانوں نے بھی اسے اپنانے کی کوشش کی۔ آج ملک جس قسم کے سیاسی بحران کا شکار ہے ، انتشار ، بدامنی ، افراتفری ، دھماکے ، دہشت گردی اور لاقانونیت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ذوالفقار علی بھٹو کی انقلابی سوچ ، فکر ، تدبر و حکمت اور فکر و فلسفہ ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔سو ان حالات میں اس کتاب کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے۔پاکستان کی ملکی ، بین الاقوامی سیاست، تاریخ ، اقتصادیات، سماجیات ، عمرانیات میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک تحفہ کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے مطالعے سے نہ صرف پاکستان کے گزشتہ نصف صدی کے حالات و واقعات سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ مستقبل کی پیش بندی کی صورت گری بھی دکھائی دیتی ہے۔

اس کتاب کو ’’ بھٹو لیگیسی فاوئنڈیشن‘‘ لاہور نے شائع کیا ہے اور بک ہوم نے اسے اپنے روائتی معیار اور دلکش اندا ز کے ساتھ طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ کتاب میں تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں جو کتاب کے ظاہری حسن میں اضافہ کا باعث ہیں۔ کتاب کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ملک کی سیاست سے دل بستگی رکھنے والوں کے عمومی طور پر اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے لیے خصوصی طور پر اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے افکار سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے افادہ کیلئے کتاب کی کم سے کم قابل قبول قیمت مقرر کی جانی چاہیے ۔

جاوداں چہرے
مرتب: ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم
صفحات: 382، قیمت: 1200 روپے
ناشر: مقبول اکیڈمی، لاہور

زیر تبصرہ کتاب پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی مرتب کردہ ہے ۔ اس کتاب میں تحریک ، تشکیل اور تعمیر پاکستان میں حصہ لینے والے چند احباب کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی اس نوعیت کی 6کتب پہلے بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ اس کتاب میں محمد بن قاسم ، سلطان فتح علی ٹیپو، سرسید احمد خان، قائداعظم محمد علی جناحؒ ، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ ، مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح، قائدِ ملت خان لیاقت علی خان، سرآغاخان (سوئم) سلطان محمد شاہ، چودھری رحمت علی، سردارعبدالرب نشتر، مولانا ظفر علی خاں، مولانا الطاف حسین حالی، حجرت مولانا محمد حسین شوق، مرزا معمول انور، حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی، حضرت خواجہ حافظ غلام سدید الدین معظمیؒ ، حکیم حافظ محمد سعید، خواجہ عبدالحق انصاری مدنی، میاں عبدالعزیز ایڈووکیٹ، خان میاں خان، شیخ حاجی غلام رسول ، خواجہ افضال حسین ایڈووکیٹ،ملک مظفر علی احسانی ، چودھری بشیر احمد تارڑ، عنایت اللہ خان، قاضی صادق حسین ایڈووکیٹ، ملک محمد اقبال ایڈووکیٹ، محمد حیات ابو شاہین فاروقی، میاں غلام رسول ، خواجہ محمد حنیف، حضرت خواجہ محمد افضل، عبدالرحمن بٹ، پروفیسر مظہر الحق، عبداللہ پاشا، سید عبدالرزاق(کابلی شاہ)، حمید نظامی، آغا شورش کاشمیری، جسٹس ایس اے رحمن ،

بیگم سلمیٰ تصد ق حسین، حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ ، حکیم محمد سعید، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ ، راؤ عبدالمنان خان، الحاج میاں محمد انور ، چودھری آفتاب احمد، فضل الہٰی چودھری، عبدالغفور چوہان ، ماسٹر میاں محمد بشیر شاد، ملک غلام نبی ایڈووکیٹ، مفتی محمد طفیل گوئندی ایڈووکیٹ، رحمن قریشی، ڈاکٹر ملک محمد سعید کمہ ، زاہد ملک، پروفیسر عبدالحمید وائیں وبرادران ، میجر محمد اکرام الحق، خادمِ پاکستان عبدالستار ایدھی جیسی شخصیات کے حالاتِ زندگی اور خدمات کا تذکرہ شامل ہے ۔تاریخ ، سیاست ، ادب اور سوانح حیات کا مطالعہ کرنے والے حضرات کیلئے یہ کتاب یقینا مطالعہ کے لائق ہے کہ یہ محض شخصیات کی زاتی زندگی پرہی روشنی نہیں ڈالتی ان کے دور کے سیاسی ، سماجی اور ثقافتی حالات کا احاطہ کرتی ہے۔ایک بیش قیمت معلومات کا خزانہ قراردی جاسکتی ہے۔بلاشبہ ڈاکٹر ہارون الرشیدتبسم کی یہ کاوش لائق تحسین ہے۔

ہاکنز سے ڈاکنز تک
(مغرب کیا سوچ رہا ہے)
مصنف : تنزیل الرحمن
صفحات:245 ، قیمت:700 روپے
ناشر : بک ٹائم، اردو بازار کراچی


تنزیل الرحمن کی یہ کتاب مغربی مفکرین کے اہم مضامین اور مقالات کے اردو تراجم پہ مشتمل ہے۔یہ مضامین گذشتہ پچاس برسوں کے دوران لکھے گئے ہیں۔ یہ ہمیں مغربی معاشرے کی جدید فکر کی سمت کا پتادیتے ہیں۔ کتاب میں جن مضامین کے تراجم کئے گئے ہیں ان میں فلسفہ، سائنس، سماجیات، فلکیات، معاشیات، سیاسیات اور مذہب شامل ہیں۔ یہ تمام اہم شعبہ ہائے فکر کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان میں بیشتر مضامین نے آگے چل کر باقاعدہ کتاب کی شکل اختیار کی۔مصنف کا اتنے متنوع موضوعات کا انتخابات اور ان کا ترجمے جیسا کام خود ان کی علمی گہرائی کا غماز ہے۔

سائنس اور مذہب سے متعلق نظریات پر مشتمل دو مضامین کتاب کا حصہ ہیں ۔اوّل سر رچرڈ ڈاکنز (جن کا شمار دورِ حاضر کے مشہور ملحدین میں کیا جاتا ہے) کا ’’زمین پہ جاری عظیم ترین عمل‘‘ ،دوم کیرن آرمسٹرانگ کا ’’ہمیں خدا کے بارے میں دوبارہ سوچنا ہوگا‘‘دونوں ہی اہم اور اپنے اپنے نقطۂ نگاہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ علم فلکیات کے حوالوں سے دو دلچسپ مضامین میں اسٹیفن ہاکنگ کا ’’کائنات کا سفر‘‘اور کارل سیگاں کا ’’تجسس اور تشکیک‘‘ شامل ہے۔

شہرہ آفاق اسکالرنوم چومسکی کاپچاس سال قبل لکھا گیا یہ مضمون ’’پروپیگنڈااور دانشوروں کی ذمے داریاں‘ ‘پاکستان کے آج کل کے حالات کا مکمل عکاس نظر آتا ہے۔ جارج سوروس کا مضمون ’’آزاد سماج اور اس کے دشمن‘‘سرمایہ دارانہ معیشت، اشتراکیت اور مارکسیت کے سماجی نظام سے آزاد سماج تک کا احاطہ کرتا ہے۔دیگر اہم مضامین میں البرٹ آئن اسٹائن کا ’’مذہب اور سائنس‘‘، بل گیٹس کا ’’روبوٹس کا دور‘‘، فرانسس فوکویاما کا ’’نظریاتی تاریخ کا اختتام‘ـ‘ اور ہنری کیسینجر کا ’’عالمی رجحانات اور امن عالم‘‘ شامل ہیں۔

ان کے علاوہ بھی کتاب میں شامل ہر مضمون منفرد اور دلچسپ ہے، جن میں کارل پوپر، پال کینیڈی، ملٹن فرائیڈ مین اور رابرٹ فال کے بہترین مضامین اور مقالات شامل ہیں۔تنزیل الرحمن نے ایک مترجم کی حیثیت سے موضوع کی دلچسپی کو اردو زبان میں بھی اسی طرح برقرار رکھا ہے۔ ایک قاری کے لئے اس کتاب کے بارے میں اگر کہا جائے کا مصنف نے کوزے میں دریا بند کردیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
وجود باری تعالیٰ (مذہب، فلسفہ اور سائنس کی روشنی میں)
مصنف: ڈا کٹر حا فظ محمد ز بیر
قیمت: 260 روپے
ناشر: دارالفکر الاسلامی
قیمت: 260 روپے ، صفحات: 224


عام و خاص کی تفریق کے بغیر اس کا ئنات کا ہر انسان اپنے خالق کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔ وجود باری تعالیٰ فلسفہ، تاریخ اور مذہب تینوں کا موضوع رہا ہے اور ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں اس سوال پر غور کیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی آمد نے بھی اس حوالے سے انسانوں کے نظریات کو متاثر کیا ہے۔

زیرنظر کتاب میں موضوع کی مناسبت سے مختلف نقطہ ہائے نظر بیان کیے گئے ہیں تاکہ ایک غور و فکر کرنے والے دماغ کو تمام ضروری مباحث سے آگاہ کیا جا سکے اور وہ مختلف علوم کی روشنی میں پیش کیے گئے ان نظریات کو سمجھ سکے۔مصنف ڈاکٹر حافظ محمد زبیر نے دور حاضر کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام مکاتبِ فکر کے دانشوروں کے استدلال کو اس کتاب میں جمع کیا ہے۔ وجود باری تعالی پرمذہبی، فلسفیانہ اور سائنسی نظریات کے فرق کو بھی واضح کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد وجود باری تعالیٰ پر اٹھنے والے مختلف سوالات کو استدلال کے ساتھ ردکرتے ہوئے ایمان کی دولت کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ کتاب دلکش انداز میں شائع کی گئی ہے۔کتاب کے متن کو تین ابواب میں تقسیم کر کے پیش کیا گیا ہے۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔